اتوار,  23 مارچ 2025ء
پاکستان میں پانی کمی کی تشویش ناک صورتحال
پاکستان میں پانی کمی کی تشویش ناک صورتحال

پاکستان ایک خوش قسمت ملک ہے کہ جہاں 13000 ہزار سے زائد گلیشیرز موجود ہیں جس کا پانی پہاڑی ندی نالیوں میں بہتا ہوا دریائوں تک پہنچتا ہے اور پھر ان دریائوں پر بنے ہوئے ڈیموں کو بھرنے کا باعث بتا ہے ۔ جہاں پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اس کے پاس ہزاروں گلیشیرز موجود ہیں وہاں پاکستان کی بد قسمتی دیکھیے کہ ہمارے نا اہل حکمرانوں کی وجہ سے ہم نے پچھلے 75 سالوں میں اتنے ڈیم نہیں بنائے جتنی ہمیں ضرورت تھی ۔
1970 میں تربیلا ڈیم کی تعمیر کے بعد ہمارے حکمران یہ سوچ کر لمبی تان کر سو گئے کہ اب ہمیں شاید مزید ڈیموں کی تعمیر کی ضرورت نہیں ہے لیکن دوسری طرف بڑھتی ہوئی آبادی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ملک میں پانی کمی ہونے لگی اور اب حالت یہ ہے کہ خاص طور پر صوبہ سندھ پانی کے مسئلے پر مرکز اور پنجاب سے بر سر پیکار ہے اور صوبوں کے درمیان پانی کے مسئلے پر اختلافات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں ۔
اگر پاکستان میں ہر دھائی میں ایک ڈیم تعمیر ہوتا تو آج ہماری یہ حالت نا ہوتی ۔ 1950 کی دھائی میں وارسک ، 1960 کی دھائی میں منگلا اور 1970 کی دھائی میں تربیلا ڈیم کی تعمیر اگر نا کی جاتی تو شاید آج ہمارا ملک ایک صحرا کی مانند ہوتا لیکن بد قسمتی سے 1970 کے بعد ملک میں ڈیموں کی تعمیر کا کام مکمل طور پر روک دیا جس کو ملک دشمنی سے تعبیر نا کیا جائے تو اور کیا کیا جائے ؟
1980 کی دھائی میں جب پاکستان میں ایک فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی کالاباغ ڈیم کے منصوبے پر بلا وجہ کی سیاست کی گئی ۔ کالا باغ ڈیم سے کافی امیدیں وابستہ تھیں مگر صوبہ پختونخوا اور سندھ کسی بھی صورت میں اس ڈیم کی تعمیر پر آمادہ نہیں تھے ۔سندھ اور پختونخوا اسے اپنے صوبوں کی تباہی اور پنجاب ملک دشمنی قرار دے رہا تھا لیکن آخر کار اس منصوبے کو متنازعہ قرار دے کر سرد خانے میں ڈال دیا گیا ۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کالا باغ ڈیم کے منصوبے کو ختم کرنے کے بعد فوری طور پر کسی نئے ڈیم کی تعمیر پر کام شروع کر دیا جاتا مگر ہماری سیاسی پارٹیاں طویل عرصے تک کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر اپنی سیاست چمکاتی رہیں اور کسی نے بھی اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ملک میں بجلی اور پانی کمی جیسے مسائل نے سر اٹھانا شروع کردیا اور ملک معاشی طور پر تباہی کی جانب چل پڑا کیونکہ بجلی کمی سے صنعتیں متاثر ہونے لگیں اور پانی کی کمی نے ملکی زراعت پر منفی اثرات ڈالنے شروع کر دیے ۔
بجلی کمی کا حل تو ہمارے قابل حکمرانوں نے یہ نکالا کہ گیس اور تیل سے بجلی بنانے والے کارخانے نجی سطح پر بنا کر ان سے انتہائی مہنگے داموں بجلی خرید کر عوام کو کم قیمت پر دینا شروع کر دی جس سے گردشی قرضے اربوں روپے تک پہنچ گئے اور جب معاملات حکومت کے قابو سے باہر ہوگئے تو یکدم بجلی کی قیمتوں میں اتنا اضافہ کر دیا گیا کہ لوگوں کی کمر توڑ دی گئی ۔
