تحریر: خالد مجید
ظالم لہریں اور بے بس لمحے
میں اس وقت یہ سطور تھرتھراتے ہاتھوں سے لکھ رہا ہوں۔
میں نے ایک ویڈیو دیکھی ہے…
ایک ایسا منظر جو میری آنکھوں سے اتر کر میری روح میں جم گیا ہے۔
پانی کا شور… لوگوں کی چیخیں… اور بے بسی کے وہ لمحے جو انسان صرف دیکھ سکتا ہے، کچھ کر نہیں سکتا۔
مجھے آج پانی سے خوف آ رہا ہے۔
میرے اردگرد سب محفوظ ہے، لیکن میں کانپ رہا ہوں۔
میں سوچتا ہوں، جو لوگ اس پانی میں کھڑے تھے، وہ کیسے خود کو سنبھال رہے ہوں گے؟
جو بچے اپنے باپ کے کندھوں پر بیٹھے تھے، ان کی آنکھوں میں کیسا ڈر ہوگا؟
اور وہ باپ… جو آخری وقت تک اپنے بچوں کو بچانے کی کوشش کر رہا تھا، اس کے دل پر کیا بیت رہی ہوگی؟یہ کوئی فلم کا سین نہیں تھا۔یہ ہماری حقیقت ہے۔
ایک حقیقت جو ہم روز نظرانداز کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ ہمارے دروازے پر آ کر سانحہ بن جائے۔بارش نے اچانک آ کر زندگیاں چھین لیں۔وہ سب جو چہروں پر مسکراہٹیں لیے گھر سے نکلے تھے، آج کسی کی آنکھوں کے آنسو بن گئے ہیں۔اور ہم… ہم صرف دیکھ سکتے ہیں، افسوس کر سکتے ہیں۔میں سب سے ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں:جب بھی برساتی موسم ہو، خدارا! اپنی محبتوں کو، اپنے بچوں کو، اپنے ماں باپ کو لے کر ان جگہوں پر نہ جائیں، جہاں خطرہ ہو، جہاں لینڈ سلائیڈنگ ہو سکتی ہو، جہاں دریا بپھرے ہوئے ہوں۔یہ تماشہ نہیں، موت کا کھیل ہے۔ہمیں اپنے اردگرد کے موسم کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔
ورنہ کل یہ ویڈیو کسی اور کی نہیں، ہماری ہو سکتی ہے۔یہ کالم نہیں…یہ میرے آنسوؤں کی زبان ہے۔یہ ایک پکار ہے…ایک سوال، ایک نوحہ، اور ایک التجا!
قومیں یوں نہیں مرتیں، جناب! قومیں صرف گولی سے نہیں، بم سے نہیں، سیلاب سے نہیں،قومیں مرتی ہیں… بےحسی سے، فقرے بازی سے، اور لاپروا حکمرانوں کی غفلت سے.
سوال یہ ہے کہ دریائے سوات میں 14 لوگ زندگی اور موت کے بیچ لٹک رہے ہوں، ان کی چیخیں پانی میں گھل چکی ہوں، مائیں آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا رہی ہوں، اور وزیراعلیٰ صاحب. تمبو بانٹنے کی بات کر کر دیں تھوڑی دیر کے لیے تو اپنے سننے پہ یقین نہ آیا یہ تو شکر ہے کہ وہ ویڈیو تھی دوبارہ دیکھی سہہ بارہ دیکھے اور پھر بے حسی کا ماتم کیا دکھ ہوا جناب آپ کی باتوں سے بہت دکھ ہوا انسان کی زندگی سے قیمتی کوئی شے نہیں ہے اور انسان کو انسان کے لیے بنایا ہے اور یہ اعلی منصب جو ملتے ہیں وہ اپنے سے زیادہ اپنے لوگوں کی خدمت کرنے کے لیے ملتے ہیں
کیا واقعی یہ زبان ہے ایک ریاستی نمائندے کی؟
کیا اقتدار اسی دن کے لیے ہوتا ہے جب رعایا پکارے اور آپ کہہ دیں: ’’مجھے کیا؟‘‘کیا یہی ہوتی ہے کارکردگی؟ کہ ریسکیو کے اتنے گھنٹے گزر گئے اور کوئی وہاں نہ پہنچ سکا حد ہے بے حسی کی لاپرواہی کی اور گڈ گورننس کی.
یہی علی امین گنڈاپور جب اسلام آباد پر چڑھائی کرنے نکلے تھے، تو لہجہ جلالی اور فاتحانہ تھا۔
اور آج جب ان کے صوبے میں بچے ڈوب رہے ہیں، تو لہجہ بیگانگی کا ہے۔
یہ سب کیوں ہوا؟
اس لیے کہ بارہ سال میں ایک نیا اسپتال نہ بن سکا،
تعلیم میں ایک نئی سوچ نہ آ سکی،
سیاحت کو زمین تک نہ لایا جا سکا،
اور جب بارش آئی تو صرف دریا نہیں بہے — سارا انتظامی ڈھانچہ بہہ گیا
مگر افسوس!جب ان کا بچہ پانی میں چیخ رہا تھا، آپ تمبو بانٹنے کی بحث کر رہے تھے۔
عوام تو دور کی بات ہے کہ جن کو شعور ہے اسکول کے بچوں نے جو روتے بلکتے بچوں کو دیکھا ہے 14 انسانوں کو ڈوب کے لاشیں بن کے ابھرتے اور ڈسکہ میں جنازے اٹھتے دیکھے ہیں وہ سوال پہ سوال کر رہے ہیں اور جو سوال ہوتا ہے وہ زبان زد عام ہو جائے تو پھر پناہ نہیں ملے گی پھر جواب دینے ہی پڑتے ہیں
بارہ سالہ پرفارمنس کہاں ہے؟ کونسے ادارے مضبوط ہوئے؟کونسے منصوبے مکمل ہوئے؟کونسے عوامی مسئلے حل ہوئے؟اور اگر جواب صرف فقرہ بازی ہو،
تو پھر عوام کو بھی سوچنا ہوگا کہ حکومتیں تقریر سے نہیں، کردار سے چلا کرتی ہیں۔
آخر میں ایک بات عرض ہے:
ریاست صرف زبانی جمع خرچ سے نہیں چلتی،
ریاست ماں ہوتی ہے،
اور ماں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ تمبو اور سچی ہمدردی بانٹے۔