جمعرات,  10 جولائی 2025ء
عبدالستار ایدھی: انسانیت کا مسیحا

تحریر: ڈاکٹر محمدریاض چوہدری

“سروری در دین ما خدمت گریست “ اسی ماٹو کے تحت دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی زندگی کو دوسروں کی خدمت کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ ان کی ذات روشنی کا مینار بن جاتی ہے، جو اندھیرے میں بھٹکتی انسانیت کو راستہ دکھاتی ہے۔ پاکستان کے عظیم سماجی کارکن، عبدالستار ایدھی مرحوم، ایسے ہی ایک درخشاں ستارے تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی بے لوث خدمت، ہمدردی، اور انسان دوستی کے لیے وقف کر دی –

– عبدالستار ایدھی 1928 میں بھارت کے شہر گجرات میں پیدا ہوئے۔
بچپن ہی سے ان میں خدمتِ خلق کا جذبہ موجود تھا؛ والدہ کی بیماری نے انہیں دوسروں کے درد کو محسوس کرنا سکھایا۔
1947 میں قیامِ پاکستان کے بعد وہ کراچی آ گئے، جہاں سے ان کی خدمت کا سفر شروع ہوا۔
– 1951 میں انہوں نے ایک چھوٹے سے کلینک سے “ایدھی فاؤنڈیشن” کی بنیاد رکھی۔
ان کے پاس نہ وسائل تھے، نہ کوئی بڑی ٹیم، صرف ایک بے مثال جذبہ تھا۔
– وقت کے ساتھ ساتھ یہ فاؤنڈیشن پاکستان کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم بن گئی۔
ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی رضاکارانہ ایمبولینس سروس مانی جاتی ہے۔
یتیم خانے، لاوارث بچوں کے لیے جھولے، خواتین کے لیے پناہ گاہیں، منشیات کے عادی افراد کے لیے بحالی مراکز، اور لاشوں کی تدفین جیسے بے شمار شعبے اس فاؤنڈیشن کا حصہ ہیں۔
انہوں نے مذہب، نسل، زبان یا قومیت کی تمیز کے بغیر ہر انسان کی مدد کی۔
– ایدھی صاحب نہایت سادہ زندگی گزارتے تھے: دو جوڑے کپڑے، ایک جوڑا جوتے، اور ایک چھوٹا سا کمرہ ان کی کل کائنات تھی۔
– وہ ہمیشہ خود کو “خدمت گزار” کہتے تھے، اور کسی بھی قسم کی شہرت یا عہدے سے دور رہتے تھے۔
ان کا ایمان تھا کہ “انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے۔”

عبدالستار ایدھی 8 جولائی 2016 کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
ان کی وفات پر پورا پاکستان سوگوار ہوا، اور انہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کیا گیا۔
– ان کی فاؤنڈیشن آج بھی ان کے بیٹے فیصل ایدھی کی قیادت میں انسانیت کی خدمت کر رہی ہے۔
عبدالستار ایدھی ایک فرد نہیں، ایک تحریک تھے۔ وہ ہمیں یہ سکھا گئے کہ اگر نیت نیک ہو، تو ایک فرد بھی دنیا میں انقلاب لا سکتا ہے۔ ان کی زندگی ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ خدمتِ خلق ہی اصل عبادت ہے۔ وہ چلے گئے، مگر ان کا مشن، ان کا جذبہ، اور ان کی

مزید خبریں