هفته,  12 جولائی 2025ء
کل کیا ہوگا ؟ ہماری بلا سے
کل کیا ہوگا ؟ ہماری بلا سے

تحریر: داؤد درانی

کل کیا ہوگا ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں ، کل کیا ہونے والا ہے ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہم وہ قوم ہیں جو حال میں مست ہیں ہمیں مستقبل کی کوئی فکر نہیں مستقبل بعید تو دور کی بات ہم مستقل قریب سے بھی بے خبر رہنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اگر کوئی ہمیں کہے کہ کل ایک بلا آنے والی ہے جو ہماری زندگی کو اجیرن کر سکتی ہے تو ہم یہ سوچ کر سکون کی گہری نیند سو جاتے ہیں کہ کل کے آنے میں تو ایک رات ہے ابھی باقی ہے جب کل آئے گا تو دیکھی جائے گی ۔ ہم ہر چیز کو جھوٹ ، دھوکہ اور اپنے خلاف سازش سمجھتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ جس بلا سے ہمیں ڈرایا جا رہا ہے یہ کبھی بھی نہیں آئے گی یہ یا تو ہمارے خلاف کوئی سازش کر رہا ہے یا بلا وجہ ہمیں ڈرا کر کوئی اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے ۔
پھر جب کل آتا ہے اور وہ بلا ہم سے چمٹ جاتی ہے تو ہم واویلا کرنے لگتے ہیں کہ کون ہے جو ہمیں اس بلا سے بچائے جبکہ وہ بلا ہمارے ہی اعمال کی سزاء ہوتی ہے لیکن ہم اسکا زمہ دار کسی اور کو قرار دیتے ہیں ۔ آج سے کئی برس پہلے جب آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی بات ہوتی تو ہم اسے مغربی ممالک کے چونچلے اور پسماندہ ممالک کے خلاف سازش قرار دیتے اور کہا کرتے تھے کہ ترقی یافتہ ممالک کے فنڈز سے بننے والی یہ غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) محض اپنی جیبیں بھرنے کے لیے ہمیں ڈرا رہی ہیں کیونکہ ہمارے ہاں تو سب ٹھیک ہے برسات میں بارشیں برس رہی ہیں سردیوں میں چمکدار دھوپ چمکتی ہے بہار میں پھول کھل رہے ہیں وغیرہ وغیرہ لہذا ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں اور آلودگی وغیرہ سے نا ڈرایا جائے ۔
مگر وقت گزرنے کے ساتھ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کا جن بے قابو ہوتا جا رہا ہے اور وسطی پنجاب اور لاہور شہر کے لیے نومبر ، دسمبر اور کسی حد تک جنوری کے مہینے عذاب بنتے جا رہے ہیں ۔
بے تحاشہ آلودہ کی وجہ سے خشک سردی کے مہینوں میں وسطی پنجاب کی فضا سموگ کی وجہ سے زہر آلود ہو جاتی ہے اور سورج زمین سے پردہ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ شہروں میں بڑھتی ہوئی بے ہنگم ٹریفک اور اس کے زہر آلودہ دھوئیں کی وجہ سے شہروں کی فضاء دھوئیں سے آلودہ دھند جسے سموگ کا نام دیا گیا ہے سے اٹ جاتی ہے اور لوگوں کے لیے سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے ۔ بڑے پیمانے پر سانس اور سینے کے امراض پھیل جاتے ہیں اور بعض مرتبہ تو حکومت کو کئی روز کے لیے تعلیمی ادارے بھی بند کرنے پڑتے ہیں ۔
ایک تو ملک میں پہلے سے تعلیم کے شعبے کا برا حال ہے اور دوسری طرف بار بار تعلیمی اداروں کی بندش سے طلباء کا قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے ۔ آج سے سالوں پہلے موسم سرما پنجاب کا ایک خوبصورت اور حسن موسم ہوا کرتا تھا اور لاہور شہر میں سردیوں میں بہار کا سماں دکھائی دیتا تھا ۔ ہر طرف میلوں اور نمائش وغیرہ کی تقریبات کا اہتمام ہوا کرتا تھا ۔ سردیوں کی چھٹیوں میں لوگ لاہور کی سیر کو آیا کرتے تھے مگر اب حالت یہ ہے کہ خشک سردی کے موسم میں لاہور کے اپنے باسیوں کا شہر چھوڑنے کو دل کرتا ہے ۔
گاڑیوں کے دھوئیں کے علاوہ کارخانوں میں ٹریٹمنٹ پلانٹ نا ہونے کی وجہ سے بھی زہریلا دھواں فضا میں جاکر شدید آلودگی کا باعث بنتا ہے ۔ اسی طرح بڑی تعداد میں اینٹوں کے بھٹوں سے جو دھواں نکلتا ہے وہ سرد اور خشک موسم کی وجہ سے فضاء کو آلودہ کرتے ہوئے سموگ کا باعث بنتا ہے ۔ ان بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی میں تبدیل کرنے کے دعوے تو بہت کیے جاتے ہیں لیکن خدا بھلا کرے رشوت اور سفارش کا کہ جس کی وجہ سے یہ کام نہیں ہو رہا ۔ جنگلات کے بے دریغ کٹائی اور نئے درخت لگانے کی طرف توجہ نہ دینے کی وجہ سے زمین کے پھپھڑوں کو کینسر لگ رہا ہے اور ماحول کی صفائی کا عمل رکنے لگا ہے ۔ ماحول کی صفائی ضروری ہے ، درخت لگائے جائینگے ، اینٹوں کے بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کیا جائے گا ، دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف سخت کاروائی ہوگی وغیرہ وغیرہ جیسے دعوے صرف اسی وقت سنے جاتے ہیں جب سردیوں کے موسم میں سموگ کی بلا ہم سے چمٹ جاتی ہے مگر جیسے ہی بارشیں شروع ہوتی ہیں ہم ایک مرتبہ پھر مستقبل کی فکر چھوڑ حال میں مست ہوکر لمبی تان کر سو جاتے ہیں کہ کوئی ہمیں تنگ نہ کرے ہم سکون کی نیند سو رہے ہیں کل کیا ہوگا ہماری بلا
میر تقی میر کی روح سے معزرت کے ساتھ ان کے شعر کے ایک مصرعے کو حال کے لحاظ سے تبدیل کرتے ہوئے
سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹک ہنستے ہنستے سو گیا ہے

مزید خبریں