جمعرات,  08 مئی 2025ء
بھارتی طیاروں کی تباہی پر بغلیں بجانے والو/ سر پیٹنے کے لیے تیار رہنا/ پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست

سید شہریار احمد
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ

ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ گزشتہ رات تم لوگوں نے کافی خوشیاں منائی۔ بہت خوش ہوئے پاکستان کے حق میں نعرے مارتے رہے جب تمہیں بتایا گیا کہ بھارت کے پانچ طیارے مار گرائے ہیں ۔
اچھی بات ہے۔ انسان کو خوش ہونا چاہیے۔
خوشی کی بات ہو تو خوش ہونا چاہیے
لیکن اکثر خوشی کے واقعات آخر میں بڑے گھنانے، تاریک، غمزدہ لمحوں کے ساتھ اور اندھیری راتیں لیے ہوئے آتے ہیں ۔
شادی شدہ لوگ میری بات کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ کس طرح ایک دلہا لاکھوں روپیہ خرچ کر کے کسی کو بیاہ کر لاتا ہے۔ وہ تین دن کس طرح خوشی کے نشے میں جھومتے ہیں خوشیاں مناتے ہیں قہقہے لگاتے ہیں اور پھر ساری زندگی اپنے ان تین دنوں کو کوستے رہتے ہیں ۔
آپ لوگوں کی بھی یہی صورتحال ہے۔ اگر آپ نے بھارتی طیارے واقعی گرائے ہیں ( بھارتی اور بین الاقوامی میڈیا پاکستانی حکمرانوں سے بھارتی طیارے گرائے جانے کا ثبوت مانگ رہا ہے ان کے ملبے اور لاشوں کے حوالے سے اور ہم لوگ دینے سے قاصر ہیں لہذا بھارتی طیاروں کے گرائے جانے کا دعوی نہ صرف دنیا میں بلکہ پاکستانیوں کے ذہنوں میں بھی مشکوک ہے) تو پھر تیار رہیے بھارت اس کا زبردست انتقام لے گا اور آج بھارت نے کراچی، لاہور، گجرانوالہ، سندھ کے شہر اور راولپنڈی میں ڈرون اٹیکس کر دیے ہیں۔
وزیر دفاع نے بھی کہہ دیا ہے ایک مکمل جنگ ہو سکتی ہے۔
آپ مجھ کو یہ بتائیے کہ ہمارے وزیر دفاع کو اور ایجنسیوں کو ایک دن پہلے مکمل اطلاع ہوتی ہے کہ آج رات کو اٹیک ہوگا ۔
سات مئی سے ایک دن پہلے بریفنگ دی گئی خواجہ آصف نے کہا اور مسلح افواج کے ترجمان نے بھی کہ آج رات بھارت اٹیک کر سکتا ہے۔اور اٹیک ہوا ۔
دوسرے دن پھر ایسے ہی بیانات دیے گئے اور راولپنڈی اور لاہور میں باقاعدہ انتظامیہ کو تیار رہنے کا حکم دیا گیا ۔سیالکوٹ میں بھی ایسی صورتحال تھی تو ہمارے حکمرانوں کو اور ایجنسیوں کو پتہ تھا کہ ان شہروں میں حملہ ہوگا
اورحملہ ہوا ۔تو کیا آپ کے ذہن میں یہ خیال نہیں آتا کہ یہ کس طرح کی کوآرڈینیشن ہے ؟
کیا بھارت یا کوئی بھی دشمن آپ کو پہلے اطلاع کرے گا کہ آپ کے وہ فلاں شہر میں حملہ کرنے جا رہا ہے تو احتیاط کر لو۔
کس طرح ممکن ہے یہ۔
یہ سائنس میری سمجھ میں نہیں آتی ۔اگر آپ کی سمجھ میں آئے تو مجھے بتائیے گا اور دوسری بات یہ ہے کہ بہت عرصے سے ایک کاروبار چل رہا ہے اسلحہ بیچنے کا۔ جو بین الاقوامی ادارے اسلحہ بیجتے ہیں وہ پھر جنگیں کراتے ہیں
