پیر,  21 اپریل 2025ء
مائیں کیوں مر جاتی ہیں؟

کیا اچھا اور ستھرا زمانہ تھا۔۔ محلے میں صرف ایک ہمارے گھر میں فون تھا۔۔ ہماری گلی کیا تین گلیاں دور بھی کسی گھر کے لیے فون آتا تو ہماری امی جی کہا کرتیں بیٹا بلا کر لاو۔۔ ہمارے چوں چرا پہ ایک گھورتی نظر ہی کافی ہوتی اور ہم بھاگ کر بلا کر لانے میں ہی عافیت جانتے۔۔ جب کہیں سے فون آنا ہوتا اور وہ لوگ ہمارے گھر بیٹھے ہوتے تو ان کی خاطر مدارات بھی فرض ہوا کرتی، کھانے کے وقت کھانا اور چائے کے وقت چائے لازم تھی۔
اسی طرح ٹی وی بھی اخبار والے گھر۔۔ یعنی ہمارے گھر میں ہوا کرتا۔۔ ابو جی چونکہ پہلے تعمیر اور پھر نوائے وقت میں رپورٹنگ کرتے تو وہ اخبار والے کے نام سے مشہور تھے۔۔ شام ہوتے ہی صحن دھویا جاتا اور پھر پرانے ماڈل کا بھاری بھرکم ٹی وی اٹھا کر باہر لایا جاتا۔۔ پھر آٹھ بجے والے ڈرامے تک پورا محلہ ہمارے صحن میں موجود ہوتا۔۔ ہماری امی جی، پانی کا کولر بھر کر رکھ چھوڑتیں تاکہ جس کو پیاس لگے وہ پانی خود پی لے۔۔ جس کو چائے درکار ہوتی وہ آواز لگاتے چائے۔۔ ہماری امی جی چائے بھجوا دیتیں۔

جسے پنجابی میں شکر دوپہر کہا جاتا ہے۔۔ یعنی کڑاکے کی گرمی پڑ رہی ہو۔۔ آپ کولر یا پنکھا لگا کر کمرے کو ٹھنڈا ٹھار کر کے دوپہر کے قیلولے فرما رہے ہوں اور ایسے میں دروازے پر دستک ہو۔۔ آپ جھنجھلا کر اٹھیں اور کوئی محلے دار برف مانگ رہا ہو تو غصہ آ سکتا ہے لیکن امی جی فوری طور پر کسی لفافے میں برف رکھ کر پکڑاتیں کہ یہ دے کر آو فوراً۔۔ پھر کہتیں بیٹے شکر کرو، تمہیں اللہ کریم نے دینے والا بنایا ہے، ہنس کر یہ کام کیا کرو۔۔
کوئی بھی مانگنے والا آ جاتا تو فوری کہتیں کہ باہر بٹھاو اور کھانے کا پوچھو۔۔ اگر وہ کھانا مانگتا تو فوراً ٹرے میں کھانا سجا کر کہتیں کہ بیٹا وہاں کھڑے رہنا اور جس شے کی ضرورت ہو وہ پہنچا دینا۔۔ ہماری شکل بنی دیکھ کر کہتیں کہ چندا۔۔ اللہ کریم انہی کے نصیب کا دیتا ہے۔۔

اپنی زندگی کا واقعہ بتاتی تھیں کہ ہمارے ماموں بیرون ملک سے آئے تھے، گجرات کے قریب جی ٹی روڈ پر ان کی گاڑی کا خوفناک ایکسیڈنٹ ہو گیا۔۔ اس حادثے میں میری نانی اور میرے ایک ماموں زاد بھائی شدید زخمی ہوئے، انہیں جنرل ہسپتال راولپنڈی منتقل کیا گیا۔۔ نانی کا خون نہیں بند ہو رہا تھا۔۔ ایسے میں ملتان سے تمام ننھیالی رشتے دار بھی یہاں جمع ہو گئے۔۔ ہسپتال بھی خود جاتیں اور گھر پہ آ کر کھانا بھی خود پکاتیں۔

ڈاکٹر نے صبح امی جی کو بتایا کہ نانی کی حالت کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے، ان کے لیے دعا کریں۔۔ ان کے کانوں سے خون نہیں بند ہو رہا۔۔ امی جی بہت حوصلے والی تھیں، اسی حالت میں گھر آئیں، سب رشتے داروں کے لیے کھانا بنایا۔۔ اتنے میں باہر ایک فقیر آیا جس نے صدا لگائی کہ کوئی سوکھی روٹی مل جائے گی۔۔ امی جی نے حسب عادت کھانے کی ٹرے سجا کر باہر بھیجی، پھر جب وہ بابا جی کھانا کھا چکے تو امی جی نے پوچھا کچھ اور ضرورت ہے۔۔ جس کے جواب میں بابا جی نے کچھ ایسا شعر پڑھا کہ مفہوم تھا کہ میں نے پھول مانگا تو باغ ملا۔۔ اللہ تیری تمام مشکلات دور کرے۔۔
امی جی گھر کے اندر پہنچیں تو بڑے بھائی کا ہسپتال سے فون آیا کہ نانی کو ہوش آ گیا ہے، خون بہنا بند ہو گیا ہے۔۔ امی جی نے فوری طور پر بچوں سے کہا کہ باہر جو بابا جی بیٹھے تھے انہیں ڈھونڈو۔۔ سب نے باہر دوڑ لگائی مگر وہ بابا جی نہیں ملے۔۔ امی جی کا ماننا ہے کہ ضرور وہ بابا جی کی شکل میں کوئی اور تھا۔۔

