تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
جنوبی ایشیائی خطے کی تاریخ تنازعات، سیاسی کشمکش اور جغرافیائی حکمت عملی کی داستانوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس خطے میں طاقت کے توازن کا ایک بڑا عنصر پاک-بھارت تعلقات ہیں، جن میں کشیدگی کی طویل تاریخ ہے۔ 1947ء کی تقسیم ہند کے بعد سے بھارت کی توسیع پسندانہ پالیسیوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے امن کو خطرے میں ڈالے رکھا ہے۔
مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد اس جارحانہ پالیسی نے نئی شکل اختیار کی۔ 2014ء سے لے کر اب تک، بھارت کی موجودہ حکومت نے داخلی ناکامیوں، معاشی بدحالی اور سیاسی دباؤ سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان دشمنی کو ایک حکومتی پالیسی میں بدل دیا ہے۔
آپریشن “بنیان مرصوص” کی وجہ سے بھارتی اضطراب میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ “معرکۂ حق” یعنی آپریشن بنیان مرصوص میں پاکستان نے ایک بار پھر دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو بے نقاب اور ناکام بنا کر بھارتی پراکسی وار کے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ اس کامیابی نے جہاں داخلی امن و امان کے حوالے سے ریاست پاکستان کے عزم کو نمایاں کیا، وہیں مودی حکومت کو ایک تاریخی شکست سے دوچار کیا۔ اس آپریشن کے بعد سے بھارتی حکومت شدید بوکھلاہٹ اور انتقامی رویے کا شکار ہے۔
اپنی اس خفت کو چھپانے کے لیے بھارت نے ایک مرتبہ پھر بلوچستان کو ہدف بنایا ہے، جہاں وہ ریاستی دہشت گردی کے منظم منصوبوں کو عملی جامہ پہنا رہا ہے۔ بھارت، کالعدم تنظیموں کو نہ صرف مالی معاونت فراہم کرتا ہے بلکہ ان کی تربیت، اسلحہ فراہمی اور علاج معالجے کے لیے سہولتیں بھی فراہم کرتا ہے۔ بھارتی میڈیا، خاص طور پر نیوز اینکرز اور تجزیہ کار، کھلے عام ایسی تنظیموں کی سرپرستی کا مشورہ دیتے نظر آتے ہیں، حتیٰ کہ دہلی میں ان کے دفاتر کے قیام کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ یہ عمل نہ صرف پاکستان کی داخلی خودمختاری کے لیے خطرہ ہے بلکہ پورے خطے کی سلامتی کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔
بھارت کی بلوچستان میں مداخلت کوئی نئی بات نہیں۔ تاریخی طور پر پاکستان نے مختلف مواقع پر عالمی سطح پر اس مداخلت کو بے نقاب کیا ہے۔ 2009ء، شرم الشیخ مصر میں دو طرفہ مذاکرات کے دوران پاکستان نے بھارتی مداخلت کا معاملہ باضابطہ طور پر اٹھایا۔ 2010ء، وکی لیکسکے زریعے انکشاف ہوا کہ بھارت بلوچستان میں بدامنی پھیلانے کے لیے خفیہ مشن چلا رہا ہے۔ 2015ء، اقوام متحدہمیں پاکستان نے بھارت کی ریاستی دہشت گردی پر مبنی ایک جامع ڈوزیئر پیش کیا۔ اور 2016ء، کلبھوشن یادیو کی گرفتاریعمل میں لائی گئی۔ بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسر اور “را” کے ایجنٹ کی گرفتاری نے بھارتی ناپاک عزائم کو بے نقاب کر دیا۔ یہ تمام شواہد ناقابل تردید اور مصدقہ بصری، سمعی اور اعدادی شکل میں دنیا کے سامنے آچکے ہیں۔
بدقسمتی سے عالمی برادری بھارتی ریاستی دہشت گردی کے ان شواہد پر خاطر خواہ ردعمل دینے میں ناکام رہی ہے۔ حالانکہ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیکیورٹی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھارت کی کھلی جارحیت اور پاکستان میں تخریبی کارروائیوں کا سخت نوٹس لے۔
پاکستان ایک پُرامن ریاست کے طور پر بارہا اقوام عالم کے سامنے یہ مؤقف رکھ چکا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ لڑ رہا ہے۔ آپریشن بنیان مرصوص کی کامیابی اس امر کا ثبوت ہے کہ پاکستان نہ صرف اپنی سرزمین کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لیے پُرعزم ہے بلکہ وہ کسی بھی بیرونی سازش کو بھی ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مودی حکومت کی بوکھلاہٹ، پراکسی جنگ کی شکل میں بدترین انسانی حقوق کی پامالیوں، ریاستی دہشت گردی اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کا سبب بن رہی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری ”فتنہ الہندوستان” کی دہشت گردی پر دوٹوک موقف اختیار کرے، وگرنہ اس خطے میں امن کا خواب ہمیشہ ایک خواب ہی رہے گا۔