کھوکھرزیر کے غازی کا شاندار استقبال
کیا بھارت کا معتبر اخبار بھی سچ نہیں بول سکتا؟

✍️ ملک کاشفؔ اعوان
کھوکھرزیر — چکوال
کالم —— بُریدۂ سَر

کبھی کبھی ایک گاؤں کی گلیاں وقت کے ماتھے پر کچھ ایسی لکیریں کھینچ دیتی ہیں جو تاریخ کی پیشانی کا جھومر بن جاتی ہیں۔ کچھ استقبال لفظوں میں نہیں سموئے جا سکتے، وہ آنکھوں سے دیکھے جاتے ہیں، دل سے محسوس کیے جاتے ہیں اور روح میں سموئے جاتے ہیں۔

آنکھوں دیکھا یہ بھی ایک ایسا ہی منظر تھا — بارہ مئی 2025 کی شام، جب کھوکھرزیر کی مٹی نے اپنے بہادر سپوت، کمانڈو ارسلان صادق کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا جو پاک بھارت کے حالیہ معرکۂ حق سے سرخرو لوٹا تھا۔

یہ استقبال صرف ایک زخمی نوجوان کا استقبال نہ تھا، یہ درحقیقت وطن کی روح کا جشن تھا۔ ایک ایسے دن کی یاد کا خراجِ تحسین جو ہماری قوم کی بقا کی پہچان، قربانی کی معراج کا دن اور دشمن کے غرور کے شکستہ پرچم کی علامت بن گیا تھا۔

پاک فوج کی پامردی کی غیر مرئی سفید دیواروں پر سجے سنہری حروف میں جب غازیوں کے نام لکھے جاتے ہیں تو ان میں ایک اور نام کا اضافہ ہوا —— کمانڈو ارسلان صادق کا۔ کھوکھرزیر جیسے خوشبو میں رچے پہاڑی گاؤں سے تعلق رکھنے والا یہ جوان، جس کے لہو نے وطن کے دامن کو عزت بخشی، اب صرف ایک فوجی نہیں رہا، ایک علامت بن چکا ہے؛ حوصلے، ایثار، اور دیوانگی کی علامت۔

ایس ایس جی کمانڈو، من جانبازم ارسلان شہزاد، جو پاک بھارت معرکۂ حق کے دوران کوٹلی سیکٹر میں دشمن کے سامنے سینہ سپر رہا اور آٹھ مئی کی شام توپ خانے کی گولہ باری میں شدید زخمی ہو گیا۔ اس خوفناک گولہ باری اور کراس فائر میں بنکر کے در و دیوار لرزے مگر ارسلان کی جرأت نہ لرزی۔ اس کا جسم چھلنی ہوا مگر آہنی عزم سلامت رہا۔

سی ایم ایچ راولپنڈی میں اس کے زخموں کا علاج ہوا اور نو مئی کو آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے ہمارے اس بہادر فرزند کی عیادت کی۔ شاید وہ لمحہ ارسلان کے لیے کسی تمغے سے کم نہ تھا۔ مگر اس جنگ کے غازی کا اصل اعزاز وہ تھا جو کھوکھرزیر کی گلیوں نے اسے دیا۔

گاڑی جب گاؤں کی اڈے پر پہنچی تو سبز پرچموں کا سمندر اُمنڈ آیا۔ “غازی ارسلان زندہ باد!” کی صدائیں پہاڑوں سے ٹکرا کر فضا میں گونجنے لگیں۔ بچے گلے میں ہار لیے، بزرگ آنکھوں میں آنسو لیے، مائیں دل میں دعائیں لیے، سب ایک ہی صف میں کھڑے تھے۔

ارسلان نے زخمی قدموں سے جب گاڑی سے نیچے قدم رکھا تو ایسا لگا جیسے وطن کے زخموں پر پھاہا رکھ دیا گیا ہو۔ ایک طرف بانہوں میں باپ کا بازو، دوسری طرف ہاتھوں میں بچوں کا پیار، اور دل میں صرف ایک سجدہ —— شکر کا سجدہ۔ پاک فوج زندہ باد، پاکستان زندہ باد اور پاکستان کی شان، کھوکھرزیر کا مان غازی ارسلان غازی ارسلان کی صدائیں تھیں کہ رگ و پَے سے پھوٹے چلی آ رہی تھیں۔

