تلاش/سید خالد گردیزی
13جولائی 2025
ان سوالوں کے جوابات کے تعاقب میں ایک سینئر بیورو کریٹ نے بتایا ہے کہ
راولپنڈی کے ایک سرکاری دفتر میں مصروفِ کار ایک ٹیم نےخطے کا یہ نام رکھا۔
جھنڈا وہیں متعین ایک میجر صاحب نے ۱۹۴۸ میں ڈیزائن کیا جن کا نام عبد الحق مرزا تھا۔
ترانہ ابوالاٹر حفیظ جالندھری نے تصنیف کیا جو ان دنوں مسلح افواج کے تعلقات عامہ کے شعبے میں دیگر لوگوں بشمول فیض احمد فیض کام کررہے تھے۔
یہ تمام امور کشمیر لبریشن فورس کے نام سے قائم ایک تنظیم نے انجام دئیے جو ریاست جموں وکشمیر میں بھارتی فوج، ڈوگرا سامراج اور ان کی مدد کیلئے آنے والے بھارتی رجواڑوں کے دستوں سے برسرِ پیکار افواجِ پاکستان، مجاہدینِ آزادی، قبائلی رضا کاروں اور گلگت بلتستان کے نیم فوجی سکاؤٹس کے مابین رابطۂ کار کیلئے ذمے دار تھی۔
اب تو وہ بھی سوچتے ہونگے، بھارتیوں کو جموں وکشمیر میں شکست دینے کیلئے جو ڈھانچہ کھڑا کیا تھا وہ اپنے ہی سامنے آ کھڑا ہوا ہے۔بقولِ شاعر
جِسے بُت بنایا وہ خُدا بن گیا۔
سرداروحید(ڈائریکٹر جنرل ایس ڈی ایم اے) کی تحقیقات کے مطابق
آزادکشمیر کا نام۔
آزاد کشمیر کا نام سب سے پہلے مسلم کانفرنس نے 1945 میں پونچھ میں اپنے 13ویں عام اجلاس میں ایک پمفلٹ کے عنوان کے طور پر استعمال کیا تھا جو “آزاد کشمیر” کہلاتا تھا۔ یہ نام مسلم کانفرنس کی طرف سے نیشنل کانفرنس کے “نیا کشمیر” پروگرام کے جواب میں پیش کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ جموں و کشمیر کے مسلمان مسلم لیگ کے ایک الگ وطن (پاکستان) کے لیے پرعزم ہیں اور مسلم کانفرنس ان کا نمائندہ ادارہ ہے۔
بعد ازاں 24 اکتوبر 1947 کو آزاد کشمیر کی عبوری حکومت قائم ہوئی جس کے پہلے صدر غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان تھے۔ اس تحریک کے دوران کشمیری مسلمانوں نے مہاراجہ ہری سنگھ کے بھارت سے الحاق کے فیصلے کے خلاف آواز اٹھائی اور پاکستان کے ساتھ شمولیت کی خواہش ظاہر کی۔
لہٰذا تاریخی حوالوں کے مطابق، آزاد کشمیر کا نام اور اس کی تحریک کی ابتدا مسلم کانفرنس نے کی اور اسے 1945 کے بعد باقاعدہ طور پر استعمال کیا گیا اور سردار ابراہیم خان کی زیر قیادت جو حکومت جنجال ہل کے مقام پر قائم ہوئی اس نے باقاعدہ طور پر لفظ ازاد کشمیر کو اس خطہ کی عبوری حکومت کے لیے استعمال کیا۔
2. آزادکشمیر کا جھنڈا: تخلیق اور تاریخی پس منظر
کچھ غیر مستند حوالوں سے ملتا ہے کہ آزادکشمیر کا جھنڈا 1947 میں “کشمیر فریڈم لیگ” کے رہنما پنڈت جے کے ریڈی اور ان کے ساتھیوں نے ڈیزائن کیا۔ مسٹر ریڈی کا تعلق سری نگر سے تھا۔ اس جھنڈے کی تشکیل کا مقصد ریاست جموں و کشمیر کی آزاد انقلابی حکومت کے قیام کے بعد ایک الگ ریاستی شناخت کو اجاگر کرنا تھا۔
کچھ ذرائع کے مطابق، لیفٹیننٹ کرنل (ر) عبد الحق مرزا نے بھی 1948 میں اس جھنڈے کو “کشمیر لبریشن فلیگ” کے طور پر ڈیزائن کیا تھا.
