هفته,  19 اپریل 2025ء
وہ گلے مل کے رو پڑیں کہ ہم خرگوش کو نہیں بچا سکے/ حالانکہ زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے

سید شہریار احمد
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ

چل آج تجھے
میں لے کے چلوں
اک ایسے گگن کے تلے
جہاں غم بھی نہ ہوں
آنسو بھی نہ ہوں
بس پیار ہی پیار پلے

وہ پانچ سٹاف کے لوگ تھے جن میں چار خواتین تھیں ان میں بھی دو ڈاکٹر ،
دو اٹینڈنٹ جبکہ ایک میل نرس
سب سے پہلے انہوں نے جڑواں بہنوں کو انکا کچھوا ان کے حوالے کیا جس کو آکسیجن لگی ہوئی تھی۔
وہ بہنیں خوشی سے رو پڑیں کہ ان کا کچھوا ٹھیک ہو گیا
کیونکہ جب وہ اسےلائی تھیں تو انہوں نے شکایت کی تھی کہ ان کا کچھوا رینگنے میں سستی کر رہا ہے

پھر ایک مالک اپنی پالتو گلہری کو سینے سے لگائے دکھایا گیا
جسکو ڈاکٹر نے گود لیا اور اس سے کچھ دیر تک ہنستے مسکراتے ہوئے باتیں کرتی رہی
پھر گلہری کے مالک سے کہا کہ اس کی ریفلیکسز سلو ہیں
انجیکشن کے ذریعے اس کے معدے میں کوئی محلول ڈالا گیا اور چند لمحوں میں گلہری کلینک میں اچھلتی، کودتی ،چھلانگیں مارتی دیکھی گئی
مالک نے خوشی سے گلہری کا منہ چومنا شروع کر دیا

اب میں دیکھتا ہوں ایک بندر کا بچہ جو وقت سے پہلے دنیا میں آگیا تھا تمام سٹاف اس کے لیے بہت پریشان ہے کہ وہ جلد صحت یاب ہو جائے
پھر میں دیکھتا ہوں اس بندر کی آنکھوں میں اظہار تشکر
اور محسوس کرتا ہوں کہ وہ ان لوگوں کے لیے جو اس کی زندگی کے لیے فکر مند ہیں دعائیں کر رہا ہے

آخر میں آپریشن تھیٹر میں ایک خرگوش کا ٹریٹمنٹ کرتے ہوئے دکھایا گیا۔
ٹیبل کے اطراف میں پانچ طبی عملے کے ارکان اس کی جان بچانے کی کوشش کر رہے ہیں
چند لمحوں بعد بڑی ڈاکٹر افسردہ چہرے کے ساتھ اعلان کرتی ہے کہ
( خرگوش از نو مور )
بس یہ سننا تھا کہ تمام اسٹاف کے چہرے اتر گئے
دو کے چہرے سے ماسک اتر گئے
کسی کے سر سے رومال اتر گیا
وہ ایک دوسرے سے گلے مل کے رونے لگیں کہ ہم خرگوش کو نہیں بچا سکے
پھر مالک کو فون کیا گیا کہ ہمیں معاف کر دینا
(وی آر ریلی ویری سوری)

ہم آپ کے خاندان کے رکن کو بچا نہ پائے
سب لوگ افسردہ تھے۔ آنکھوں سے اداسی اور شرمندگی ٹپک رہی تھی
دو تین طبی عملے کے ارکان تو بات بھی نہ کر پا رہے تھے

جبکہ آپ لوگ جس ملک میں رہتے ہیں وہاں جانوروں کو پتھر مارنا/
گاڑی کے نیچے دینا /
گلے میں زنجیر پہنا کے زور سے کھینچنا تاکہ اس کی گردن کو جھٹکا پڑے/ گھوڑوں کو چابک مارنا اور جب وہ چیخیں تو دلی سکون حاصل کرنا/
گدھے کے تو ہم لوگ ویسے ہی جانی دشمن ہیں۔
جہاں کہیں گدھا نظر آئے دل کرتا ہے کہ اس کے پیٹ پہ لات ماریں
یہ ہے اجتماعی رویہ ہم پکے اور سچے عاشقان رسول اور فرزندان توحید کا ۔
انسان کی تو بات ہی چھوڑیں
یہاں ہاسپٹلز میں انسان کی جان بچانے کے لیے ڈاکٹرز کیا مہارت دکھاتے ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔

یہاں تو انسانیت کی تنزلی کا یہ حال ہے کہ اگر کہیں کوئی ایکسیڈنٹ ہو جائے تو روڈ پہ سب سے پہلے لوگ اپنی جیبوں سے موبائل نکالتے ہیں
تاکہ وہ زخمی کی کراھتے ہوئے ،خون میں لتھڑے ہوئے ویڈیو وائرل کر سکیں

اب آپ سوچ سکتے ہیں کہ پاکستان میں انسان پیدا ہونا کتنا بڑا پاپ ہے
کتنی زیادتی ہے انسانوں کے ساتھ
اور آپ یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ کاش آپ کسی ایسے ملک میں ،کسی غیر اسلامی ملک میں پیدا ہوتے۔
بھالو/ بھیڑیا /خرگوش/ چھپکلی/ مگر مچھ کے روپ میں پیدا ہوتے تو آج آپ کو وہاں پر پاکستانیوں سے ہزار گنا زیادہ حقوق اور جینے کے موقع ملتے
آپ سوچیں نہ سوچیں
میں تو ایسے ہی سوچتا ہوں۔

بلکہ ہم انسانوں سے تو وہ جانور اور کتے، جو اسلام آباد میں ایف 10/ ایف 11 /ای سیون جیسے سیکٹرز میں رہائش پذیر ہیں بدرجہ ہا بہتر ہیں

چل آج تجھے
میں لے کے چلوں
اک ایسے گگن کے تلے
جہاں غم بھی نہ ہوں
آنسو بھی نہ ہوں
بس پیار ہی پیار پلے

مزید خبریں