کیا بھارت کا معتبر اخبار بھی سچ نہیں بول سکتا؟
کیا بھارت کا معتبر اخبار بھی سچ نہیں بول سکتا؟

✍️ ملک کاشفؔ اعوان
کالم — بُریدۂ سَر
کھوکھرزیر — چکوال
بارہ مئی دو ہزار پچیس
⌨️ bureedahe.sar@gmail.com

پاک بھارت جنگ 2025ء کی پہلی شب جب چھ سات مئی کی درمیانی شب بھارت نے رات کی تاریکی میں پاکستان پر بزدلانہ حملہ کیا تو جہاں نہتے اور مظلوم پاکستانیوں کو بھارتی میزائیلوں نے اپنا نشانہ بنایا وہیں طاقت کے نشے میں بدمست بھارت نے آزاد کشمیر کی فضا میں اپنے اسّی جدید سُپر سانک طیاروں کی مدد سے پاکستان پر چڑھائی کر دی۔ ان بدمست ہاتھیوں کو پاک فضائیہ کے چھبیس شاہینوں نے روکا اور عسکری تاریخ کے ایک ہیبت ناک جنگ ان فضاؤں میں لڑی گئی۔ یہ ہولناک ڈاگ فائیٹ 58 منٹ جا ری رہی جس کے نتیجے میں بھارت نہ صرف اپنے سات لڑاکا طیاروں سے محروم ہو گیا بلکہ آمدہ دنوں کے لیے جنگ کو ہندوستانی فضاؤں میں لے گیا۔

بات کی جائے جنگ کی رپورٹنگ کے حوالے سے تو بھارتیہ کامیڈیا نے اس محاذ پر وہ پھلجھڑیاں چھوڑی ہیں کہ الامان و الحفیظ۔ سات مئی کی صبح تین بجے بھارت کے معتبر ہندو اخبار ”دی ہندو“ نے پہلے تو سچ کا سُقراط بنتے ہوئے تین بھارتی طیاروں کی تباہی کی خبر لگا دی۔ مگر جب مودی سرکار کا پریشر برداشت نہ ہوا تو صبح چار بجے مین لیڈ کی سرخی ہٹا کر ایک چھوٹی سی غیر اہم خبر دو بھارتی طیاروں کی تباہی کی لگا کر سائیڈ لائن ہونے کی کوشش کی۔ مودی سرکار اس پر بھی بھلا کہاں چپ بیٹھنے والی تھی۔ نتیجتاً معتبر ہندو اخبار ”دی ہندو“ کو خود ہی اپنی ویب سائٹس سے ان خبروں کو ہٹانا پڑا۔ اب سوال یہ ہے کہ جب ایک معتبر صحافتی ادارہ، اور وہ بھی ”دی ہندو“ کے میعار کا… اگر کوئی خبر بھی شائع کرتا ہے، خاص طور پر ایسی حساس نوعیت کی —— جیسے جنگی جہازوں کی تباہی —— تو اس سے متعلق معلومات کی درستگی اور ذمہ داری اس کے بنیادی اصولوں میں شامل ہونی چاہیے۔ اور اگر اس کی خبر صحافتی اصولوں کے اعتبار سے سچائی پر مبنی تھی تو اس نے یہ خبر ہٹائی کیوں۔

اگر ”دی ہندو“ نے پہلے تین طیاروں کی تباہی کی خبر دی، پھر اس کو دو طیاروں تک محدود کیا اور پھر مکمل طور پر خبر ہٹا دی، تو اس سے چند سوالات جنم لیتے ہیں۔ فیکٹ چیکنگ اور سورسز کی تصدیق کیے بغیر ایسی خبر تو شائع نہیں کی جاسکتی تھی تو پھر ایسی خبر شائع کرنے سے پہلے تصدیق کیوں نہیں کی گئی؟ اگر تصدیق کر لی گئی تھی تو پھر کیا ادارتی دباؤ یا سنسرشپ کا چَیک تھا یا کیا خبر ہٹانے کے پیچھے کوئی حکومتی دباؤ یا ادارہ جاتی پالیسی کا ہاتھ تھا؟ یا پھر اس سارے کام کے پیچھے کسی شفافیت کا فقدان تھا؟ اگر خبر غلط تھی، تو اس کی وضاحت یا تصحیح شائع کیوں نہیں کی گئی؟ صرف خبر ہٹانا صحافت کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔

ایسی صورتحال صحافت کے معیار اور آزادیٴ اظہارِ رائے پر سوالیہ نشان بناتی ہے۔ ایک ذمہ دار ادارے کو چاہیے کہ اگر کوئی خبر غلط شائع ہو جائے تو وہ واضح طور پر تصحیح (correction) یا وضاحت (clarification) شائع کرے تاکہ قارئین کو حقیقت معلوم ہو سکے۔ جبکہ یہاں تو سرے سے ایسا کوئی روّیہ روا ہی نہیں رکھا گیا جو اس سارے معاملے کو گمبھیر اور مشکوک بنا رہا ہے۔

