جمعرات,  13 مارچ 2025ء
لاکھوں میں ایک، جو ملک چھوڑ کے چلا گیا

سید شہریار احمد
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ

ضلع راولپنڈی کا نوجوان جسے میں بہت عرصے سے جانتا تھا ایک نہایت ہی ہونہار /محنتی/ نیک نیت/ خوش شکل ، جو تمام نوجوانوں کی طرح ایک اچھی زندگی کی خواہش دل میں لے ، تعلیم مکمل کرنے کے بعد پریکٹیکل لائف میں داخل ہوا
اس کی خوش اخلاقی/ نیک نیتی اور صاف گوئی سے اس کی کمپنی کے کلائنٹس میں اضافہ ہوا ۔
جس ٹریول ایجنسی میں اس نے جاب شروع کی تھی اس نوجوان کی وجہ سے اس کی آمدن بڑھ گئی لیکن مالک چھ ماہ تک اس کی تنخواہ دینے میں لیت و لعل سے کام لیتے رہے کہ کاروبار مندہ ہے
حالانکہ کمپنی کما رہی تھی۔ آخر کار اس نوجوان نے ایک اور ٹریول ایجنسی میں نوکری کی۔
تین چار سال دل لگا کے کام کرتا رہا۔ اس کا مارکیٹ میں ایک نام بن گیا۔
عمرہ پیکجز اور دوسرے بیرون ملک کے ہوائی سفر کے ٹکٹس دوسری ٹریول ایجنسیاں بھی اس سے مستعار لینے لگیں
جیسا کہ کاروبار میں ہوتا ہے کچھ لاکھ کی پیمنٹ ادھار ہو جائے تو کچھ لاکھ دے کر دوبارہ پھر کچھ لاکھ کا قرض واجب ادا رہ جاتا ہے۔

پھر وہی ہوا جیسا کہ ہونا چاہیے تھا ۔اس لڑکے کے نام پر لاکھوں روپے کے ٹکٹس جو کریڈٹ پر دوسری کمپنیوں نے لے رکھے تھے تو انہوں نے رقم کی واپسی میں کوئی دلچسپی نہ لی جس بنا پر اس کی ٹریول ایجنسی کے مالکوں نے اس کے لیے زندگی تنگ کر دی
یہ مایوس ہوا
تکلیف میں آیا
بھاگا دوڑا
کچھ زیور ،کچھ سامان بیچ کے قرض ادا کیا۔
آخر کار اس کو بھی دیار غیر جانا پڑا روزگار کے لیے۔
نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی معصوم بچی اور بیوی اور والدین کو چھوڑ کر بیرون ملک منتقل ہو گیا اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ بیرون ملک میں انسان کی محنت/ لگن/ فر ض شناسی کو سراہا جاتا ہے اور اسے اس کی محنت کاثمر ملتا ہے تو ایسا ہی ہوا اور چار سال کے بعد وہی نوجوان ذیشان تنویر ،جو پاکستان میں تکلیف کی زندگی گزار رہا تھا اور جس کو محنت کے بدلے رسوائی ملتی تھی آج دبئی میں اپنی ٹریول ایجنسی چلا رہا ہے۔
ایسے بہت سے ذیشان ہیں لاکھوں، جو پاکستان میں اپنی محنت، اپنے ٹیلنٹ کے حوالے سے کچھ حاصل نہیں کر پاتے ۔
انہیں زندگی پاکستان میں سبق سکھاتی ہے کہ یہاں آپ کی محنت کا، آپ کی کارکردگی کا، آپ کی تعلیم کا، آپ کے ہنر کا کوئی مول نہیں
پھر ایسے بہت سے نوجوان جو ڈنکی لگا کر سمندر کی لہروں میں کھو جاتے ہیں اور اپنے گھر والوں کے لیے آنسو اور یادیں چھوڑ جاتے ہیں۔
آج ذیشان تنویر جیسے کتنے ہی لوگ پاکستان میں سبق سیکھ رہے ہیں۔
ذیشان نے بھی سبق سیکھا اور ملک سے چلا گیا اور آج ایک خوش حال/ خوشگوار اور بہترین زندگی گزار رہا ہے۔

لیکن ہم میں سے کون چاہتا ہے کہ زندگی ہمیں ایسا سبق سکھائے؟

مزید خبریں