دوسری طرف مختلف اوقات میں پانی کی کمی جیسے مسائل نے پاکستان کی معیشت پر ضرب لگا شروع کردی ۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بعض دفعہ مون سون میں عام حالات سے ذیادہ بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلابوں کی وجہ سے ملک کا انفرا سٹرکچر اور زراعت متاثر ہونے لگے ۔
اگر ملک میں پانی کو جمع کرنے کے ذخائر بڑی تعداد میں ہوتے تو نہ صرف سیلاب کی تباہ کاریاں کم ہوتیں بلکہ اس پانی کو جو سمندر کی نظر ہو جاتا ہے محفوظ کر کے اس سے ان موسموں میں فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جب ملک میں بارشیں نہیں ہوتیں اور دریائوں میں پانی کی کمی ہوتی ہے ۔ اس سال موسم سرما میں معمول سے انتہائی کم بارشیں اور برف باری ہوئی بلکہ ستمبر سے لے کر فروری تک تو بالکل بارشیں نہیں ہوئیں جس کی وجہ سے پانی کے دو بڑے ذخائر منگلا اور تربیلا میں پانی کی سطح ڈیڈ لیول تک پہنچ گئی ہے اور منگلا ڈیم میں بجلی بنانے کے یونٹ اس وجہ سے بند کردیے گئے کہ اگر ڈیم سے ڈیڈ لیول کے بعد پانی کا اخراج کیا گیا تو مشینری تباہ ہو جائے گی ۔
اسی طرح بڑے شہروں کو جن چھوٹے ڈیموں سے پانی فراہم کیا جاتا ہے اس میں بھی بہت بڑی کمی کر دی گئی ۔ درجہ حرارت میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے گلیشئر ز کی پگھلنے کی رفتار بڑھ رہی ہے جو بہت تشویشناک امر ہے کیونکہ اس سے گرمیوں میں سیلاب آنے کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں ۔
اگر ملک میں تربیلا یا اس سے بھی بڑے ڈیم بنائے گئے ہوتے تو گلیشیرز کا یہ پانی جو سیلاب کی صورت میں ضائع ہو کر سمندر کی نظر ہو جاتا ہے اسے محفوظ کیا جاسکتا ہے اور اس سے بوقت ضرورت کام لیا جا سکتا ہے ۔
آج سب سے ذیادہ صوبہ سندھ کو پانی کی کمی کا سامنا ہے کیونکہ انکا سارا دارومدار ایک ہی دریا دریائے سندھ پر ہے جس میں آجکل سندھ میں دھول اڑ رہی ہے ۔ تو اب اگر پاکستان میں بڑے بڑے ڈیم ہوتے تو ان میں جمع شدہ پانی کو دریائے سندھ میں بہا کر سندھ میں پانی کی کمی کو پورا کیا جاسکتا تھا۔
اب بھی اگر ہمارے حکمران عقل سے کام لیں اور ملک میں چند بڑے ڈیموں کو ہنگامی بنیادوں پر بنانے کا عمل شروع کردیں تو شاید ہم اپنے آنے والی نسلوں پر کچھ احسان کر سکیں ورنہ آنے والی نسلیں تو کیا شاید ہم اپنے ملک میں پانی کی کمی کے منفی نتائج کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں گے ۔
ملک کے شمالی علاقوں میں دریائے سندھ پر کئی بڑھے ڈیم بنائے جا سکتے ہیں جن میں بھاشا ڈیم اور کٹزارا ڈیم قابل ذکر ہیں لیکن ہمیں آج تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ بھاشا ڈیم بن بھی رہا ہے کہ نہیں اور اگر بن رہا ہے تو اس کی تکمیل کب ممکن ہوگی کیونکہ جس رفتار سے اس پر کام جاری ہے شاید پچاس سال بعد بھی اس کی تعمیر ممکن نہیں ۔ ہماری سیاسی جماعتوں اور اسٹبلشمنٹ کا صرف ایک ہی کام ہے اور وہ یہ کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھا کر اقتدار پر قبضہ کرنا اور پھر لوٹ مار کے زریعے اپنی ناجائز دولت میں اضافہ ملکی ترقی کی جانب ان کی توجہ نا ہونے کے برابر ہے ۔ ۔

داؤد درانی

مزید خبریں