تحریر: داؤد درانی
آج کل اکثر یہ بات بہت کی جاتی ہے کہ یہ یہ صدی کتابوں کے مطالعے کی آخری صدی ہے اور اس کے بعد گویا کہ دنیا میں لوگ کتابیں اور رسالے وغیرہ پڑھنا چھوڑ دینگے ۔یہ بات اگر ہم جیسے پسماندہ ممالک کے لوگوں کے بارے میں کی جائے تو کسی حد تک درست ہوگا کہ یہ صدی مطالعہ کرنے کی آخری صدی ہوگی مگر یورپ اور امریکہ میں آج بھی مطالعہ کرنے کا شوق کم نہیں ہوا ۔
کمپیوٹر ، انٹرنیٹ ، واٹس ایپ وغیرہ جن ترقی یافتہ ممالک کی ایجاد ہیں وہاں کے لوگ آج بھی کتابوں اخبارات اور رسائل کے مطالعے کے شوقین ہیں ۔ آج بھی ان ممالک میں کتابوں کے لاکھوں ایڈیشن چھپتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان ترقی یافتہ ممالک کی ان ایجادات سے پسماندہ ممالک کے لوگ غیر ضروری فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنا وقت بلا وجہ ان فضولیات میں ضائع کرتے ہیں ۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اب کتابیں اور اخبارات و رسائل لوگ ہارڈ فارم میں اس لیے نہیں پڑھتے کہ یہ سب اب آن لائن کمپیوٹر یا موبائل فون پر پڑھے جا سکتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسا ہر گز نہیں ہے ۔ آج لوگ موبائل فون پر مطالعہ کرنے کی جگہ فضولیات میں اپنا وقت برباد کرتے ہیں اور سارا دن وٹس گروپس میں غیر سنجیدہ گفتگو اور فضول وڈیوز کو شئیر کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔
خاص طور پر ٹک ٹاک نوجوان نسل کی تباہی میں اصل کردار ادا کر رہا ہے۔ میرے ایک عزیز نے جو یورپ میں رہتا ہے مجھے بتایا کہ پاکستان جیسے ممالک میں موبائل کمپنیاں جو پیکج دیتی ہیں وہ یورپ میں بہت کم ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں لوگوں کے پاس اتنا فارغ وقت نہیں ہوتا کہ وہ اسے اس طرح کے فضول کاموں میں صرف کر سکیں جبکہ انہی ممالک کی موبائل کمپنیوں نے پسماندہ ممالک کے لوگوں کو ٹک ٹاک اور دیگر ان لائن فضولیات کا عادی بنایا ہوا ہے اور یہ کمپنیاں ہر سال ان پسماندہ ممالک سے کروڑوں اربوں ڈالر کماتی ہیں ۔
مطالعہ کا شوق کم ہونے کے جرم میں ہماری حکومتیں بھی برابر کی شریک ہیں ۔ یہاں صاحبان اقتدار کی عیاشیوں کے لیے تو بے انتہا پیسہ خزانے میں موجود ہوتا ہے لیکن ملک کے چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں لائبریریوں کے قیام کے لیے حکومت کے پاس وسائل کی کمی ہے ۔ ملک میں کاغذ کی قیمت اتنی ذیادہ ہے کہ دو سو صفحات کی کتاب کی قیمت بھی سات ، آٹھ سو روپے سے کم نہیں ہوتی لہذا ان حالات میں اپنے مطالعے کا شوق پورا کرنے کے لیے کتابیں کیسے خریدیں جا سکتی ہیں ؟.
