هفته,  26 اپریل 2025ء
جج سے بات ہو گئی ہے /ریڈر کی خدمت کرنی ہے /پولیس والے کو /تفتیشی کو پیسے دینے ہیں لیکن وکیل کے لیے کچھ نہیں ہے

سید شہریار احمد
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ

وہ دودھ والا تھا
جب میرے پاس آیا تھا تو منت سماجت کر رہا تھا کہ مجھ پر حد کا کیس لگ جائے گا میری جان بچائیں۔
اس کے پیٹ میں میرا چھ ماہ کا بچہ ہے۔ اب میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں، کچھ کریں۔
میرے دل میں انسانیت جاگ اٹھی، میں نے کہا میں نکاح خواں سے/ رجسٹرار سے/ یونین کونسل سے/ سب سے بات کر کے تمہارا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتا ہوں کیونکہ تم اب اس لڑکی کو اپنانا چاہتے ہو اور بچے کو اپنا نام دینا چاہتے ہو
ساتھ ایک اور کیس بھی تھا اس کا ،وہ دائر کر دیا۔ 30 ہزار فیس طے ہوئی۔ کہنے لگا میرے پاس پانچ ہزار روپیہ ہے آپ کیس دائر کریں باقی بعد میں دے دوں گا
پہلے سمن ہوئے، میں نے اس کو فون کر دیا کہ آجاؤ
نہیں آیا
تیسرے سمن تک حاضر نہ ہوا تو دودھ والا جس کے ریفرنس سے آیا تھا اسے بتایا کہ کہ وہ نہیں آ رہا تو وہ شخص بولا کہ ان کا تو پیچ اپ ہو گیا
اب جو خرچہ ہوا تھا میرا ذاتی، وہ بھی گیا اور فیس بھی گئی
جبکہ نکاح خوان/ رجسٹرار/یونین کونسل والوں سے میں نے اس کا مسئلہ حل کرنے کے لیے بات کی وہ بھی ضائع
ایک ٹک ٹاکر بڑی معروف، کہیں رابطہ ہوا تو اس کا خلاء کا کیس تھا اور دو کیس علیحدہ
جب اس سے ملاقات ہوئی تو وہ مجھ سے بہت مطمئن اور خوش تھی اور کہنے لگی کہ شہریار صاحب آپ کیس دائر کر دیں اور پیسے بتا دیں کتنے ہیں؟
فیس طے کر لی، کہنے لگی دو دن میں آپ کو پیسے بھیجتی ہوں بس کیس دائر کر دیں
اور اگلے دن ہی کیس دائر ہو گیا
وہ عدالت پیش نہ ہو رہی تھی اس کو کوئی اور جاننے والا وکیل مل گیا تو اس نے وہ وکیل کر لیا اور میری فیس غائب
اس کے علاوہ بھی ڈھیروں واقعات ہیں لیکن ان کو رہنے دیتے ہیں
کہا جاتا ہے کہ اگر وکیل سے ہاتھ ملاؤ تو اپنی انگوٹھی دیکھ لو کہ کہیں انگلی سے انگوٹھی تو نہیں اتار لی وکیل نے
میں اب آپ کو تصویر کا دوسرا رخ دکھا رہا ہوں۔
جب میں نے وکالت کا پیشہ جوائن کیا تو اپنے سینیئر کے ساتھ عدالت میں حاضر ہوا۔ میرے سینیئر نے موکل سے کہا کہ جج سے بات ہو گئی ہے تمہارا کام ہو جائے گا بس تم منشی کو اتنے پیسے دے دو تاکہ وہ اندر پہنچا دے۔ اس بندے کا کام ہو گیا تو واپسی میں میرے سینیر نے مجھے کہا کہ اس کا کام تو ویسے بھی ہو جانا تھا لیکن یہ مجھے فیس نہیں دیتا تھا تو میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ میں ایسے فیس نکلواؤ ۔
اس وقت یہ بات مجھے بہت بری لگی تھی اور میں نے اس چیمبر کو الوداع کہہ دیا تھا
وقت گزرتا گیا۔ تجربات اور مشاہدات ہوتے رہے تو پتہ چلا کہ وکیل نرم دل ہو، انسانیت پرست ہو تو اس کا تو پیٹرول کا خرچہ بھی نہیں نکلتا
اور وہ جو پہلے فیس مانگ لیتے ہیں اور جو پہلے مجھے برے لگ رہے تھے اب وہ مجھے ٹھیک لگتے ہیں
جبکہ آپ اور پیشوں میں دیکھیں
یہ ڈاکٹر/ یہ ایجوکیشنسٹ/ یہ ٹیسٹ لیبز والے /یہ پولیس/ یہ تاجر /سرمایہ کار/ اگر ان کی لائن میں وکیل کو رکھیں تو وکیل آپ کو فرشتہ نظر آئے گا۔
کسی بھی میڈیکل سپیشلسٹ کے پاس چلے جائیں کم سے کم دو ہزار سے وہ سٹارٹ لے گا ۔اس کے بعد اپنی لیب سے ٹیسٹ لکھ کے دے گا ۔
اگر آپ نے گردے چیک نہیں کروائے تو پھر آپ کے گردے بچ گئے۔ ورنہ وہ بھی گئے

