اتوار,  23 مارچ 2025ء
عوام فاقوں پر، حکمران عیاشیوں پر

تحریر: اقبال زرقاش

پاکستان اس وقت شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے، لوگ دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں، بے روزگاری عام ہو چکی ہے، اور ہر روز ایک نیا ٹیکس لگایا جا رہا ہے تاکہ عوام سے آخری نوالہ بھی چھین لیا جائے۔ دوسری طرف حکومت آئے دن عالمی مالیاتی اداروں (آئی ایم ایف) اور دیگر ممالک سے قرضے لے رہی ہے، اور یہی حکمران ہر تقریر میں عوام کو قربانی دینے کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔ مگر افسوس! جب بات اپنی ذات پر آتی ہے تو یہ قربانی دینا تو دور، الٹا اپنے مالی فوائد میں اضافہ کر لیتے ہیں۔

ابھی حال ہی میں وفاقی کابینہ نے وفاقی وزرا، وزرائے مملکت اور مشیروں کی تنخواہوں میں 159 سے 188 فیصد تک اضافے کی منظوری دے دی۔ اس فیصلے کے تحت، ایک وفاقی وزیر کی تنخواہ 2 لاکھ سے بڑھا کر 5 لاکھ 19 ہزار کر دی گئی ہے، جبکہ وزرائے مملکت اور مشیروں کی تنخواہوں میں بھی اسی تناسب سے اضافہ کیا گیا ہے۔ یعنی جو لوگ پہلے ہی بے شمار مراعات سے لطف اندوز ہو رہے تھے، ان کے لیے مزید سرکاری خزانے کے دروازے کھول دیے گئے ہیں۔

یہی وہ حکمران ہیں جو عوام سے قربانی مانگتے ہیں۔ یہی وہ سیاستدان ہیں جو ہر بجٹ میں غریب کے منہ سے نوالہ چھیننے کے لیے نئے طریقے ڈھونڈتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ “ملک مشکل میں ہے، ہمیں کفایت شعاری کرنی ہوگی”، کبھی فرماتے ہیں کہ “ہم قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں، سب کو برداشت کرنا ہوگا”، اور جب عوام چیختے ہیں تو جواب دیتے ہیں کہ “مہنگائی عالمی مسئلہ ہے، ہمیں صبر کرنا چاہیے”۔ مگر خود ان کے اخراجات، تنخواہیں اور مراعات آسمان کو چھو رہی ہیں۔

یہ منافقت اور بے حسی کی انتہا ہے!
کیا یہ حکمران اندھے ہو چکے ہیں؟ کیا انہیں نظر نہیں آتا کہ بازاروں میں غریب کیونکر خالی ہاتھ لوٹ رہا ہے؟ کیا انہیں معلوم نہیں کہ ہزاروں گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں؟ کیا انہیں کوئی شرم نہیں آتی کہ وہ اقتدار میں آ کر عوام کا خون نچوڑ رہے ہیں اور پھر انہی کے پیسوں سے اپنی عیاشیوں میں اضافہ کر رہے ہیں؟

یہی وہ حکمران ہیں جو عوام کو سبز باغ دکھا کر اقتدار میں آتے ہیں اور پھر عوام کو برباد کر کے خود محلات میں جا بیٹھتے ہیں۔ ان کی رہائش گاہیں شاہی محلات سے کم نہیں، ان کی گاڑیاں لگژری برانڈز کی ہوتی ہیں، ان کے پروٹوکول میں درجنوں گاڑیاں چلتی ہیں، اور ان کے اہل و عیال کے اخراجات بھی عوام کے ٹیکسوں سے پورے کیے جاتے ہیں۔ لیکن جب بات عوام کی سہولتوں کی آتی ہے، تو خزانہ خالی ہو جاتا ہے، معیشت دیوالیہ ہونے لگتی ہے، اور ہر چیز عوام پر بوجھ بن جاتی ہے۔

اگر واقعی ملک بحران میں ہے، اگر معیشت واقعی کمزور ہے، تو پھر ان وزرا اور مشیروں کی تنخواہوں میں اضافہ کس منطق کے تحت کیا گیا؟ اگر عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالا جا سکتا ہے تو حکمرانوں کو بھی اس کا سامنا کرنا چاہیے۔ مگر افسوس، ہمارے حکمرانوں کا رویہ ہمیشہ خود غرضی اور بے حسی کا شکار رہا ہے۔ انہیں عوام کے مسائل سے کوئی غرض نہیں، انہیں بس اقتدار کے مزے لوٹنے ہیں، اپنی تجوریاں بھرنی ہیں، اور عوام کو مزید غربت میں دھکیلنا ہے۔

اب عوام کو سوچنا ہوگا! یہ سیاستدان آپ کے ہمدرد نہیں، یہ صرف اور صرف اپنے فائدے کے لیے کام کرتے ہیں۔ جب انہیں آپ کے ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ گلیوں میں آ کر جھوٹے وعدے کرتے ہیں، مگر جیسے ہی اقتدار ملتا ہے، یہ آپ کو بھول جاتے ہیں۔ اگر عوام نے اب بھی آنکھیں نہ کھولیں، اگر اب بھی ان حکمرانوں کا احتساب نہ کیا، تو حالات مزید بگڑیں گے، مہنگائی مزید بڑھے گی، اور عام آدمی کا جینا مزید مشکل ہو جائے گا۔

یہ وقت ہے کہ عوام ان منافق حکمرانوں کو پہچانیں اور اپنی آواز بلند کریں۔ ورنہ یہ عیاش حکمران اسی طرح عوام کو لوٹتے رہیں گے، اور عام آدمی ہمیشہ فاقوں میں ہی رہے گا۔

مزید خبریں