سید شہریار احمد
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ
ابھی تو میں نے بہت سے کام کرنے ہیں۔ ابھی تو میں نے اپنے بچوں کو پڑھانا ہے، پھر ان کی شادی کرنی ہے ،پھر ان کے بچوں کی دیکھ بھال کرنی اور ان کے مستقبل کے لیے فکر مند ہونا ہے
میں نے حج اور عمرے کرنے کا پروگرام بنا رکھا ہے۔
خدا کی بنائی ہوئی دنیا میں گھومنے کے لیے ڈھیر سارا روپیہ کمانا ہے۔
انسان کی خواہشیں ہر لمحے ہزاروں بچے دیتی ہیں اور یہ بچے دیکھتے ہی دیکھتے بڑھ کر جوان ہو کر سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
اسی لیے کسی نے کہا تھا کہ
ہزاروں خواہشیں ایسی
کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔
مگر یہ موت ،یہ موت بیچ میں آگئی
ابھی تو میں نے اپنے کام مکمل کرنے تھے ۔
ابھی تو میں نے اپنے دوستوں کو منانا ہے۔
روٹھے ہوئے کے پاس جانا ہے۔ اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اور کسی کی دل آزاری کرنے پر معافیاں مانگنی ہیں
مگر یہ موت ،یہ موت بیچ میں کیوں آگئی؟
میں کیوں یہ سب کام پہلے انجام نہ دے سکا؟ آج جب میں عمر کےاس حصے میں ہوں جہاں سے موت کا فرشتہ کسی بھی لمحے مجھے اچک کر لے جا سکتا ہے اور جس عمر میں اب مستقبل کی سال/ چھ مہینے کی پلاننگ کرتے ہوئے بھی سوچنا پڑتا ہے کہ شاید زندگی موقع دے یا نہ دے۔
تو پھر میرے سارے نامکمل کاموں کا کیا بنے گا؟ کون انہیں پورا کرے گا؟ اور اگر پورا کر پائے گا تو اس سے مجھے کیا فائدہ ؟میں تو اسے دیکھنے کے لیے نہیں ہوں گا ۔
اگر کچھ عرصہ اور زندہ رہ لیتا تو سارے کام مکمل کر لیتا ۔
اب موت بیچ میں آ رہی ہے۔
اتنی خوبصورت زندگی، ہاتھ سے جا رہی ہے۔
بہت سارے کام بیچ میں رہ جانے ہیں۔
سب کام پورے کہاں ہوتے ہیں۔ ایک کام سے دوسرا/ دوسرے سے تیسرا نکل آتا ہے۔
ابھی تو موت بیچ میں آگئی ابھی تو بہت سے کام ادھورے پڑے ہیں۔
اب میں پیچھے دیکھتا ہوں۔ اپنے ماضی میں جھانکتا ہوں۔ جب میں نے ہزاروں کام شروع کیے اور ہزاروں ادھورے چھوڑ دیے۔
وہ وقت میری آنکھوں کے سامنے ہے جب میں جوان تھا، تندرست تھا! بھاگ بھاگ کر پہاڑوں پر چڑھ جایا کرتا تھا۔لوگ، خاص طور پر صنف نازک مجھے ایک بار تو ضرور نظر بھر کر دیکھا کرتی تھیں پر اس وقت میں آگے ،بہت آگے اپنے مستقبل میں، اپنے خوابوں کی تکمیل ہوتے ہوئے دیکھا کرتا تھا ۔
خواب دیکھتا تھا، ایسے خواب جو ہر نوجوان دیکھتا ہے۔ ایک اچھی/ خوبصورت/ محبت کرنے والی شریک حیات اور پیارے پیارے بچے۔ ایک اچھی نوکری/ کامیابیاں،
وقت پر ملنے والی نعمتوں کو نظر انداز کر کے نظر نہ آنے والی آسائشوں کا انتظار کرتا تھا
سب کچھ کھو گیا۔ بچپن جوانی کے انتظار میں
جوانی شادی کے انتظار میں، پھر بچوں کی تعلیم کی تکمیل کا انتظار
پھر بچوں کی شادی
پھر ان کے بچوں کی شادی ۔
یہ ہم کس منحوس چکر میں پڑے رہے ہیں؟
یہ خواب/ ہمیں، ہم ہی سے دور کر دیتے ہیں۔ یہ دنیا اور اس کی رونقیں/ یہ پیارے رشتے /یہ قدرتی نظارے/ یہ سب خوابوں کی دھند میں کھو جاتے ہیں۔
اگر انسان سے خواب دیکھنے کی صلاحیت سلب کر لی جائے تو یہی انسان کتنی پرسکون اور مسرتوں بھری زندگی گزارے
لیکن اب تو یہ موت، یہ موت سامنے کھڑی ہے۔
یہ موت بیچ میں کھڑی ہے
میں نے بہت سے کام کرنے ہیں۔
یہ موت بیچ میں کہاں سے آگئی ؟