تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
شملہ (ہماچل پردیش) کے سرمور ضلع کے شیلائی گاؤں میں ہٹی قبیلے کے دو سگے بھائیوں، پردیپ نیگی اور کپل نیگی، کی ایک ہی خاتون، سونیتا چوہان، سے بیک وقت شادی نے صرف ایک غیر معمولی رسم کو آشکار نہیں کیا، بلکہ اس سے کئی سوالات نے جنم لیا ہے خاص طور پر مذہب، اخلاقیات، خاندانی نظام، عورت کی حیثیت اور انسانی فطرت کے بنیادی اصولوں پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔
یہ طرزِ ازدواج اگرچہ ہٹی قبیلے کی ایک قدیم روایت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جسے جوڑیدھارن یا دراوپدی پراتھا کہا جاتا ہے، مگر دینِ اسلام کے اصولوں کی روشنی میں یہ عمل قطعاً ناجائز اور سخت حرام ہے۔
اسلام میں نکاح ایک مقدس رشتہ ہے جو صرف ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان قائم ہوتا ہے۔ شریعت مطہرہ کے مطابق ایک عورت بیک وقت دو مردوں کی بیوی نہیں بن سکتی۔ سورۃ النساء (4:24) میں واضح الفاظ میں نکاح کے اصول بیان کیے گئے ہیں اور اس میں ایسے ہر عمل کی صراحتاً ممانعت ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ایک حدیث میں آیا ہے کہ “لا تنكح المرأة على المرأة”
“ایک عورت کا نکاح دوسری عورت کے نکاح پر نہیں ہو سکتا یعنی ایک عورت دو نکاحوں میں بیک وقت نہیں ہو سکتی۔”
اسلام میں یہ عمل نہ صرف زنا کے قریب ہے بلکہ خاندانی نظام کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔
ہندوستان کے کچھ قبائل میں یہ روایت قائم رہی ہے کہ بھائی، زمین یا جائیداد کے بٹوارے سے بچنے کے لیے ایک ہی عورت سے شادی کر لیتے ہیں۔ اس کی مثال ہمیں مہا بھارت کے کردار “دراوپدی” میں بھی ملتی ہے، جو پانچ پانڈو بھائیوں کی مشترکہ بیوی بنی۔ لیکن اسلام کسی بھی جاہلانہ یا قبائلی روایت کو شریعت پر فوقیت نہیں دیتا۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ”أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ”
“کیا وہ جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں؟ حالانکہ اللہ سے بہتر کس کا حکم ہو سکتا ہے ان لوگوں کے لیے جو یقین رکھتے ہیں؟” (المائدہ 5:50)
اس رسم میں عورت کو ایک فردِ واحد یا انسان کی بجائے مشترکہ ملکیت کی حیثیت دی جاتی ہے۔ اس کے جذبات، مرضی، جذباتی ضروریات اور انفرادی تشخص کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ یہ نہ صرف عورت کی تذلیل ہے بلکہ اسے جنسی، جذباتی اور نفسیاتی استحصال کا شکار بنا دیتا ہے۔
اسلام نے عورت کو ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے اعلیٰ مقام پر فائز کیا ہے۔ ایک مرد کو اجازت ہے کہ وہ چار عورتوں سے نکاح کرے لیکن ہر نکاح میں انفرادی حیثیت سے اور عدل و انصاف کے ساتھ شادی کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کے برعکس ایک عورت کی دو مردوں سے بیک وقت شادی نہ صرف انسانی وقار کی توہین ہے بلکہ عورت کے جذباتی، نفسیاتی اور معاشرتی تحفظ کی بھی نفی کرتی ہے۔
ایسے رشتے نہ صرف بچوں کی ولدیت اور شناخت کو مشکوک بنا دیتے ہیں بلکہ خاندانی وحدت، محبت، اعتماد اور نظم و ضبط کو بھی بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ اگر ایک عورت کی دو مردوں سے بیک وقت ازدواجی وابستگی ہو تو نہ صرف وراثت اور ولدیت کے مسائل جنم لیتے ہیں بلکہ معاشرتی انتشار اور ذہنی خلفشار میں اضافہ ہوتا ہے۔
یہ کہنا کہ شادی مذہبی رسومات کے تحت ہوئی، قطعاً ناقابلِ قبول ہے، جب وہ رسومات خدا کے قانون سے متصادم ہوں۔ کوئی بھی رسم، روایت یا ثقافت اسلام کی حدود کو عبور نہیں کر سکتی۔
پردیپ اور کپل نیگی کا ایک ہی عورت سے شادی کرنا کوئی “ثقافتی احیاء” نہیں بلکہ ایک سنگین مذہبی انحراف ہے۔ اگر کوئی رسم انسان کی فطرت، اخلاق، دین اور انصاف کے اصولوں سے متصادم ہو تو اسے رد کرنا ہی انسانیت اور دین کا تقاضا ہے۔
حکومت ہند کو چاہیے کہ وہ ایسی غیر انسانی رسومات پر پابندی عائد کرے۔
اسلامی ممالک کو چاہیے کہ ایسے واقعات پر فکری و دینی ردعمل دیں تاکہ مسلم اقلیت گمراہ نہ ہو۔
مقامی علماء اور دانشوروں کو چاہیے کہ وہ عوام کو دین کی اصل تعلیمات سے روشناس کروائیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کو ایسے استحصالی رواجوں کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔
اسلام کا پیغام واضح ہے کہ “شریعت کے بغیر رسم، ظلم ہے”۔ لہٰذا ہمیں اپنی اقدار کو صرف روایات سے ہی نہیں بلکہ دین کے آئینے میں بھی پرکھنا چاہیے۔