اور اگر ڈاکٹر سے دوسرا سوال پوچھ رہے ہو تو اس کا موڈ آف۔
مریض ڈاکٹر سے بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ کہیں زیادہ مہنگی دوائی نہ لکھ دے اور مزید ٹیسٹ نہ لکھ دے جبکہ ہم وکیلوں کا کلائنٹ آدھا آدھا /گھنٹہ گھنٹہ/ کان کھاتے ہیں
کتنی سزا ہوگی؟
کتنی پیشیاں ہوں گی؟
کتنے ماہ لگ جائیں گے؟ کیس میں کیا ملے گا؟ کیا دینا پڑے گا؟
دوسرا وکیل فلاں کے ساتھ مل گیا
ہمارا وکیل دوسرے وکیل کے ساتھ مل گیا
ڈھیر ساری باتیں سننا پڑیں گی
دماغ کھائیں گے۔ ایک دن/ دو دن/ کئی کئی دن/ پھر 50 ،50/ 60 ،60 صفحوں کی فائلیں دے جائیں گے پڑھنے کے لیے
پھر آپ اس پہ وقت لگائیں گے
پڑھیں گے
مشورے دیں گے
اور چائے بھی خود پلائیں گے اپنے موکل کو ۔
فیس کا کوئی سوال نہیں ہے۔
میں تو اپنے وکیل بھائیوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ آج سے وہ بھی فیس طے کر لیں مشورے کی
ڈسٹرکٹ کورٹ کا وکیل 2 ہزار روپے فیس رکھے مشورہ دینے کی
ہائی کورٹ 3 ہزار
سپریم کورٹ کا 5 ہزار۔

اور یہ جو لوگ اکثر گلا کرتے ہیں آپ کے موکل کہ ہمارا وکیل دلچسپی نہیں لے رہا کیس میں یا یہ کہ وہ دوسروں کے ساتھ مل گیا ہے
مخالف پارٹی کے ساتھ مل گیا ہے
تو بھائی لوگو کوئی وکیل مخالف پارٹی کے ساتھ نہیں ملتا۔ ہر وکیل کی یہی خواہش ہوتی ہے اس کے موکل کو انصاف ملے تاکہ اس کا نام ہو اور موکل کو آسانی پیدا ہو اور اس طرح اس کو مزید کیسز مل سکیں اور کسی وکیل کا دماغ خراب ہے کہ وہ کیس لٹکاتا پھرے اور کئی کئی مہینوں تک گرمیوں کے دنوں میں فائلیں اٹھائے عدالتوں کے چکر لگائے ؟
برعکس اس کے پولیس والے کے پاس جاؤ تو پولیس والا دونوں طرف سے کھیلتا ہے مدعی سے بھی کھاتا ہے اور مدعہ علیہ سے بھی۔
ڈاکٹر کے پاس جاؤ تو ڈاکٹر دونوں نہیں تینوں سائیڈوں سے کماتا ہے۔ اپنی فیس بھی لے گا، دوائی والوں سے بھی پیسے لے گا اور لیب والوں سے بھی
چند ایک انسان پرست لوگوں کو چھوڑ کر۔
پولیس میں بھی دو چار ایسے لوگ ہوں گے اور ڈاکٹرز میں بھی جو کہ اچھے ہوں گے
چلیں ایک آخری مثال دیتا ہوں ۔ایک جرم/ ایک کیس میں دو پارٹیوں کی طرف سے وکلاء پیش ہوتے ہے یعنی کہ ایک پارٹی کو انصاف دلا رہا ہوگا اور دوسرا انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہوگا
تو اگر ہم اس کو یوں کہیں کہ سو میں سے 50 فیصد وکیل تو حق اور سچ کے ساتھ ہو گئے
اب کون سا ایسا شعبہ ہے جس میں 50 فیصد پیشہ ور، سچائی، ایمانداری کے ساتھ ہوتے ہیں ؟اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی شخص، کوئی مظلوم ،کوئی ظالم! کوئی مدعی ،کوئی موکل ایسا نہیں آئے گا جو ہمیں اپنی گوتاہی، اپنی غلطی، اپنے ظلم کی بات سنائے گا
وہ سارا مدعا دوسری پارٹی پر ڈال دے گا۔ اس لیے وکلاء کو تو ڈاکومنٹس کے حساب سے اور اپنے موکل کے سٹیٹمنٹ کے مطابق آگے چلنا ہوتا ہے لہذا باقی50 فیصد جن کو آپ غلط سمجھیں وہ بھی اپنے مدعی کے بیان کو سچ سمجھ کر اپنا کیس چلا رہے ہوں گے
جبکہ صرف 5 یا 10 فیصد اس پیشے میں ایسے وکیل ہوں گے جن کو پتہ ہوگا کہ ان کا کلائنٹ ملزم ہے ،گنہگار ہے اور وہ اس کو تحفظ دیں گے
جب میں وکالت کی تعلیم حاصل کر رہا تھا تو میرے پرنسپل نے بتایا تھا کہ وکالت کے پیشے میں کیس لڑنا ایک مہارت ہے جبکہ فیس لینا اس سے بڑا چیلنج ہوتا ہے۔
جو باتیں مجھے شروع میں بری لگتی تھیں آج مجھے وہ ٹھیک لگتی ہیں ۔

جب کوئی وکیل کہتا ہے کہ جج سے مک مکا ہو گیا، ریڈر کو پیسے دینے ہیں ،پولیس والے کی خدمت کرنی ہے، تفتیشی کا منہ بند کرنا ہے تو مجھے لگتا ہے کہ وہ ٹھیک کہتے ہیں
کیونکہ ہمارے کلائنٹ کے پاس ان سب لوگوں کو دینے کے لیے ہزاروں روپے موجود ہوں گے
لیکن جب وکیل کی فیس دینی ہوگی تو ان کی جیب خالی

ابھی ابھی ایک ڈاکٹر میری فیس کھا گئے ہیں اس کے رد عمل میں یہ آرٹیکل لکھا

مزید خبریں