سید شہریار احمد
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ
بھارت نے گھٹنے ٹیک دیے، ڈونلڈ ٹرمپ کو فون، ہماری جان بچاؤ، پاکستان سے سیز فائر کراؤ، پاکستان نے حملہ کر دیا،
پاکستانی چینلز کا واویلا۔
ہم نے اپنے تمام ٹارگٹ اچیو کر لیے، پاکستان میں دہشت گردوں کے کئی ٹھکانوں کو کامیابی سے نشانہ بنایا، پاکستانی فضائیہ کے کئی جہاز تباہ کیے، پاکستان عوام اور فوج رونے لگے،پاکستان کی ٹرمپ سے جنگ بندی کی اپیل ،
بھارتی میڈیا میں چیخ و پکار
بھارت کے کئی ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے بعد بھارت کا غرور خاک میں ملا دیا۔ بھارت اپنی شکست ہزاروں سال تک یاد رکھے گا۔ نریندر مودی نے امریکی صدر کو فون کر کے منت کی کہ پاکستان کو روکے ۔پاکستان۔
ہم نے پاکستان کے ہر شہر میں گھس کر کاروائی کی اور ڈرون بھیج کے انہیں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، پاکستانی شہروں پر اٹیک کر کے مطلوبہ اہداف حاصل کر لئے،انڈیا
اب دونوں اطراف کے میڈیا پر اس طرح کی صورتحال اور بیانات دیکھ کر مجھے اپنے بچپن کی وہ لڑائیاں یاد آ گئیں
جب ہم چھوٹے بچے تھے اور کسی کے ساتھ جھگڑتے تھے تو لڑائی ختم کرا دی جاتی تھی
اس کے بعد ہم انہیں منہ چڑھاتے تھے، ہاتھوں سے غلط اور فحش اشارے کرتے تھے
جو ہمارے سیز فائر کو دوبارہ جنگ میں بدل دیتے تھے ۔
اب اسی طرح کی صورتحال دونوں اطراف کے چینلز پر دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اگر میڈیا ہاؤسز اور حکمرانوں اور افواج کو ذرا سی بھی عقل ہو ،بے شک آٹے میں نمک کے برابر ہی سہی، تو سیز فائر کے بعد اس قسم کے بیانات نہ دیں جس سے کسی دوسرے فریق کو ہزیمت اٹھانا پڑے اور پھر فائرنگ کا تبادلہ شروع ہو جائے۔
اب ہمارے پاس تو ایسی کوئی کسوٹی نہیں ہے کہ ہم جان سکیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ سے پہلے بات کس نے کی؟ نہ ہمارے پاس وہ سسٹم ہے کہ ہم ان کی کالز ٹریس کر سکیں ۔
اب کس نے کس سے بات کی، کس نے پہل کی! اسے جانے دیجیے۔
ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ لاکھوں لوگوں کی زندگیاں جو داؤ پر لگی تھیں وہ فی الحال بچ گئیں ۔
بات یہ ہے کہ دونوں جنگی فریق خوفزدہ تھے، سہمے ہوئے تھے کہ یہ جنگ مزید نہ بڑھے جس سے دونوں ممالک میں ناقابل تلافی نقصان پہنچے۔
اب کس نے پہل کی یا ٹرمپ نے خود رابطہ کروایا اس کو چھوڑ دیجئے
بس یہ دیکھیے کہ جنگ نے کسی کو آج تک کیا دیا ہے؟ جتنی جنگیں لڑی گئیں انہوں نے عوام کو کیا دیا؟
عوام کو کیا ملا؟
سوائے موت کے،
نسلوں تک اپاہج پن کے! نفسیاتی روگ اور معاشی بدحالی کے۔
جنگوں میں اگر کوئی ہارتا ہے تو وہ دونوں طرف کی عوام
اور جو جیتتے ہیں وہ بھی دونوں طرف کے حکمران اور افواج۔
یہ جنگیں صرف اشرافیہ کو ہی سوٹ کرتی ہیں
تم پیو تو گنگا جل ہے یہ
ہم پییں تو ہے یہ شراب
پانی جیسا ہے ہمارا خون
اور تمہارا خون ہے گلاب۔
جنگوں میں لڑنے والوں کے لیے عوام کے جان و مال کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ ملکی سلامتی کے نام پر ہزاروں لوگوں کی جانیں لے لی جاتی ہیں۔
ساحر لدھیانوی نے ایسے ہی موقع پر کہا تھا
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
خاک صحرا پہ جمے یا کف قاتل پہ جمے
حرق انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے
تیغ بے داد پہ یا لاشہ بسمل پہ جمے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
لاکھ بیٹھیے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں۔
خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ
سازشیں لاکھ اڑاتیں رہیں ظلمت کے نقاب
لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ
خون دیوانہ ہے، دامن پہ لپٹ سکتا ہے
شعلہ تند ہے خرمن پہ لپک سکتا ہے
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ بازار میں آ نکلا ہے
کہیں شعلہ، کہیں نعرہ! کہیں پتھر بن کر
خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں سے
سر اٹھاتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں سے
ظلم کی بات ہی کیا ،ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کے بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کے دباؤ تو دبائے نہ بنے