گلی گلی مٹھائی بٹی، دعائیں بٹیں، آنکھیں بھیگیں، اور سینے چوڑے ہو گئے۔ ہر کسی کو لگ رہا تھا کہ آج پاکستان جیت گیا ہے، آج وطن سلامت ہے، آج سرحد محفوظ ہے۔

کمانڈو ارسلان صادق! تم جیتے جی بہادری سے لڑے۔ زخمی ہوئے تو بھی اسی استقلال سے مورچہ زَن رہے۔ تم نے صرف جنگ نہیں لڑی، تم نے اس قوم کے دل جیتے۔ تمہاری واپسی صرف ایک فرد کی واپسی نہیں، یہ غیرت، حوصلے، اور استقلال کی واپسی ہے۔

کمانڈو ارسلان! تم ایک فرد نہیں، تم پورے ایک عہد ہو۔ تم اس قوم کی غیرت ہو، جو اپنے غازیوں کو بھولتی نہیں۔ تم ان ماؤں کی آنکھوں کے خواب ہو، جو بیٹوں کو وردی پہنا کر وطن پر قربان کر دیتی ہیں۔ تم اس مٹی کا لہو ہو، جو گولی کھا کر بھی سرحد چھوڑنے کو تیار نہیں۔

تمہارا استقبال صرف ایک فرد کا استقبال نہ تھا، یہ درحقیقت وطن کے اُس نظریے کا جشن تھا، جسے شہیدوں نے خون سے سینچا اور غازیوں نے پسینے سے مضبوط کیا۔

یہ جنگ، چاہے کوٹلی کی سرحدوں پر ہو یا نظریات کی سرزمین پر، اُس وقت تک جاری رہے گی جب تک دشمن ہماری وحدت پر نظر رکھے گا۔ مگر جب تک ہمارے پاس ارسلان صادق جیسے بیٹے ہیں، دشمن کی ہر چال ناکام ہے۔ اور جب تک کھوکھرزیر کی مٹی سے ایسی نسلیں جنم لیتی رہیں گی، تب تک پاکستان کا پرچم بلند تر، روشن تر اور محفوظ تر رہے گا۔

یہ کالم ان سب ارسلانوں کے نام، جو خاموشی سے وطن کے لیے لڑتے ہیں، جو زخمی ہو کر بھی مسکراتے ہیں، جو اپنی زندگی کو قوم پر نچھاور کر دیتے ہیں۔ اور آخر میں کھوکھرزیر کی مٹی کو سلام جو ایسے بیٹے پیدا کرتی ہے۔

“ارسلان — جو زخموں سے روشنی لکھتا ہے”

یہ جو زخم ہیں، یہ نشانِ وفا ہیں،
یہ جو خوں ہے، یہ چراغِ دعا ہے۔
وہ جو کوٹلی کی سرد شبوں میں لڑا،
نہ فقط دشمنوں سے،
بلکہ ہر اس گھڑی سے
جو ہماری خوشبو چرا لے گئی۔

کبھی سایہ بن کے، کبھی آندھیوں میں،
وہ جو خاک پہ تنہا کھڑا رہ گیا،
تو گماں تھا ہمیں،
جیسے ہارے ہوئے خواب زندہ ہوئے۔

وہ جو بدن پہ تین تیر لے کر
مسکرایا،
تو زمیں کانپ اٹھی،
آسماں جھک گیا،
اور عظمت نے آہستہ سے
اس کے قدم چومے۔

نہ تمغے کی حاجت، نہ تعریف کی بات،
بس اک نظم ہے، اک صدا ہے —
جو کہتی ہے:
“سلام اے ارسلان،
تو فقط ایک سپاہی نہیں،
تو ہماری امیدوں کا چراغ ہے،
تو ہمارے لہو کی زبان ہے۔”

مزید خبریں