سید شہریار احمد
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ
ہم وہ نہیں ہیں جو ہم بننا چاہتے ہیں بلکہ ہم وہ ہوتے ہیں جو معاشرہ ہم سے تقاضا کرتا ہے۔
ہم وہ بنتے ہیں جس کا انتخاب ہمارے والدین کر لیتے ہیں
چونکہ ہم کسی کو مایوس نہیں کرنا چاہتے اور ہماری شدید ضرورت یہ ہے کہ ہم سے محبت کی جائے۔
اس لیے ہمارے اندر جو بہترین چیزیں موجود ہیں ہم ان کا گلا گھونٹ ڈالتے ہیں۔
آہستہ آہستہ ہمارے خوابوں کی روشنی، ڈراؤنے سایوں میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
ہم دوسروں کی خوشیوں کا سبب بننا چاہتے ہیں۔
اپنے خوابوں کو، اپنی خوشیوں کو !اپنی امنگوں کو لوگ کی توقعات کے باعث پس پشت ڈال دیتے ہیں۔
لوگ ہم سے تقاضا کرتے ہیں کہ ہم معزز بن کر پیش آئیں
ہر وقت؟ ہر لمحے ،جب کہ ہمارے اندر ایک بچہ ہے، وہ دکھوں پر رونا چاہتا ہے۔ وہ کسی بات پر خوشی کا اظہار کرنے کے لیے چیخنا چاہتا ہے۔
یہ وہ چیزیں ہوتی ہیں جو ہم کر نہیں پاتے
وہ ممکنات ،جنہیں ہم زندگی نہیں دے سکتے۔
ہم کیا جیتے ہیں؟ ہم اپنی زندگی نہیں جیتے ۔
ہم دوسروں کے لیے جیتے ہیں۔
دوسرے ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ وہ ہمارے بارے میں کیا باتیں کرتے ہیں؟کیا وہ ہماری باتوں کو سمجھتے ہیں؟
میرے خیال سے ایسا ہی ہے۔ اس کے برعکس ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ ہم سب ہمیشہ خود کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے اندر موجود ایک خبیث روح کو باہر آنے سے روکتے ہیں اور اپنے ہی اندر، اسے کہیں چھپانے میں لگے رہتے ہیں۔
ہاں یہ سچ ہے۔
جیسا کہ میں سمجھ سکا ہوں ،سائیکاٹری میں اسے منیاک ڈیپریسیو سائیکوسس کہا جاتا ہے
لیکن اب اسے بائپولر ڈس آرڈر کہا جاتا ہے
جو کہ زیادہ درست ہے۔
یہاں میں شرطیہ کہتا ہوں کہ تقریبا ہر شخص کے اندر ایک خبیث روح ضرور ہے جو ہمیں ایک دوسرے سے ہمیشہ ڈرا کے رکھتی ہے۔
ایک دوسرے کے خوف میں مبتلا رکھتی ہے۔
ایک دوسرے کے قریب نہیں آنے دیتی۔
محبت کرنے سے روکتی ہے۔
منفی جذبات اور احساسات ہمارے ذہنوں میں بھڑکاتی ہے۔
ہر ایک، ہر ایک سے ڈر رہا ہے
ایک کہانی ہے
ایک چوہا ہمیشہ اداس رہا کرتا تھا کیونکہ وہ بلی سے ڈرتا تھا
ایک رحم دل جادوگرنی نے اس پر رحم کھایا اور اسے بلی میں تبدیل کر دیا تاکہ وہ بلیوں سے نہ ڈرے
اور وہی ہوا،چوہا جو بلی بن گیا تھا اس نے بلیوں سے ڈرنا چھوڑ دیا لیکن اسے کتوں سے ڈر لگنے لگا
جادوگرنی نے اسے کتے میں تبدیل کر دیا تو وہ کتا، شیر سے خوفزدہ ہونے لگا جادوگرنی کیونکہ بہت رحم دل تھی لہذا اس نے اس کتے کو شیر بنا دیا
اب شیر ہر وقت شکاری سے ڈرتا تھا
آخر کار جادوگرنی نے اپنی ساری کوششیں ترک کر دیں اور اسے دوبارہ چوہے میں تبدیل کر کے کہنے لگی۔
میں تمھاری کوئی مدد نہیں کر سکتی
کیونکہ تم نے اپنی بہتری اور ترقی کو سمجھا ہی نہیں۔
یہ بچوں کی کہانی ہے دیکھیے اس میں یہی سبق مل رہا ہے کہ ہم سب کسی دوسرے کے آگے چوہے ہیں۔
کیا ہم سب ایسے نہیں ہیں؟ کیا خیال ہے آپ کا ؟
