اتوار,  23 مارچ 2025ء
حافظ آباد میں مزدوروں کے حقوق غصب کیے جا رہے ہیں

تحریر : شوکت علی وٹو

حکومت پنجاب نے غیر ہنر مند افراد جو مزدور وغیرہ ہیں کی کم از کم اجرت 37000 روپیہ مقرر کی ہے لیکن حافظ آباد میں اس کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں سکول جہاں اساتذہ کا استحصال کیا جا رہا ہے کارخانے فیکٹری میں استحصال کیا جا رہا ہے کم اجرت اور وہ بھی بڑے احسان جتا کر.جبکہ ان کے سوشل سیکیورٹی کارڈز بھی نہیں بنائے جاتے، مالکان ہر ماہ کنٹری بیوشن جو ہر مزودر کا 2 ہزار کے قریب ہے بچانے کے چکر میں مزدوروں کا استحصال کر رہے ہیں.

بھٹہ مزدور،فیکٹری مزدور، دوکانات، شاپنگ مالز، پٹرول پمپس، میرج ہالز، میں کم اجرت اور 8 گھنٹے سے زائد کام لیا جاتا ہے ہتکہ سرکاری محکمے جہاں کمپنیوں کے زریعے لوگوں کو بھرتی کیا گیا ہے وہاں بھی استحصال کیا جا رہا ہے مختلف کٹوتی اور کم اجرت ساتھ ظلم عظیم ان مزدوروں کے سوشل سیکیورٹی کارڈز بھی نہیں بنائے جاتے کہیں ان کو حکومت پنجاب کی جانب سے دی جانی سہولیات نہ مل جائیں کیونکہ مالکان کو جہاں 5 مزدور، ورکرز،سٹاف، سیل مین وغیرہ موجود ہوں ان کو پنجاب ایمپلائز سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن پر رجسٹریشن کروانا ضروری ہے.

پنجاب ایمپلائز سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن نے رجسٹریشن کر کے مالک فیکٹری، دوکان، کارخانہ سے ہر ماہ ایک ورکر کا کنٹری بیوشن 2 ہزار سے زائد ہے وصول کرنا ہوتا ہے اس کے بدلے میں پنجاب حکومت مزدور کو اور اسکے خاندان کو صحت کی فری سہولیات، فری تعلیم، بچوں کو سکالر شپ، بچیوں کی شادی پر میرج گرانٹ، ناگہانی موت کی صورت ڈیتھ گرانٹ اور دیگر سہولیات ہیں جو سوشل سیکیورٹی کارڈز نہ بننے کی وجہ سے مزدور، ورکر، دوکان پر سیل مین وغیرہ ان سہولیات سے محروم رہ جاتا ہے جو محکمہ پنجاب ایمپلائز سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن کے افسران و متعلقہ ملازمین کی ذمہ داری ہوتی ہے وہ فیکٹریوں، کارخانے، بھٹہ خشت و دوکانات کو چیک کریں اور رجسٹریشن کو یقینی بنائیں،

محکمہ محنت و افرادی قوت (لیبر ڈپارٹمنٹ) کے ضلعی افسران نے حکومت کی جانب سے اعلان کردہ سرکاری اجرت کو مزدور کو دلوانا یقینی بنانا ہوتا ہے اسٹنٹ ڈائریکٹر لیبر ویلفیئر کی اپنی عدالت ہوتی ہے جہاں وہ کم اجرت دینے پر سزا تک دے سکتا ہے حکومت کی جانب سے بہت اختیارات ہیں اگر لیبر ڈپارئمنٹ کا افسر اگر استعمال کرے اور اگر کہیں مالکان سے سازباز کر لے تو پھر پراسرار خاموشی ہوتی ہے جس طرح حافظ آباد میں ہے پنجاب حکومت ان دو محکموں پنجاب ایمپلائز سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن اور محنت و افرادی قوت(لیبر ڈپارٹمنٹ) مزدور کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنائے گے ہیں

