هفته,  26 جولائی 2025ء
انور ظہیر رہبر کی نظم “یہ دنیا جنت ہو جائے”

تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

جنگ اور امن و امان کا موضوع ہر زبان کی شاعری میں شروع دن سے ہی ایک اہم اور حساس مضمون رہا ہے۔ عالمی جنگوں، سرد جنگ اور موجودہ دور کی ہند و پاک علاقائی کشیدگیوں نے ادب کو ایک فکری موڑ دیا ہے، جہاں جنگ کی ہولناکی اور امن کی خواہش شعری اسلوب میں شدت سے ظاہر ہوتی ہے۔ برلن (جرمنی) میں مقیم ممتاز اردو شاعر، کالم و افسانہ نگار انور ظہیر رہبر کا نام اردو ادب میں ایک خاص پہچان رکھتا ہے ۔ آپ جرمنی کے شہر برلن کی نمائندہ تنظیم اردو انجمن برلن کے نائب صدر اور “اردو آوازِ ادب برلن “ کے روح رواں ہیں۔ آپ کا ایک شعری مجموعہ” تجھے دیکھتا رہوں”، افسانوں کے دو مجموعے
” عکسِ آواز”، “سپنوں کے ساحل پہ” اور کالموں کاایک مجموعہ” پردیسی کے قلم سے” بھی منظر عام ہوکر اردو ادب کے قارئین میں اپنی خاص پہچان بنا چکا ہے۔ اس کے علاوہ انور ظہیر رہبر نے جرمنی میں موجود اردو افسانہ نگاروں کے افسانوں پر ایک کتاب
” رنگِ برگ “ بھی ترتیب دی ہے جو انور ظہیر رہبر کا ایک تاریخی کارنامہ ہے ۔ آپ کی نظموں کا مجموعہ “ ایک لمحہ ہے تمھارے پاس” عنقریب شائع ہوکر اردو ادب کے قارئین تک پہنچے گی ۔
آپ کی زیر نظر نظم “یہ دنیا جنت ہو جائے” اس سلسلے کی ایک نمائندہ تخلیق ہے جو نہ صرف ایک امن پسندانہ پیغام رکھتی ہے بلکہ عصر حاضر کی جنگی نفسیات اور اس کے مہلک اثرات پر بھی ایک بھرپور تنقیدی روشنی ڈالتی ہے۔

انور ظہیر رہبر کی یہ نظم ایسے عالمی دور میں لکھی گئی ہے جہاں روس-یوکرین جنگ، فلسطین میں جاری مظالم، کشمیر اور دیگر خطوں کی کشیدگی نے دنیا کو ایک بار پھر جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ شاعر نے یورپ میں رہتے ہوئے عالمی سیاسی فضا کو بہت قریب سے محسوس کیا ہے اور اسی تناظر میں یہ نظم ایک عالمی شعور کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ نظم نہ صرف پاکستانی قارئین بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی ایک امن کا منشور ہے۔

نظم کی ابتدائی سطور جنگی فضا کی عکاسی کرتی ہیں مثل:
“دونوں سمت ہے ایک سا دعویٰ
دونوں سمت ہے ایک سا نعرہ”
یہاں شاعر اس تضاد کو اجاگر کرتا ہے کہ جنگ میں دونوں فریق فتح کا دعویٰ کرتے ہیں، مگر حقیقی فتح کس کی ہوتی ہے؟ یہ سوال نظم کے اندرونی تانے بانے کو تشکیل دیتا ہے۔ شاعر آگے چل کر اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ دشمن کو شکست ضرور دی گئی، لیکن فوراً ہی ایک تبدیلی آتی ہے:
“لیکن پیارے اہل وطن ہمارے
اپنے ہو تم چاند، ستارے”
یہ لفظ “لیکن” دراصل نظم کا انقلابی موڑ ہے، جہاں شاعر فتح کی خوشی کو روک کر ایک فکری مکالمہ شروع کرتا ہے۔ یہاں سے نظم جنگ کے خلاف ایک اخلاقی اور انسانی مقدمہ بن جاتی ہے۔
نظم کا مرکزی پیغام یہ ہے کہ:
“جنگ تو ہوتی ہے اک وحشت
جنگ ہے کب کس گھر کی ضرورت”
یہ اشعار جنگ کی غیر ضروری اور غیر فطری نوعیت کو واضح کرتے ہیں۔ شاعر نے جنگ کو غربت، بربادی اور منافرت کا سبب قرار دیا ہے اور اسے “انسان کی تربت” سے تعبیر کر کے ایک علامتی انداز اپنایا ہے:
“راکٹ سے مٹتی نہیں غُربت
بنتی ہے انسان کی تُربت”
یہاں ایک تضاد کی صناعی کا استعمال کیا گیا ہے، جہاں سائنس کی ترقی (راکٹ) ایک جانب امید کا نشان ہے، وہیں غربت کی مٹی میں “تربت” بن کر دفن ہو جاتی ہے۔
نظم میں سادگی، روانی اور داخلی لَے نمایاں طور پر
محسوس کی جاسکتی ہے۔ انور ظہیر رہبر نے بیانیہ اسلوب اپنایا ہے جو نثر کی سی شفافیت رکھتا ہے لیکن اپنی داخلی موسیقیت کے باعث قاری کے ذہن پر اثرانداز ہوتا ہے۔ کہیں کہیں رعایتِ لفظی (مثلًا “ظلمت کی دھول، الفت کے پھول”) نظم کو شعری حسن عطا کرتی ہے۔
نظم کا اختتام شاعر کے امن پسندانہ خواب پر ہوتا ہے مثلاً:
“ہم سے دُور جہنم جاۓ
یہ دُنیا جنت ہو جاۓ”
یہاں “جہنم” دراصل جنگ کی علامت ہے جبکہ “جنت” امن و محبت کی تعبیر۔ نظم کا عنوان اور آخری شعر علامتی وحدت رکھتے ہیں، جس سے نظم کا مرکزی پیغام ابھر کر سامنے آتا ہے۔
انور ظہیر رہبر کی نظم “یہ دنیا جنت ہو جائے” عصرِ حاضر کی جنگی سیاست، انسانی اقدار اور امن پسندی کے مابین ایک بصیرت افروز مکالمہ ہے۔ یہ نظم نہ صرف ایک فکری دعوت ہے بلکہ اردو شاعری کی اس روایت کا تسلسل بھی ہے جو انسان دوستی، عدم تشدد اور عالمگیریت کو مرکز میں رکھتی ہے۔
یہ نظم ہمیں سوچنے اور غور و فکر کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ اصل جنگ فتح کی نہیں، بلکہ انسانی بقا اور بقائے باہمی کی ہے۔

‎*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ حالات حاضرہ، علم ادب، لسانیات اور تحقیق و تنقیدی موضوعات پر لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

مزید خبریں