سید شہریار احمد
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ
ہندوؤں کے روایتی و مذہبی تہوار بے ساکھی/ دیوالی/ ہولی نہایت عقیدت کا احترام اور خوشیوں کا مرکز ہوتے ہیں
اور جو ہولی کے رنگ /جو انداز / جو گیت گاتے اور ناچتے ہوئے مرد و خواتین ہم بھارتی فلموں میں دیکھتے ہیں اس سے تو اکثر اوقات اپنا بھی من چاہتا ہے کہ ہم بھی ہولی کھیلیں
دیوالی پہ چراغ جلائیں کیونکہ تہوار تو خوشیاں بانٹنے اور خوش ہونے کے مواقع ہوتے ہیں
پاکستان میں بھی مختلف مقامات پر ہولی کا تہوار منعقد کیا گیا
حکومت پنجاب کی جانب سے خاص طور پر ایسے ایک پروگرام کا اہتمام کیا گیا کھیوڑا کے پاس کٹاس راج مندر میں
جہاں پہ ہولی کو منانے/ مہمانوں کو بلانے اور انتظامات کرانے کی ساری ذمہ داری ہندوؤں کے سناتن دھرم کے چیئرمین را کیش چند کے ذمے تھی
را کیش چند ہمارے بہت اچھے دوست ہیں لہذا انہوں نے ہمیں بھی دعوت دی کہ کٹاس راج مندر آئیں
میں اور ڈاکٹر کاشف ملک جو بین المذاہب ہم آہنگی کے داعی ہیں بڑے شوق سے لگ بھگ ڈیڑھ سو میل کا سفر طے کر کے وہاں پہنچے
لیکن وہاں جا کر بہت مایوسی ہوئی
ایک تو اس بات کی مایوسی کہ جس طرح کا ماحول ہم انڈین فلموں میں ہولی کے موقع پر دیکھتے ہیں وہ ہلہ گلا/ وہ ناچ گانا/ وہ قہقہے / وہ ایک دوسرے پر رنگوں کی پھوار پھینکنا
مردوں کا عورتوں کے پیچھے اور عورتوں کا مردوں پر رنگ پھینکنے کے لیے بھاگنا
یہ وہاں کچھ بھی نظر نہ آیا اور سب سے بڑھ کر مایوسی یہ ہوئی کہ میرے اور ڈاکٹر کاشف کے علاوہ کوئی مسلمان وہاں پر نہیں پہنچا تھا
تعداد قلیل ہونے کے باعث بلکہ مجھے تو ایسا گمان ہوا کہ ہندو برادری کے بھی خاندان دوسرے اضلاع سے یا دوسرے شہروں سے وہاں نہ پہنچے
اب میں اس کی ذمہ داری سناتن دھرم کے چیئرمین راکیش چند کے پہ ڈالوں تو بے جانا نہ ہوگا
کیونکہ انہیں پنجاب بھر سے لوگوں کو اکٹھا کرنا تھا اور بادی نظر میں وہ ایسا نہ کر پایے
انہیں مسلمانوں کو بھی اکٹھا کر کے گاڑیاں ارینج کروا کر وہاں پہنچانا چاہیے تھا
تاکہ اس پوتر اور مقدس تہوار کو ہندو اور مسلمان مل کے مناتے اور محبتیں بانٹتے اور ہندوستان کو پیغام جاتا کہ مسلمان ،پاکستان کی اقلیتوں کے ساتھ کیسا بھائی چارہ رکھتے ہیں
بلکہ را کیش چند صاحب میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آئندہ جب ہولی کا تہوار ہو تو آپ ہماری خدمات حاصل کریں
ہم میڈیا کے اچھے لوگ /معروف اینکرز/ گلوکار/ آرٹسٹ/ اپنے خصوصی تعلقات کی بنا پر وہاں لے کر آئیں گے اور ہولی کے رنگ پھیکے نہ ہونے دیں گے
اس ہولی کی تقریب سے میں اور ڈاکٹر کاشف بہت مایوس واپس لوٹے
کیونکہ ہولی کے رنگ بہت پھیکے تھے
ہم تو گیت گاتے گئے تھے کہ
ہولی کے دن جب کھل جاتے ہیں
رنگوں میں رنگ مل جاتے ہیں