یہ کیسی صحافت ہے جس کے الفاظ سچ کے بجائے تعصب کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں؟ وہ اخبار جسے معتبر سمجھا جاتا تھا، آج جھوٹ کی نگری میں قلم کو کرائے کی تلوار بنا کر گھمایا جا رہا ہے۔ ”دی ہندو“ جیسے نامور ادارے نے جب طیاروں کی تباہی کی خبر دی تو لمحہ بھر کو لگا شاید کوئی سچائی اپنا منہ کھولنے کو ہے۔ لیکن اگلے ہی لمحے، تین سے دو، اور پھر مکمل خاموشی۔ خبر گویا کبھی لکھی ہی نہ گئی ہو۔

یہ نہ صرف صحافت کی توہین ہے بلکہ قاری کی عقل پر بھی ایک سنگین حملہ ہے۔ کیا میڈیا کا کام یہ رہ گیا ہے کہ عوامی شعور کو مسخ کرے؟ کیا سچ اب صرف اتنا ہے جتنا ریاستی بیانیہ اجازت دے؟ اگر سچ کڑوا ہو تو اسے دبانا، مٹانا، یا جھٹلا دینا کوئی صحافت نہیں —— یہ تو سچائی کے جنازے پر جھوٹ کی چادر ڈال کر اسے دفن کرنا ہے۔

حقائق یہ ہیں کہ پہلی خبر جو تین بھارتی طیاروں کی تباہی کے متعلق تھی، صد فیصد درست تھی۔ پاک فضائیہ نے آزاد کشمیر کی فضاؤں میں 58 منٹ طویل ہونے والی اس بے مثال ڈاگ فائٹ میں تین فرانسیسی ساختہ رافیل، ایک مِگ 29 اور ایک ایسی یو تھرٹی جنگی جہاز مار گرایا تھا۔ معتبر بھارتی اخبار ”دی ہندو“ نے پہلے تین اور پھر دو بھارتی طیاروں کی تباہی کی خبر لگا کر درحقیقت انہی پانچ طیاروں کی تباہی کی خبر بریک کی تھی مگر پھر مودی سرکار کی جارحیت کا شکار ہو کر اپنے کہے سے مُکر گیا۔

اب ویب سائٹ سے یہ خبریں حذف کرنے کے بعد ”دی ہندو“ کے اربابِ اختیار مطمئن ہو کر بیٹھ گئے ہوں گے قصہ تمام ہو چکا مگر وہ یہ بھول گئے کہ تاڑنے والے بھی قیامت کی نگاہ رکھتے ہیں۔ حذف شُدہ ویب پیجز مکمل طور پر ویب گاہ اور اس کی غیرمرئی دنیا سے غائب نہیں ہو جاتے بلکہ وہ ”ویب آرکائیوز“ میں محفوظ ہو جاتے ہیں اور معمولی سی تگ و دو کے بعد ان تک پہنچا جا سکتا ہے۔ یہی سب کچھ ”دی ہندو“ کے ساتھ بھی ہو گیا اور حذف شُدہ ویب پیجز تک عام قارئین کی رسائی ہو چکی۔ یوں ”دی ہندو“ کی صحافتی پارسائی کا بھانڈا بیچ چوراہے میں جا پھوٹا۔

بھارتی کامیڈیا، خاص طور پر انگریزی زبان کے یہ خودساختہ ”غیر جانبدار“ ادارے، ایک مخصوص رنگ میں رنگے جا چکے ہیں۔ وہ رنگ جس میں اقلیتیں بے چہرہ، اور سچ بے زبان کر دیے جاتے ہیں۔ قلم اگر ضمیر سے آزاد ہو جائے، تو وہ ہتھیار بن جاتا ہے —— اور یہی ہتھیار آج ”دی ہندو“ جیسے ادارے تھامے ہوئے ہیں۔

صحافت ایک مقدس امانت ہے۔ یہ سچ کا مینار ہے، جھوٹ کی چکی نہیں۔ جب یہ ادارے ریاست کے ترجمان بن جائیں اور سچائی کو پاؤں تلے روندیں تو پھر نہ صرف خبر کا وقار مرتا ہے، بلکہ ایک پوری قوم کا شعور اندھیرے میں دھکیلا جاتا ہے۔ شاید وقت آ چکا ہے کہ ان ”معتبر“ اداروں کو آئینہ دکھایا جائے —— وہ آئینہ جس میں ان کی پیشانی پر لکھا ہو:

”ہم نے سچ بیچ دیا… اور ضمیر گروی رکھ دیا۔“

مزید خبریں