ان دونوں جھنڈوں کو ازاد کشمیر کا جھنڈا ماننے میں مشکل یہ ہے کہ نہ تو کوئی تاریخی حوالہ موجود ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ ان جھنڈوں کی شباہت یا ڈیزائن کیا تھا اور نہ یہ کہ یہ جھنڈے استعمال ہوئے۔ بدیں وجہ 1975 والا جھنڈا ھی مستند ہے اور زیر استعمال بھی۔
جھنڈے کی منظوری:
24 ستمبر 1975 کو “آزاد جموں و کشمیر اسٹیٹ فلیگ آرڈیننس” کے تحت جھنڈے کو باضابطہ طور پر ریاستی پرچم کے طور پر اپنایا گیا۔ جو اس مقصد کی لئے قائم کمیٹی نے تجویز کیا تھا اس آرڈیننس کو اس وقت کے صدر سردار محمد ابراہیم خان نے منظور کیا۔
جھنڈے کی خصوصیات اور علامتیں
سبز رنگ: مسلم اکثریت کی نمائندگی کرتا ہے۔
زرد/سنہری رنگ: ریاست کی غیر مسلم اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے (تقریباً 25%)۔
سفید پٹیاں: ریاست کے چار بڑے دریاؤں (راوی، چناب، جہلم، سندھ) کی علامت ہیں۔
ستارہ و ہلال: ریاست کی اسلامی تاریخ اور عظمت کی علامت ہے۔
3. آزادکشمیر کا ترانہ:
آزاد کشمیر کے ترانے کی تاریخ اور تفصیلات
ترانے کا نام “وطن ہمارا آزاد کشمیر” آزاد جموں و کشمیر کا سرکاری ریاستی ترانہ ہے جسے ابو الاثر حفیظ جالندھری نے لکھا، جنہوں نے پاکستان کا قومی ترانہ بھی تخلیق کیا تھا۔
پاکستان کے قومی ترانے پر تحقیق کرنے والے محقق عقیل عباس جعفری کہتے ھیں کہ دراصل پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کا قومی ترانہ ایک نظم ہے جسے 1949 میں حفیظ جالندھری نے تحریر کیا تھا اور 1958 میں اسے پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان راولپنڈی میں ریکارڈ کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ریڈیو پاکستان راولپنڈی سٹیشن پر اس نظم کو سب سے پہلے منور سلطانہ اور عنیقہ بانو نے گایا تھا۔
عقیل عباس جعفری کے مطابق حفیظ جالندھری کی اس نظم کو 1972 میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے قومی ترانے کا درجہ دیا گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس میں ایک آدھ مصرعہ بھی بدلا گیا۔ حفیظ صاحب کی نظم میں مصرعہ تھا ’جاگ اٹھے گی ساری وادی‘ جس کو دوبارہ ترتیب دے کر ’جاگ اٹھی ہے ساری وادی‘ لکھا گیا ہے۔
عقیل عباس جعفری کے مطابق اس نظم میں ’آزاد کشمیر‘ سے مراد صرف پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر نہیں بلکہ متحدہ کشمیر (پاکستان اور انڈیا دونوں کے زیر انتظام منقسم کشمیر) تھا۔
انھوں نے بتایا کہ اس کی موسیقی عنایت شاہ اور رشید عطرے نے ترتیب دی تھی۔ ’فلمی دنیا میں آنے سے قبل رشید عطرے ریڈیو پاکستان راولپنڈی سے وابستہ تھے۔
اب یہی ترانہ روزانہ آزاد کشمیر کے سرکاری ریڈیو پر نشر ہوتا ہے اور ریاستی تقریبات میں بجایا جاتا ہے۔
ایک اور آفیسر منیر قریشی کا کہنا ہے کہ یہ ایک دلچسپ مگر غیر معروف حقیقت ہے کہ “آزاد کشمیر” کا تصور 12 مئی 1946 کو مزدور کسان کانفرنس نے پیش کیا، جس کی قیادت پنڈت پریم ناتھ بزاز اور عبدالسلام یاتو کر رہے تھے۔ آزاد کشمیر کا جھنڈا عبدالرّحمٰن متھا اور گنوپتی کیشوا ریڈی نے ڈیزائن کیا تھا۔
مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف گلگت بلتستان اور موجودہ آزاد کشمیر میں جو بغاوتیں اور حکومتیں قائم کی گئیں، ان سب نے یہی جھنڈا استعمال کیا۔ تاہم، جلد ہی گلگت بلتستان کا علاقہ پاکستان کے زیرِ انتظام آ گیا اور بعد ازاں وہاں اسٹیٹ سبجیکٹ قانون بھی مؤخر کر دیا گیا۔
نوٹ:ان سوالوں کے جوابات کی تلاش میں حاصل ہونے والی معلومات کو ریکارڈ پر لایا گیا ہے جبکہ مزید تاریخی حوالے سامنے آنے پر اس میں ترمیم کی گنجائش موجود رہے گی۔