اور اس میں اربوں ڈالر کا اسلحہ بیچا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ خود لائن آف کنٹرول پر اور سیز فائر لائن پر اس قسم کے حالات و واقعات پیدا کرتے رہتے ہیں تاکہ دونوں اپنی عوام کو بیوقوف بنا سکیں اور ان سے ٹیکس لے سکیں اور اپنی عیاشیوں پر خرچ کر سکیں ۔
اب اس بات میں کتنی حقیقت ہے یہ تو میں نہیں جانتا لیکن ایسا کہا جاتا ہے۔ اور جب کبھی ایسا کہا جاتا ہے تو پھر ہمارا دماغ بھی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کہیں اس میں حقیقت تو نہیں۔
چلیں اب جو بھی ہو رہا ہے اس کا نظارہ کریں اور اس وقت کا انتظار کریں جب تھوڑے دنوں بعد آپ کو بتایا جائے گا کہ پاکستان کا جو انفراسٹرکچر بھارت تباہ کر گیا ہے اس پہ اربوں ڈالر جو خرچہ آرہا ہے وہ ہم غریب عوام نے دینا ہے۔
بھارتی طیاروں کو گرانے اور انڈیا پر گولہ باری کرنے پہ جو خرچہ ہوا ہے وہ ہم نے وار سرچارج کی مد میں بجلی کے بلوں، گیس کے بلوں ،پانی کے بلوں اور دوسرے بلوں میں دینا ہے اور پھر مستقل رونا ہے۔
اسی لیے تو میں نے کہا نا کہ خوشی سے بغلیں بجانے والو، سر پیٹنے کے لیے تیار رہنا ۔
اس جنگ کے نتائج جو بھی نکلتے ہیں
کون ہارتے، کون جیتے ہیں۔ لیکن ایک بات میں آپ کو بتا دوں۔ دونوں ملکوں کی اسٹیبلشمنٹ اور حکمران جیتیں گے
اور دونوں ممالک کے غریب اور نہتے عوام ہاریں گے ۔
اب ہمارے حکمران چاہے انتونیو گوتریز سے بات کریں یا اپنے مرشد ڈونلڈ ٹرمپ سے بات کریں یا چین ،ایران، صومالیہ،بھوٹان ،مالدیب کے سفیروں سے ملاقاتیں کر کے بھارت کی بزدلانہ کاروائیوں پر ان کے آگے شکوہ کریں یا مسلمان برادر دوست ممالک سے صلح کرانے کی اپیلیں کریں۔
آپ کے کسی نے کام نہیں آنا بھائی
یہ سعودی عرب، یہ ایران، یہ دوسرے اسلامی ممالک یو اے ای وغیرہ
یہ سب دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح مسلمان ممالک لیبیا ،عراق! لبنان ،شام! افغانستان، فلسطین صفحہ ہستی سے مٹائے جا رہے ہیں لیکن ان مسلمان ملکوں کے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی۔ وہ تمہاری مدد کیوں کریں گے اے غریب عوام ؟
میں تو جنرل راحیل شریف کو ڈھونڈ رہا ہوں جو 54 اسلامی ممالک کی فوج کے سربراہ ہیں۔ شاید وہ اس وقت کسی جزیرے پہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سکون سے بیٹھے سنیکس کھا رہے ہوں اور کافی پی رہے ہوں اور زندگی کا لطف لے رہے ہوں۔
یہ او آئی سی، یہ سلامتی کونسل اور یہ جو انسانی حقوق کے ادارے ہیں ان میں جتنی مرضی قراردادیں پاس کروا لو بھائی
جو طاقتور ہوگا وہ طاقت سے اپنی بات منوائے گا۔
یہ لوگ صرف مذمتی قرارداد ہی منظور کر سکتے ہیں
دنیا میں کہاں انہوں نے کسی مظلوم کی مدد کی ہے؟
دوست کسی نے بچانے کے لیے نہیں آنا ۔
یہ زخم تم لوگوں نے خود سہنے ہیں ۔
جنگ کے اثرات، اپنے بچوں، شوہروں! ماں باپ، بہن بھائیوں کو رونا ہے باقی زندگی
