هفته,  05 جولائی 2025ء
5 جولائی 1977 اور پاکستان
5 جولائی 1977 اور پاکستان

یوں تو پاکستان کی تاریخ میں کئی سیاہ دن گزرے ہیں لیکن 5 جولائی 1977 میری نظر میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے سیاہ ترین دن کہلایا جا سکتا ہے کیونکہ اس دن پاکستان میں جو کچھ ہوا اس کے مضر اثرات 45 سال گزرنے کے باوجود آج تک پاکستان میں محسوس کیے جا رہے ہیں ۔
یوں تو ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کو بھی مثالی جمہوریت قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ بھٹو صاحب بھی اپنے سیاسی مخالفین کو کسی بھی صورت میں برداشت کرنے کے قائل نہیں تھے لہذا 1977 کے عام انتخابات میں ہر صورت میں اقتدار میں رہنے کے لیے انہوں نے دھاندلی کروائی جس کی وجہ سے ان کے سیاسی مخالفین نے انکے خلاف ایک ملک گیر تحریک شروع کر دی ۔ بھٹو نے جہاں اپنے دور حکومت میں کچھ غلطیاں کیں وہاں انہوں نے پہلی مرتبہ حقیقی معنوں میں عالم اسلام کو متحد کرنے کے لیے اقدامات کیے جس میں لاہور میں منعقد ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس انکا ایک بڑا کارنامہ تھا کیونکہ اس کانفرنس میں تمام اسلامی ممالک کے سربراہان نے شرکت کی اور انہیں اپنی طاقت کا احساس دلایا گیا ۔
یہ کانفرنس امریکہ اور مغربی ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی لہذا امریکہ نے چن چن کر ان لیڈروں کو جو مسقبل میں امریکہ کے لیے خطرے کا باعث بن سکتے تھے ختم کردیا اور بھٹو نے بلا وجہ 1977 کے عام انتخابات میں دھاندلی کرکے امریکہ کو یہ موقع دیا کہ وہ پاکستان میں گڑ بڑ پھیلا کر بھٹو کے نہ صرف اقتدار کو ختم کرے بلکہ بھٹو کو ختم کر دیا جائے ۔
5 جولائی 1977 کو جھوٹ کا سہارا لے کر اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے عارضی طور پر مارشل لاء لگانے کا اعلان کیا لیکن پھر یہ عارضی حکومت گیارہ سال پر محیط ہوگئی اور پاکستانی عوام کے لیے گھٹن میں سانس لینا بھی دوبھر ہوگیا ۔ جنرل ضیاء کے پاس سب سے بڑا ہتھیار اسلامائزیشن کا تھا جس کی وجہ سے ملک مذہبی انتہا پسندی کی دلدل میں دھنستا چلا گیا ۔
پاکستان میں پہلی بار شیعہ ، سنی اختلاف کو اسقدر ہوا دی گئی کہ اس کے سنگین اثرات آج تک محسوس کیے جا رہے ہیں ۔ 1977 سے قبل ہر سال ملک میں عاشورہ محرم مذہبی عقیدت و احترام سے منایا جاتا تھا مگر جنرل ضیاء کی شدت پسند پالیسی کی وجہ سے اب ایک طویل عرصے سے ملک بھر میں عاشورہ محرم خوف کے سائے میں منایا جاتا ہے ۔
جنرل ضیاء الحق نے ملک کے سیاسی کلچر کو تباہ کرکے رکھ دیا اور سیاستدانوں کو کرپشن کا عادی بنایا ۔ 1985 میں غیر جماعتی الیکشن کروا کر اسمبلی ممبران کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے اس نے ترقیاتی فنڈز کے نام پر اربوں روپے دینے کا جو مکروہ سلسلہ شروع کیا گیا تھا وہ آج بھی جاری ہے اور ممبران اسمبلی اور عوام کو اب یہ پتہ ہی نہیں کہ اسمبلی ممبران کا کام قانون سازی ہے نہ کہ نالیاں ، پل اور سڑکیں وغیرہ بنانا۔