اس کا آسان حل یہ ہے کہ تمام تعلیمی اداروں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ اپنے ہاں لائبریری بنائیں اور طالب علموں کو مطالعے کی طرف راغب کرنے کی کوشش کریں ۔
خاص طور پر نجی تعلیمی ادارے جو بھاری فیسیں وصول کرتے ہیں وہ تو بہ آسانی اپنے اداروں میں لائبریریاں بنا سکتے ہیں ۔
میری عمر کے لوگوں کو یاد ہوگا کہ آج سے چالیس ، پچاس سال قبل ذیادہ تر سکولوں میں ہر کلاس کے لیے ہفتے میں ایک بار لائبریری کا پیریڈ ہوا کرتا تھا جس میں ہمیں لائبریری لے جا کر کہا جاتا تھا کہ ہم اپنی اپنی پسند کی کتابیں پڑھیں جس سے بچوں میں مطالعہ کا شوق پروان چڑھتا تھا مگر آج کی نسل کو کتاب تو چھوڑیے یہ بھی شاید علم نہیں کہ لائبریری کس کو کہتے ہیں ؟
لائبریری میں بیٹھ کر مطالعہ کرنے کا ایک الگ ہی مزہ ہوا کرتا تھا ۔ لائبریری کے ہال میں ہر طرف کتابوں کی بھینی بھینی خوشبو مہک رہی ہوتی تھی اور ہر طرف ایک خواب ناک خاموشی چھائی ہوتی تھی ۔ لوگ سرگوشی میں محض ضرورت کی باتیں کیا کرتے تھے تاکہ مطالعہ کرنے والے شور سے تنگ نا ہوں ۔ ذیادہ تر لوگ جو کتابیں خرید نہیں سکتے تھے وہ لائبریریوں کی ممبر شپ لے کر اپنی پسند کی کتابوں کے مطالعے سے لطف اندوز ہوتے تھے ۔
اسی طرح قریباً ہر محلے میں لوگوں نے اپنے گھروں کے کسی کمرے میں نجی لائبریری بنائی ہوتی تھی جس کو عرف عام میں ایک آنہ لائبریری کہا جاتا تھا ان لائبریریوں سے بھی بڑے پیمانے پر لوگ مستفید ہوتے تھے اور علم کے پھیلاؤ میں ان ایک آنہ لائبریریوں کا بھی بہت بڑا کردار تھا ۔
میں جس علاقے میں رہتا ہوں وہاں بڑے پیمانے پر مختلف قسم کا کاروبار ہو رہا ہے جدید شاپنگ سینٹرز اور قیمتی ریستوران کی بہار ہے لیکن آج سے پانچ سال قبل یہاں کتابوں کی ایک ہی دکان تھی جس کا چکر لگانے والے گنے چنے لوگوں میں ایک میں بھی تھا ۔ دکان کا سٹاف بہت مہربان اور خوش اخلاق لوگوں پر مشتمل تھا انہوں نے میری بے حد حوصلہ افزائی کی اور مجھے کہا کہ آپ جب بھی چاہیں اس دکان میں بیٹھ کر اپنی پسندیدہ کتب کا مطالعہ کر سکتے ہیں ۔ میں نے بھی انکی مہربانی کا پورا فائدہ اٹھایا اور بڑی تعداد میں اپنی پسندیدہ کتابیں پڑھیں اور یہ دکان ان مہربان دوستوں کی وجہ سے میری ذاتی لائبریری کا درجہ اختیار کر چکی تھی کہ ایک دن مجھے خبر ملی کی کتابوں کی فروخت نا ہونے کی وجہ سے یہ دکان بند کی جا رہی ہے۔
میں نے اپنی زندگی میں جو دکھ اب تک برداشت کیے ہیں یہ شاید ان دکھوں میں ایک بڑا دکھ تھا ۔
آج بھی اگر حکومت چاہے تو کاغذ کی قیمت میں کمی کرکے اور تعلیمی اداروں میں لائبریریاں قائم کرکے اس بات کو غلط ثابت کر سکتی ہے کہ یہ صدی کتابوں کے مطالعے کی آخری صدی ہو سکتی ہے ۔
میرے لیے یہ بات بھی باعث اطمینان ہوگی کہ اگر آج کا نوجوان آن لائن ہی سہی مطالعہ کر تو رہا ہے مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہے آج کا نوجوان بلکہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ عمر رسیدہ لوگ بھی سوشل میڈیا کے بے مقصد استعمال میں نشے کی حد تک مصروف ہیں اور غیر ملکی موبائل کمپنیاں ان کے اس شوق کا پوری طرح سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں تباہ اور اپنی جیبیں بھرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