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا ۔
نہ برطانیہ، نہ ٹرمپ ، نہ ہی ایران اور آپ کے عظیم دوست ۔
سب مزے لیں گے بھائی مزے۔ اور تم اپنے علاج کرا رہے ہو گے ہسپتالوں میں۔ ٹیکس دے رہے ہو گے حکمران کو۔ جنگی ٹیکس دو گے بھائی بجلی میں، گیس میں! پانی میں، تمہیں بل آنے شروع ہو جائیں گے اگلے ماہ سے دیکھنا
ایک تو بھارتی افواج تمہارا نقصان کریں گی جانی اور مالی اور پھر اس کے بعد ہمارے آقا ہمارا کچومر نکالیں گے۔ یہ حکمران یہ بڑے بڑے لوگ ان کے بچوں کو، ان کے گھروں کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا ۔
لکھ لو یہ میری بات کہیں۔ تم لوگ جو سارا وقت نعرے لگاتے رہے پاکستان زندہ باد، نعرہ تکبیر اللہ اکبر اور ہم فوج کے ساتھ ہیں۔ ارے دیوانوں تمہیں کیا پتا تمہارے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے۔
یہی لوگ جو ہیں حکمران اور اسٹیبلشمنٹ دو بیان دیتے ہیں کہ عوام ہمارے ساتھ کھڑی ہے اور عوام جوش میں آ کر نعرے مارنے لگتے ہیں۔ کبھی ان لوگوں کو نقصان پہنچتے دیکھا ہے؟ تمہیں میں سب سے بڑی مثال دوں۔ جب تقسیم ہند ہو رہی تھی تو لاکھوں لوگوں نے پاکستان ہجرت کی۔
یہاں اور وہاں لاکھوں لوگ اپنی جان گواہ بیٹھے ۔ عورتیں اغوا ہوئیں۔ ان کی عزتیں لوٹی گئیں اور ہندوؤں نے ہماری ماؤں بہنوں کو اپنی باندی بنا لیا لیکن کبھی تمہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ جو لوگ تحریک پاکستان اور تقسیم ہند کے ذمہ دار تھے ادھر گاندھی ہو گئے ادھر ہمارے بابائے قوم ہو گئے۔ کیا ان کو معمولی سی کھرونچ بھی آئی ؟
ان کا کوئی عزیز، رشتہ دار کسی قسم کی تکلیف اور نقصان سے نہ گزرا۔
بلکہ قائد اعظم محمد علی جناح رحمت اللہ علیہ تو جہاز میں اپنے کتے گریٹ ڈین کو لے کر کراچی پہنچے۔ تو دیکھا تم نے کیا زبردست مثال دی میں نے۔
اب جذباتی ہو کے مجھے برا بھلا نہ کہہ دینا کہ میں نے ان کے اوپر تنقید کر دی۔
ان اشرافیہ اور حکمرانوں اور جرنیلوں کے تو کتے بھی محفوظ رہتے ہیں اور تم لوگ کتوں کی موت مرتے ہو ۔
اچھا چلو ایک اور مثال دے کر اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ ابھی جو بھارت نے آزاد کشمیر اور مختلف علاقوں پر جو میزائل حملے کیے اس میں بچے بھی شہید ہوئے لیکن تم دیکھتے ہو کہ صرف ایک کا بیٹا مسلسل میڈیا پر دکھایا جا رہا ہے اس کا نماز جنازہ اس کے ساتھ اظہار ہمدردی اس کی تصاویر پوسٹ کی جا رہی ہیں اور دکھائی جا رہی ہیں
اور جب غریبوں کے بچے مرے ان میں کوئی آرمی چیف، صدر! وزیراعظم، وفاقی وزیر! قومی نمائندے، کسی نے شرکت کی؟ جبکہ کرنل کے بیٹے پہ آپ کو یہ سارے دیوتا ،نماز جنازہ میں لوگوں سے تعزیت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

اگر جنگوں میں بڑے لوگوں کے بچے مرتے
تو یہ جنگیں کبھی نہ ہوتی

مہاتما گاندھی

مزید خبریں