تحریر: داؤد درانی
ایک وقت تھا کہ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت جس کو ہم دشمن ملک بھی کہتے ہیں دہشت گردوں کے نرغے میں تھا ۔اس وقت بھارت میں جہاں کہیں بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا تھا تو بھارت اس کا الزام پاکستان اور آئی ایس آئی پر عائد کردیا کرتا تھا۔
اس زمانے میں پاکستان تو کیا بھارت میں بھی یہ مذاق بن گیا تھا کہ اگر بھارت میں گرمی ذیادہ پڑھتی یا کہیں سیلاب آتا تو اس کا الزام بھی آئی ایس آئی کے سر دھر دیا جاتا تھا لیکن پھر وقت نے پلٹا کھانا شروع کردیا اور بھارت میں دہشت گردی ختم ہونے لگی اور پاکستان دہشت گردوں کی جنت بن گیا ۔
بھارت میں دہشت گردی جادو سے ختم نہیں ہوئی بلکہ بھارت نے اپنے ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سنجیدگی سے منصوبہ بندی کی اور ملکی سلامتی کے لیے ایسے اقدامات کیے کہ جس کی وجہ سے وہاں دہشت گردی کا خاتمہ ہوگیا ۔
بھارت نے بڑی اعلیٰ منصوبہ بندی کر کے عالمی سطح پر پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک کے طور پر بدنام کیا اور یہ ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی کہ پاکستان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والا ملک ہے اور نہ صرف بھارت بلکہ ساری دنیا میں جہاں کہیں بھی دہشت گردی ہو رہی ہے اس میں پاکستان کا ہاتھ ہوتا ہے ۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر میں طویل عرصے سے آذادی کی جنگ جاری ہے جس کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں متعین ہے ۔ بھارت نے آذادی کی اس جنگ کو بھی دہشتگردی قرار دے کر عالمی ہمدردیاں حاصل کیں جس کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں آذادی کی تحریک کو کافی دھچکہ لگا ہے۔ مگر دوسری طرف حالت یہ ہے کہ جب پاکستان میں دہشت گردی شروع ہوئی تو اس پر قابو پانے کے لیے اب تک کسی بھی حکومت نے سنجیدگی سے کوششیں نہیں کیں جس کی وجہ سے پاکستان دہشت گردوں کی چراگاہ بنتا چلا گیا اور بھارت اس آگ پر برابر تیل ڈال کر پاکستان کو معاشی تباہی کی جانب دھکیل رہا ہے ۔ پاکستانی حکمران بھی بھارت کی طرح دہشت گردی کے ہر واقعے کا الزام بھارت اور RAW پر لگا کر اپنے فرائض سے بری الزمہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پاکستان آج تک کوئی ایسی پالیسی بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکا کہ جس پر عمل کر کے دہشتگردی کا خاتمہ کیا جا سکے ۔
پاکستان میں دہشتگردی کرنے والوں کی بڑی پناہ گاہ ہمیشہ سے افغانستان رہا ہے ۔آج بھی طالبان ہوں کہ بلوچستان کے علیحدگی پسند سب کو سپورٹ بھارت سے اور پناہ افغانستان میں مل رہی ہے لیکن پاکستان کی داخلہ اور خارجہ پالیسی ایسی نہیں کہ وہ ان امور پر سنجیدگی سے غور کرکے اس کی روک تھام کے لیے افغانستان کو مجبور کر سکے ۔ افغانستان میں کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کو بھارت کی پوری سپورٹ حاصل تھی لیکن افسوس اور حیرت کی بات یہ ہے کہ طالبان بھی پاکستان کی نسبت بھارت کے ذیادہ قریب ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان بھارت کے مقابلے میں اپنی خارجہ پالیسی وضع کرنے میں کس قدر ناکام ہے ۔
پاکستان کے دو صوبے پختونخوا اور بلوچستان دہشت گردی کی آگ میں جل رہے ہیں لیکن حکمران حسب معمول اس قسم کے مضحکہ خیز بیانات دینے میں مصروف ہیں کہ ملک میں دہشت گردی کی قطعاً اجازت نہیں دی جائے گی گویا پاکستان میں دہشت گردی کے لیے سرکار سے اجازت لینا ضروری ہے ۔ یہ بات تو طے ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی چاہے نام نہاد مذہبی انتہا پسندوں کی طرف سے ہو کہ بلوچ علیحدگی پسندوں کی طرف سے اس میں بھارت پوری طرح سے ملوث ہے کیونکہ پاکستان کو دہشت گردی کے معاملات میں الجھا کر وہ پُرسکون ہے لیکن پاکستان بد قسمتی سے اپنے نہایت خراب معاشی حالات کی وجہ سے اسقدر عالمی مالیاتی اداروں کے پیروں میں بیٹھا ہوا ہے کہ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے ورنہ جب بھارت میں ناگا لینڈ ، میزو رام ، مشرقی پنجاب اور مقبوضہ کشمیر میں آذادی کی جنگ زوروں پر تھی تو پاکستان میں امن تھا ۔
جنگی ماہرین پاکستان میں ہونے والی اس جنگ کو بھارت کی طرف سے ہائی برڈ جنگ قرار دے رہے ہیں جس میں بھارت بغیر کسی جانی نقصان کے اپنے دشمن کو نقصان پہنچا رہا ہے لیکن سوال پھر یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان اس ہائی برڈ جنگ کا جواب ہائی برڈ طریقے سے نہیں دے سکتا ؟ پاکستان کے ہاتھ کیوں بندھے ہوئے ہیں ؟
اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ اگر پاکستان اپنے دفاع میں جوابی کاروائی کرتا ہے تو بڑی طاقتیں اور مالیاتی ادارے پاکستان کو دہشتگردوں کا سپورٹر قرار دے کر اس پر معاشی پابندیوں کی دھمکی دینا شروع کر دیتے ہیں۔
پاکستان چونکہ اپنے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں ، لوٹ مار اور بے تحاشہ کرپشن کی وجہ سے معاشی طور پر تباہی کا شکار ہے لہذا پاکستان اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ ان پابندیوں کو سہ سکے اس لیے شاید اب یہ دہشت گردی ہمارا مقدر بن چکی ہے ۔