ہم سب اپنے اندر کی خبیث روحوں کو کنٹرول کرتے ہیں لیکن جب وہ ہمارے کنٹرول کے باوجود بھی ہمارے کنٹرول سے نکل جائیں تو پھر ایسے مرد پیدا ہوتے ہیں جو اپنی بیویوں سے تو محبت کرتے ہیں اور ساتھ انہیں مارتے پیٹتے بھی ہیں تاکہ وہ
ان کے سامنے منتیں کریں، معافیاں مانگیں اور وہ انہیں فورا ہی معاف کر دیں ۔
خبیث روحیں ۔
کیا ہم انسان، بعیداز قیاس جانور نہیں ہیں؟
ایک باپ اپنے نابالغ بیٹے سے کہتا تھا کہ جب میں آفس جاؤں تو بعد میں کتے کا خیال رکھا کرو
بچہ اپنے باپ کی شفقت چاہتا تھا
اس سے بات کرنا چاہتا تھا، اس سے محبت کرتا تھا
لیکن باپ کے دفتر جانے کے بعد اسے وہ ساری توجہ اس کتے پر دینا پڑتی تھی جس کے بارے میں اس کے باپ کا حکم تھا کہ میرے جانے کے بعد اس کا خیال رکھنا ۔
ایک دن خبیث روح اس بچے کے جسم سے نکل آئی ۔
اس نے بے عقل جانور سے اپنا بدلہ لینے کا فیصلہ کیا ۔
وہ جانور ،جو کبھی انسانی مزاج نہیں سمجھ سکتے۔
اس نے اسے زدو کوب کرنے کا ایسا طریقہ ڈھونڈا کہ کوئی نشانات بھی باقی نہ رہیں۔
چنانچہ اس نے اسے ایسی جھاڑو سے مارنا شروع کیا جس کے کونے نوکیلے تھے اور اس وقت تک کتے کو مارتا رہا جب تک کہ وہ تھک نہیں گیا۔
شام کو جب اس کا والد گھر آیا تو اس نے پالتو کتے کا خیال رکھنے پر اپنے بیٹے کا شکریہ ادا کیا
اور اسے سینے سے لگایا
اور زندگی پھر دوبارہ پہلے جیسی ہو گئی
کیونکہ
کتے تو بول نہیں سکتے نا۔
ہر ایک میں کوئی نہ کوئی تاریک پہلو ہوتا ہے۔
ہر شخص مطلق قوت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ میں نے ایسی بے شمار کہانیاں پڑھی ہیں جب لوگوں نے اپنے اندر کے اسی نامعلوم آسیب کی تحریک سے مجبور ہو کر اپنی قوت کا نازیبا اور شدید اظہار کیا اور اپنی آسیب زدہ روح سے ہر متنفس کو اذیت دی ۔
جہاں تک میرا تعلق ہے میں نے اپنی زندگی میں حتی الامکان اچھے کام کرنے کی کوشش کی ہے۔
نتائج صفر رہے ہیں۔
اب میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں ایک ولن کے طور پر اپنی نفرت کا محرک سمجھے بغیر زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے اندر بھی خبیث آتما باہر آئے اور ساری دنیا سے انتقام لے
لیکن دوسری جانب میں ایک ایسا مرد ہوں جو اپنی فیملی سے بے پناہ محبت کرتا ہے اور محنت بھی
تاکہ انہیں کسی چیز کی تمنا نہ رہے
لیکن مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آتی کہ یہ احساسات میرے اندر اتنی شدت کے ساتھ کہاں سے آتے ہیں۔
یہ بات ہر فرد کے لیے درست ہو سکتی ہے۔
آمر اسی طرح پیدا ہوتے ہیں کہ ابتدا میں عموما ہر شے کی نیت سچی ہوتی ہے
لیکن آہستہ آہستہ وہ جو چیزیں دوسروں کے لیے بہتر سمجھ رہے ہوتے ہیں بدترین ہوتی چلی جاتی ہے۔
جب ہم اپنے تاریک پہلو کو ظاہر کرتے ہیں تو ہمارے اندر کی اچھائی مکمل طور پر ختم جاتی ہے۔
میں اپنی سوچوں پر اکثر پریشان اور سہمہ رہتا ہوں۔ کیا ایسا ہر ایک کے ساتھ ہوتا ہے؟
نہیں۔
بہت کم لوگ درست اور غلط کی فکر میں غلطاں رہتے ہیں
اگر آپ اپنے شہر کے مختلف سائیکاٹرس سے وقت لیں تو ان کا شیڈیول بہت مصروف ہوگا
جو اس بات کی علامت ہے کہ ہمارے ملک میں
تصور سے بھی زیادہ، ذہنی غیر متوازن لوگ رہ رہے ہیں۔