تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
پنجابی زبان نہ صرف پنجاب کی ثقافتی روح ہے بلکہ برصغیر کی قدیم ترین زبانوں میں سے ایک ہے۔ بابا فرید، وارث شاہ، بلھے شاہ، سلطان باہو اور میاں محمد بخش جیسے عظیم صوفی شعرا نے پنجابی کو محبت، رواداری اور روحانیت کی زبان بنایا۔ قیام پاکستان سے پہلے پنجابی، تعلیم، شاعری، لوک گیتوں اور تہذیب کا مرکزی وسیلہ تھی، لیکن بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد اس زبان کو سرکاری اداروں، تعلیمی نظام اور پالیسی سازی میں یکسر نظرانداز کیا گیا۔
پنجاب اسمبلی میں پیش کیا گیا “پنجاب مان بولی بل 2025” بظاہر علاقائی زبانوں کے فروغ کا تاثر دیتا ہے، لیکن اس کے مندرجات پنجابی زبان کو تقسیم، کمزور اور مٹانے کی دانستہ کوشش دکھائی دیتے ہیں۔ بل کی شق 3(2) میں کہا گیا ہے کہ “ہر ضلع میں ایک الگ مادری زبان (مان بولی) پڑھائی جائے گی جو حکومت مقرر کرے گی”۔ اس کے بارے میں پنجابی کہتے ہیں کہ دراصل یہ بل پنجابی زبان کی وحدت اور شناخت کے خلاف ایک سنگین سازش ہے۔
بل میں “مان بولی” کو پنجابی، سرائیکی یا “کسی اور زبان” سے مشروط کرنے کا عمل، نہ صرف لسانی انتشار کو ہوا دینے کا سبب بنے گا بلکہ پنجاب کی لسانی وحدت کو بھی چیلنج کرنے کا سبب بنے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک صدیوں پرانی زبان کو ضلع وار الگ الگ زبان کہہ کر پڑھانے کا کیا جواز ہے؟
کیا باقی صوبے اپنی صوبائی زبان کو ٹکڑوں میں بانٹتے ہیں؟
کیا حکومت پنجابی زبان کی اکثریتی شناخت کو مٹانے کی کوشش کر رہی ہے؟
پنجابی بولنے والوں نے بل کی کئی خامیوں اور سازشی نکات کی نشاندہی کی ہیں جن میں سرفہرست ضلع وار زبان کی تقسیم ہے۔ یہ شق پنجابی زبان کی وحدت کو توڑنے کی کوشش ہے۔
پنجابیوں کا کہنا ہے کہ پنجاب میں بولی جانے والی پوٹھوہاری، مجھی اور ملتانی پنجابی کی بولیاں ہیں، کوئی الگ زبان نہیں۔
بل کے مطابق زبان کے تعین کا اختیار حکومت کو حاصل ہوگا۔ یہ اختیار پنجابی زبان کی شناخت کو مٹانے کے مترادف ہے۔ ممکن ہے کہ آئندہ حکومت لاہور کی مان بولی اردو، پنڈی کی ماں بولی انگریزی اور فیصل آباد کی سرائیکی قرار دے دے۔
پنجابی کے نام کو پس منظر میں دھکیلنا اچھی بات نہیں۔ بل میں “پنجابی” کا ذکر محدود اور غیرموثر انداز میں کیا گیا ہے۔
ہر ضلع کی مان بولی کہہ کر پنجابی کو جان بوجھ کر نظروں سے اوجھل کیا گیا ہے۔
اس بل کے کئی قانونی اور آئینی پہلو ہیں۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 251(3) کے مطابق صوبائی زبان کی تعلیم کی اجازت ہے، لیکن اس بل میں اسے ضلعی سطح پر بانٹ کر آئینی روح سے انحراف کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس بل کے بارے میں پنجابی دانشوروں، وکلاء اور عوام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس بل میں اصلاحات کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ یہ بل صرف ایک قانونی دستاویز نہیں بلکہ پنجاب کے لسانی مستقبل اور ثقافتی تشخص کا فیصلہ کن لمحہ ہے۔
وکلاء کو چاہیے کہ وہ اس بل کے متنازعہ نکات کو عدالت میں چیلنج کریں۔
پنجابی ادیب، اساتذہ، طلبہ، فنکار، صحافی اور نوجوان اس بل کے بارے میں بھرپور آواز بلند کریں۔
میڈیا اور سوشل میڈیا پر عوامی شعور اجاگر کیا جائے اور احتجاجی تحریک منظم کی جائے۔
پنجابی کو واضح طور پر پنجاب کی واحد “صوبائی زبان” قرار دیا جائے۔
پنجابی کی تمام بولیوں کو پنجابی زبان کا حصہ تسلیم کیا جائے۔
ضلع وار تقسیم کی بجائے، مکمل پنجاب میں پنجابی کو لازم مضمون بنایا جائے۔
پنجابی کو اسکول سے یونیورسٹی سطح تک بطور تدریسی زبان نافذ کیا جائے۔
پنجابی اساتذہ کی تربیت، کتب کی تیاری اور تعلیمی اداروں میں زبان کے فروغ کا مؤثر نظام قائم کیا جائے۔
پنجابیوں کا کہنا ہے کہ یہ بل پنجاب کی لسانی شناخت کو ٹکڑوں میں بانٹنے کی دانستہ سازش ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ پنجابی قوم اپنی زبان کی توہین کے خلاف یکجا ہوں۔ پنجابی صرف ایک ذریعہ تعلیم ہی نہیں بلکہ پنجابیوں کی تاریخ، تہذیب، روحانیت اور خودی کی علامت بھی ہے۔
آج بولنا ضروری ہے، ورنہ آنے والی نسلیں پنجابیوں کی خاموشی کا حساب ان سے مانگیں گی۔