حافظ آباد میں یہی دو محکمے مزدوروں کے حقوق پامال کرواتے ہیں مزدوروں کو حکومتی سہولیات سے محروم رکھتے ہیں ان کا کام مزدور کے حقوق کا تحفظ ہے لیکن یہ تنخواہیں تو حکومت پنجاب سے لیتے ہیں لیکن فوائد مالکان کو دیتے ہیں بھٹہ خشت کے مزدوروں کے حالات دیکھ لیں کچی اینٹ کی اجرت پوری نہیں ملتی صرف بھٹہ پر چند مزدوروں کے کارڈز بنتے ہیں باقیوں کی رشوت ایک بھٹہ پر 60 سے زائد افراد کام کر رہے ہوتے ہیں صرف حافظ آباد میں 120 سے زائد بھٹہ خشت مکمل آپریشنل ہیں،

اسی طرح پرائیویٹ سکولز، کالجز میں ٹیچرز کے ساتھ ظلم کیا جاتا ہے کم اجرت اور گلی محلوں میں ظلم کیا جاتا ہے جہاں 10 ہزار بھی تنخواہ نہیں دی جاتی، دوکانات جہاں سیٹھ حکومت کو برا بھلا کہہ کر گراں فروشی کرتے ہوئے دن بدن دولت کے انبار لگا رہا ہے کپڑے کا تاجر 1000 روپیہ والا سوٹ 2000 روپے دے کر بھی اپنے سیل مین کی پوری تنخواہ اور سوشل سیکیورٹی کارڈز نہیں بنواتا، اسی طرح کارخانے کا مالک جمع کر حکومت کی برائیاں کرے گا اور دولت کے انبار لگاتا ہوا دیگر ٹیکسسز کی چوری کے ساتھ ورکرز کے سوشل سیکیورٹی کارڈز نہیں بنائے گا کیونکہ اس نے کنٹری بیوشن کے نام پر 2 ہزار روپیہ جمع کروانا ہوتا ہے رمضان المبارک میں اپنے آپکو دیالو ظاہر کرتے ہیں لیکن مزدوروں کے جائز حقوق جسے حکومت نے پوری طرح لاگو کرنا ہوتا ہے حکومتی اہلکاروں کی نا اہلی سے وہ نہیں دیتے.

میونسپل کمیٹی حافظ آباد گوجرانوالہ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے ورکرز بھی کم تنخواہوں کا شکار ہیں دوسری جانب سرکا ہسپتالوں میں صفائی ستھرائی کرنے والا عملہ بھی کم اجرت اور کم تنخواہوں کا شکار ہیں ان ورکرز کے سوشل سیکیورٹی کارڈز بھی نہیں بنوائے جاتے، ان سب معاملات کو دفاتر میں بیٹھ کر حل کیا جا سکتا ہے؟ جن کی ڈیوٹی چیک کرنا ہے وہ گھر بیٹھے تنخواہیں لیتے ہیں یا پھر فلیڈ میں جا کر ناغہ جات کے معمولی پیسے لیتے ہیں پنجاب ایمپلائز سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن کے افسران و ملازمین فیکٹری کارخانے کے مالکان سے مختلف گفٹس، نقدی، عیدی، شب برات کپڑے لیکر ایک آدھ نوٹس جاری کر کے سمجھ رہے ہیں پوری ایمانداری سے ڈیوٹی دے رہے ہیں.

اگر ایسا ہوتا تو مزدوروں کے اتنی کم تعداد جو رجسڑڈ ہے وہ نہ ہوتی مزدوروں کا سوشل سیکیورٹی ہسپتال بن چکا ہوتا تعلیمی ادارے بن چکے ہوتے مزدوروں کے بچوں کو تعلیم سے محروم نہ ہونا پڑتا، مزدوروں کے بچوں کے کالج آف انٹرنیشنل سکلز ڈوپلپمنٹ حافظ آباد ٹرانسپورٹ کے نام فنڈز نہ کھا پاتا، ان کے سکالر شپ کے چیکس دبا کر نہ بیٹھتے،مزدوروں کے بغیر نظام زندگی رک سکتا ہے غریب کے حقوق کی بات تو کی جاتی ہے جو صرف باتوں کی حد تک ہے جس مزدور کے لیے اللہ کہتا ہے الکاسب حبیب اللہ ہے لوگ ان کے جائز حقوق ہڑپ کر کے سمجھ رہے وہ خدا کو راضی کر لیں اللہ کے دوست سے ظلم اور باتیں صرف باتیں……

مزید خبریں