جب کبھی کوئی مشکل درپیش ہوتی تو امی جی فوراً آیت کریمہ کا وظیفہ مان لیتیں۔۔ سارے محلے کی خواتین جمع ہو جاتیں اور سب پڑھ رہی ہوتیں، یقین ایسا ہوتا کہ ادھر وظیفہ ختم ہوا ادھر مسئلہ حل اور رب نے بھی کبھی یہ بھرم توڑا نہیں۔۔ کونڈوں کی نیاز ہو، ماہ ربیع الاول ہو۔۔ گھر میں رونق میلہ ہوتا۔۔ سب کی خدمت کرتی رہتیں اور ساتھ ساتھ نعت اور درود شریف پڑھتی رہتیں۔۔

صبح گھر میں سب سے پہلے اٹھا کرتیں، نماز کے بعد اگر ہماری نانی آئی ہوتیں تو اپنے اور ان کے لیے ناشتہ بناتیں۔۔ پھر اس کے بعد ہمارے گھر میں ناشتے کا بھی سب کا مختلف وقت ہوا کرتا۔۔ سب کے ناشتے سے فراغت ہوتی تو صفائی والی آ جاتی۔۔ اس کے بعد دوپہر کا کھانا تیار ہوتا۔۔ پھر کوئی نہ کوئی مہمان آ جاتا۔۔ ایسے ہی سارا دن گزر جاتا اور امی جی کو کبھی آرام کرتے نہیں دیکھا تھا۔۔ پھر بھی لبوں پر ہمیشہ تبسم ہوا کرتا۔ صابر اور شاکر ایسی تھیں کہ شوگر بڑھی ہوتی تو کبھی نہیں بتاتی تھیں۔۔ بلڈ پریشر بڑھ گیا تو بھی کبھی نہیں بتایا، کام کرتی رہتیں، ہسپتال پہنچتیں تو ہمیں دلاسے دے رہی ہوتیں کہ کچھ نہیں ہوا، بس شام تک ٹھیک ہو جاوں گی۔۔

ایسے ہی جب ایک شام انہیں دل کا دورہ پڑا۔۔ میں فوری طور پر ہسپتال پہنچا۔۔ تین روز تک ان کے ساتھ ہولی فیملی ہسپتال رہا، چوتھے روز صبح جب اٹھا تو امی جی جاگی ہوئی تھیں۔۔ مجھے کہنے لگیں بہت چھٹیاں ہو گئیں، اب دفتر جاو۔۔ میں نے کہا آپ کی طبیعت جب تک ٹھیک نہیں ہوتی میں دفتر نہیں جاوں گا۔۔ مجھے اپنے سینے سے لگایا کہنے لگیں میں اب بھلی چنگی ہوں۔۔ بالکل فٹ ہوں۔۔ ڈاکٹر سے پوچھ لو۔۔ اتفاقاً اسی وقت ڈاکٹر بھی راونڈ پہ آ گیا۔۔ میں نے امی جی کی صحت پوچھی تو بولے اب بالکل ٹھیک ہیں، ہم نے اب مانیٹر بھی ہٹا دئیے ہیں۔۔ میں امی جی کو پیار کر کے نکلا۔۔۔ تو میرے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ میری جیتی جاگتی امی جی کے ساتھ یہ میری آخری ملاقات ہو گی۔۔

آج چھبیس سال گزر چکے ہیں، اب جو ملاقات ہوتی ہے تو ادھوری سی ہوتی ہے۔۔ وہ جو کہتی تھیں کہ میں سب بچوں کو ان کے گھروں میں بھیج کر اپنے شہری لالے کے ساتھ رہوں گی۔۔ اس کے بچوں سے کھیلوں گی۔۔ اب میں اپنے بچے بھی لے کر جاتا ہوں مگر ماتھے پر پیار نہیں ملتا۔۔ ہم بھی مٹی سے لپٹ کر واپس آ جاتے ہیں۔۔ آج چھبیس سال بعد بھی یوں لگتا ہے کہ گھر داخل ہوں گا تو امی جی کی اواز آئے گی، آ گیا میرا شہری لالہ۔۔
گھر کو سونا کر جاتی ہیں

مائیں جانے کیوں مر جاتی ہیں

شہریاریاں ۔۔۔ شہریار خان
21اپریل 2025۔۔۔

مزید خبریں