کم عمری کی شادی: نظریاتی کونسل کا مؤقف

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات کہا جاتا ہے جو زندگی کے تمام پہلوؤں،انفرادی، اجتماعی، معاشی، معاشرتی اور عائلی معاملات کا احاطہ کرتا ہے۔ قرآن و سنت میں نکاح اور عائلی زندگی سے متعلق واضح اور جامع احکامات دیے گئے ہیں۔ نکاح کو سنتِ رسول مقبول ﷺ اور ایک مقدس معاشرتی معاہدہ قرار دیا گیا ہے، جس کا مقصد صرف جنسی تسکین نہیں بلکہ خاندان، نسل اور معاشرے کی پاکیزہ تشکیل ہے۔
اسلامی تعلیمات میں بلوغت کو نکاح کے لیے ایک بنیادی شرط تصور کیا گیا ہے۔ تاہم، اسلامی فقہ میں “بلوغت” کی تشریح صرف جسمانی بلوغت تک محدود نہیں بلکہ سماجی، عقلی اور نفسیاتی پہلوؤں کا بھی لحاظ رکھا جاتا ہے۔ مختلف فقہی مکاتب فکر میں بلوغت کی عمر مختلف بتائی گئی ہے، تاہم عمومی طور پر 15 سال کی عمر بلوغت کی علامت سمجھی جاتی ہے، اور اس کے بعد شادی جائز ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے چیئرمین راغب حسین نعیمی کی زیر صدارت حالیہ اجلاس میں 18 سال سے کم عمر کی شادی پر پابندی کے بل کو غیر اسلامی قرار دیا ہے۔ کونسل کے مطابق:عمر کی حد مقرر کرنا اسلامی احکامات سے مطابقت نہیں رکھتا۔18 سال سے کم عمر کی شادی کو “زیادتی” قرار دینا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔نکاح جیسے مقدس عمل کو غیر ضروری قانونی پیچیدگیوں سے محفوظ رکھنا چاہئے۔کم عمری کی شادیوں کی حوصلہ شکنی تو کی جا سکتی ہے مگر اسے غیر قانونی قرار دینا شرعی طور پر درست نہیں۔بل کی منظوری سے قبل اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے نہیں لی گئی جو آئینی تقاضے کے منافی ہے۔
یونیسف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 21 فیصد بچیوں کی شادیاں 15 سے 18 سال کی عمر کے دوران کر دی جاتی ہیں۔ یہ مسئلہ زیادہ تر دیہی، کم تعلیم یافتہ اور معاشی طور پر کمزور طبقات میں پایا جاتا ہے۔ اس طرح کی شادیاں اکثر اوقات بچیوں کی جسمانی، ذہنی اور تعلیمی ترقی میں رکاوٹ بنتی ہیں، جو بعد ازاں گھریلو تشدد، طبی پیچیدگیوں اور ازدواجی ناکامیوں کی صورت میں سامنے آتی ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے سے اختلاف کرنے والے حلقوں کا مؤقف ہے کہ اجتہاد ایک زندہ اور متحرک عمل ہے، جو زمان و مکان کی تبدیلی کے ساتھ احکام کی تعبیر و تشریح کی گنجائش فراہم کرتا ہے۔ اگر کسی عمل کے مضر اثرات وقت کے ساتھ زیادہ واضح ہوں، تو اس پر اجتہادی بنیادوں پر قانون سازی کی جا سکتی ہے، بشرطیکہ وہ قرآن و سنت کی صریح تعلیمات سے متصادم نہ ہو۔
اسلامی تاریخ میں بھی ایسے واقعات ملتے ہیں جہاں عمومی مصلحت اور عوامی فلاح کے پیشِ نظر بعض اجتہادی اقدامات کیے گئے، مثلاً حضرت عمرؓ کا ایک سال تک طلاق ثلاثہ کو ایک طلاق شمار نہ کرنا یا رمضان کے قیام کو جماعت کی شکل میں منظم کرنا۔ ان مثالوں سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ حالات کے مطابق اجتہادی عمل کو اپنانا شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے جائز ہے۔
کونسل نے تھیلیسیمیا کے ٹیسٹ کو لازمی کے بجائے اختیاری قرار دینے کے ساتھ ساتھ عوامی شعور اجاگر کرنے پر زور دیا ہے۔ یہی رویہ کم عمری کی شادی کے معاملے میں بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ شادی کی کم از کم عمر کے حوالے سے قانون سازی سے قبل عوامی، دینی، قانونی اور سماجی طبقات کے درمیان بامعنی مکالمہ ناگزیر ہے۔ اس سلسلے میں چند گزارشات پیش خدمت ہیں۔معاشرتی آگاہی مہمات کے ذریعے والدین کو تعلیم دی جائے کہ نکاح کی عمر صرف جسمانی نہیں بلکہ سماجی اور نفسیاتی بلوغت سے بھی مشروط ہونی چاہیے۔شادی کی عمر سے متعلق کوئی بھی قانون اسلامی نظریاتی کونسل کے مشورے اور دینی اسکالرز کی رہنمائی سے بنایا جائے تاکہ وہ شریعت سے متصادم نہ ہو۔عائلی قوانین کے ہر پہلو پر گہرے فقہی، سماجی اور نفسیاتی تجزیے کی بنیاد پر اجتہادی رائے تشکیل دی جائے تاکہ قانون سازی معتدل، دینی، سماجی اور انسانی تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔
اسلام بلاشبہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جو انسانی زندگی کے ہر پہلو کی رہنمائی کرتا ہے۔ نکاح ایک مقدس بندھن ہے جو صرف عمر کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقل، فہم اور سماجی ذمہ داری کی بنیاد پر قائم ہونا چاہیے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے کو نظرانداز کرنا آئینی، دینی اور قانونی طور پر درست رویہ نہیں۔ تاہم، اجتہادی بصیرت اور علمی گفت و شنید کے ذریعے ایسی قانون سازی ممکن ہے جو نہ صرف شریعت سے ہم آہنگ ہو بلکہ وقت کی ضروریات کا بھی ادراک رکھے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قانون، شریعت اور سماج کے درمیان ایک ہم آہنگ راستہ تلاش کریں جو ہمارے نوجوانوں کے روشن مستقبل کی ضمانت بن سکے۔
ماخذ و حوالہ جات:
قرآن مجید، سورۃ النور، سورۃ النساء
صحیح بخاری، کتاب النکاح
اسلامی نظریاتی کونسل کی پریس ریلیز، مئی 2025
یونیسف رپورٹ برائے کم عمری کی شادی، 2023
وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سابقہ فیصلے

مزید خبریں