اپنے اقتدار کو طول دینے لیے جنرل ضیاء الحق نے مذہب کا استعمال اس طریقے سے کیا کہ آج بھی لوگ اسکا مزاق اڑاتے ہیں ۔ اپنے آپ کو امیر المومنین بنانے کے لیے جنرل ضیاء نے ملک میں دھاندلی سے بھر پور ایک ریفرنڈم کروایا جس میں پاکستان کے عوام سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ کو پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ منظور ہے ؟ اگر منظور ہے تو جنرل ضیاء اگلے پانچ سال تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہونگے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ کونسا مسلمان پاکستانی ہوگا جسے پاکستان میں اسلامی نظام منظور نہیں ہوگا مگر اسکا جنرل ضیاء کو ملک کا صدر بنانے سے کیا تعلق ؟ یار لوگوں نے اس کے بارے میں ایک لطیفہ گھڑا کہ کیا آپ نے چوریاں کرنی چھوڑ دی ہیں اگر جواب ہاں تو کیا آپ پہلے چوریاں کرتے تھے اور اگر جواب ناں میں تو مطلب آپ اب بھی چور ہیں ( لطیفہ تو کچھ اور ہے لیکن چونکہ اسے ضبط تحریر میں نہیں لایا سکتا لہذا آپ اپنی سوچ کے مطابق اس میں ترمیم کر سکتے ہیں)
سیاسی پارٹیوں کو کمزور کرنے کے لیے ملک کی بقاء اور اتحاد کو بھی نشانہ بنایا گیا جس کی سب سے بڑی مثال کراچی شہر ہے جس کو پاکستان کی شہ رگ کہا جاتا ہے اور جہاں 1977 سے قبل مکمل امن تھا اور اسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا مگر جنرل ضیاء نے وہاں متحدہ مہاجر مومنٹ کے نام سے ایک سیاسی پارٹی کے لبادے میں ایک دہشت گرد تنظیم بنائی جس نے کراچی اور حیدر آباد میں تباہی پھیلا دی ۔
سندھ میں علیحدگی تنظیموں کو ہوا دی گئی ۔
جنرل ضیاء الحق نے افغانستان میں سویت یونین کے خلاف جنگ میں امریکہ کا پٹھو بن کر اپنی اور اس وقت کے چند جرنیلوں کی اولاد کے لیے تو اربوں روپے ضرور کمائے مگر اس جنگ نے پاکستان کے سیاسی کلچر اور معاشرے میں جو تباہی پھیلائی اس کا تدارک آج تک نا ہو سکا ۔ جنرل ضیاء نے اپنے اقتدار کے لیے پاکستانی قوم میں تقسیم کی بنیاد رکھی اور اسے ذات پات ، خاندان ، اور برادری میں تقسیم کیا ۔ یہ تو بھلا ہو C-130 طیارے اور آموں کی پیٹیوں کا کہ جن کی برکت سے 1988 میں پاکستانی قوم کو ایک ظالم و جابر فوجی ڈکٹیٹر سے نجات ملی لیکن افسوس جنرل ضیاء الحق نے اپنے گیارہ سالہ دور اقتدار میں جو گند پھیلایا ہے کوئی بھی حکمران اسکی صفائی کی طرف توجہ نہیں دے رہا کیونکہ جنرل ضیاء کی پالیسیوں سے ہر سیاسی لیڈر کو پورا اتفاق ہوتا ہے اور وہ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس ملک پر حکومت کرتا ہے ۔ جنرل ضیاء الحق نے 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کا ڈرامہ رچایا تھا تو اس کی بدولت جو ربڑ سٹیمپ اسمبلی بنی اس کے زریعے جنرل ضیاء نے ملکی آئین میں اپنی مرضی کی ترامیم کروا کر نہ صرف آئین کا حلیہ بگاڑ دیا بلکہ ملک میں جمہوریت کو مزاق بنادیا گیا اور نہ صرف جنرل ضیاء بلکہ اسکے کے پاک غلام اسحاق خان نے کئی مرتبہ آٹھویں ترمیم کا استعمال کرکے ملک میں جمہوریت کے تسلسل کو روکنے کی کوشش کی ۔
پیپلز پارٹی نے جب اپنے ایک دور اقتدار میں تمام سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ملکر آئین سے یہ جمہوریت شکن ترامیم ختم کروائیں تو اس وقت کے چئیرمن سینٹ رضا ربانی نے پارلمینٹ کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ آج پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا ایک اہم دن ہے کہ جس دن ہم نے ضیاء الحق منحوس کی ترامیم کو آئین سے ختم کردیا۔
جنرل ضیاء کے بیٹے اعجاز الحق جو مسلم لیگ ن کے کاندھوں پر سوار ہوکر پارلیمنٹ پہنچا تھا اس نے اس پر پارلیمنٹ سے واک آؤٹ کیا لیکن حقیقت تو حقیقت ہی ہوتی ہے ۔
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ہر سال جنرل ضیاء کی موت کے دن اسکا بیٹا اعجاز الحق انتہائی ڈھٹائی سے اپنے باپ کے کارناموں پر اخبارات میں مضامین لکھتا ہے جس کو لگ پڑھ کر یقیناً لطف اندوز ہوتے ہونگے کیونکہ ہنسنے سے بدن میں خون بڑھتا ہے ۔

داؤد درانی

مزید خبریں