تحریر: داؤد درانی
پچھلے دنوں کراچی کے علاقے لالو کھیت میں ایک پرانی اور مخدوش عمارت کے گرنے کا افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق 22 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے عمارت کے ملبے کے نیچے مزید لاشیں بھی ہو سکتی ہیں ۔
کراچی میں پیش آنے والا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل بھی اس قسم کے واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں ۔ کراچی کے مختلف علاقوں میں بڑی تعداد میں ایسی عمارتیں اب بھی موجود ہیں جو اسقدر مخدوش ہیں کہ ان میں رہائش انتہائی خطرناک ہے مگر غریب لوگوں کی مجبوری ہے کہ وہ اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر ان عمارتوں میں رہائش پذیر ہیں ۔
ہر مرتبہ جب کراچی میں اس قسم کا کوئی افسوسناک واقعہ پیش آتا ہے تو عارضی طور پر صوبائی حکومت کے عہدے داران میں ہلچل مچ جاتی ہے وزیر اعلیٰ اور دیگر اعلیٰ عہدے داران کی طرف سے اس پر سخت افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے اور بیانات جاری کیے جاتے ہیں کہ اس واقعے کی پوری تفتیش کی جائے گی اور جو بھی ذمہ دار ہوگا اسے سخت سزا دی جائے گی جبکہ ملبے کا ڈھیر بننے والی عمارت کا مالک کہیں بیرون ملک بیٹھا ہنس رہا ہوتا ہے ۔
یہ گرما گرمی چند دن تک جاری رہتی ہے اور پھر راوی چین ہی چین لکھنے لگتا ہے اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارا میڈیا بھی اس قسم کے واقعات کو حکمرانوں کی طرح بھلا اپنی دیگر دلچسپیوں میں مشغول ہو جاتا ہے ورنہ ورنہ میڈیا کو چاہیے کہ وہ ہر کچھ عرصے کے بعد حکمرانوں کو یاد دلاتا رہے کہ مزکورہ معاملے کا کیا بنا اور کاروائی کہاں تک پہنچی ہے ؟
اب پھر حسب روایت وزیر اعلیٰ سندھ اور دیگر صوبائی وزراء کی طرف سے دعوے کیے جا رہے ہیں کہ کراچی شہر میں پرانی ، مخدوش اور ناقابل رہائش عمارات کی لسٹ تیار کی جا رہی ہے تاکہ انہیں خالی کروا کر لوگوں کی جانوں کو محفوظ بنایا جا سکے ۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ کراچی میں ایسی انتہائی پرانی عمارتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جن میں ہزاروں خاندان رہائش پذیر ہیں تو کیا سندھ کی صوبائی حکومت کے پاس اتنے وسائل موجود ہیں کہ وہ ان لوگوں کو کسی اور جگہ پر رہائش مہیا کر سکے ؟ کیونکہ ان عمارتوں میں رہنے والے لوگ اتنے غریب ہیں کہ وہ کسی اچھی یا مناسب جگہ پر گھر کروائے پر نہیں لے سکتے اور ناہی خرید سکتے ہیں ۔
کچھ عرصہ قبل اعلیٰ عدلیہ کے حکم پر کراچی میں نسلہ ٹاور نامی ایک جدید رہائشی عمارت کو اس وجہ سے چند دنوں میں گرا دیا گیا تھا کہ وہ غیر قانونی طور پر قبضے کی زمین پر تعمیر کی گئی ہے لیکن دوسری طرف عدلیہ کراچی میں سینکڑوں مخدوش عمارتوں کے بارے میں خاموش ہے اور آئے روز اس قسم کی عمارتوں کے گرنے سے بڑی تعداد میں قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں ۔
یہ مسئلہ صرف کراچی شہر کا نہیں ہے کیونکہ کراچی حقیقت میں اتنا پرانا شہر نہیں جتنے پرانے پاکستان کے کئی اور شہر ہیں ۔ لاہور ایک بہت پرانا شہر ہے اور اندرون لاہور میں بھی کئی عمارتوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت مخدوش ہو چکی ہیں لیکن شاید اس بات کا انتظار کیا جا رہا ہے کہ جب یہاں کوئی افسوسناک واقعہ ہوگا تو سرکاری ادارے بیدار ہونگے ۔
لاہور کے ساتھ ساتھ پشاور کے اندرونی علاقوں میں بھی نہایت پرانی اور مخدوش عمارتوں کی کمی نہیں ہے لیکن یہاں کے حکمران بھی مطمعن ہیں کہ ہمارے ہاں تو کوئی ایسا واقعہ ابھی تک پیش نہیں آیا اس لیے بلا وجہ فکر کرکے اپنے ذہن کو تکلیف میں ڈالا جائے جب ہوگا (خدانخواستہ) تو سندھ حکومت سے بیانات کی کاپیاں لے کر مسئلے کو حل کر لینگے ۔
آج ہی اخبار میں ایک چھوٹی سے خبر شائع ہوئی ہے کہ راولپنڈی میں بوسیدہ عمارتوں کے مالکان کو نوٹس جا ری کر دیے گئے ہیں اور ان میں 188 عمارتوں کو خطرناک ترین قرار دے دیا گیا ہے ۔ راولپنڈی میونسپل کارپوریشن کی انتظامیہ نے ان بوسیدہ عمارتوں کے مالکان کو نوٹس دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ جلد از جلد ان عمارتوں کو خود گرادیں ورنہ ایم سی اسے گرائے گی اور اسکا خرچہ بھی مالکان ادا کرینگے ۔ اب پتہ نہیں کہ ملک بھر میں یہ جوش و خروش کب تک رہے گا اور کب یہ کیسز سرد خانے کی نظر ہونگے ؟
کیونکہ عدالتیں تو موجود ہیں جہاں stay order جیسے قوانین کی وجہ سے بڑے بڑے اہم مسائل طویل عرصے کے لیے ناقابل حل ہو جاتے ہیں ۔
داؤد درانی