سید شہریار احمد
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ
بہت عرصہ پہلے گرو رجنیش نے کہا تھا کہ جو لوگ بھاگ بھاگ کر مسجدوں اور مندروں میں جاتے ہیں، مندروں کی گھنٹیاں بجاتے ہیں اور اگلی صفوں میں جا کر جماعت میں کھڑے ہونے کے لیے بے چین رہتے ہیں ان سے بچنا ،یہ بڑے خطرناک لوگ ہیں
اس وقت مجھے گرو رجنیش کی بات سمجھ نہ آئی تھی بلکہ مجھے برا لگا تھا کہ یہ نمازیوں کو اور مندروں اور مسجدوں میں جانے والوں کو ایسے کیوں کہہ رہا ہے
لیکن شاید گرو رجنیش نے وہ سب کچھ بہت پہلے دیکھ لیا تھا جو ہم اب دیکھتے ہیں۔
ماہ رمضان میں ایک ریڑھی پر مال بیچنے والا ہو یا ایک بہت بڑے ڈیپارٹمنٹ سٹور کا تاجر، رویے دونوں کے ایک جیسے ہوں گے کہ کس طرح رمضان میں عوام کی کھال اتاری جائے
یہ ایک تو مال مہنگا بیچیں گے پھر اس پر بھی دو نمبر اور اس کے بعد پانچ وقت کی نماز باجماعت ادا کرنے کی دوڑ۔
میں جب دنیا کے مذاہب کا مطالعہ کرتا ہوں یا ان کے سماجی رویوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے عیسائی/ یہودی/ سکھ/ ہندو، مسلمانوں سے بہت آگے ،بہت بہتر، بڑے با کردار ،انسانیت پرست نظر آتے ہیں
جبکہ مسلمان اس انتظار میں ہوتا ہے کہ کب رمضان المبارک کا چاند نظر آئے اور کب ان کے کاروبار کو چار چاند لگ جائیں
یہ بات ذہن میں رکھیں کہ حج میں مسلمان حجاج کی تعداد دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے اور عمرے میں پاکستانی مسلمان تعداد کے حساب سے پہلے نمبر پر آتے ہیں
لیکن ایمانداری میں 160 ویں ملک پہ ہیں
انصاف میں 130 ویں ملک میں ہیں
باقی آپ خود سمجھدار ہیں ہر بات جانتے ہیں
یہاں رمضان کے مہینے میں جو بھی کاروباری شخص ہے کسی بھی قسم کا وہ کاروبار کر رہا ہے، اشیائے خورد و نوش کا ریٹ بڑھا کر 200 گنا منافع کمائے گا
اچھا چلیں منافع کما لیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پھلوں والا مہنگا پھل دینے کے باوجود داغی پھل ڈال دے گا
مصالحہ جات میں مضر اشیاء کی ملاوٹ کی گئی ہوگی جو انسانی صحت کے لیے خطرناک ہو
عید قریب آئے گی تو یہاں کے باریش اور پانچ وقت کی نمازی ہر چیز مہنگی کر کے بیچیں گے اور اکثریت رمضان کے آخری عشرے کو مدینہ منورہ کی مسجد میں گزارے گی۔
یہاں تو سیل بھی دو نمبر لگے گی۔ ایک ہزار روپے کی چیز 5 ہزار کا ٹیگ لگا کر ڈھائی ہزار میں بیچی جائے گی
جبکہ حضرت عیسی کے پیروکار ایسٹر یا کرسمس پہ حضرت عیسی کی پیدائش کی خوشی میں ایک ہزار کی چیز 200 روپے میں بیچیں گے۔ 80 فیصد ڈسکاؤنٹ دیں گے اور یہودی بھی ایسا ہی کریں گے جب کہ یہاں پہ عاشقان رسول نہ صرف نبی کو بلکہ اللہ کو بھی دھوکہ دیتے ہیں
رمضان کا چاند دیکھتے ہی کاروباری لوگوں کی انسانیت موقع پر ہی دم توڑ دیتی ہے اور پھر یہ سب عوام کی کھال اتارنے والے،
حکمرانوں کو برا بھلا کہیں گے
سیاست دانوں کو گالیاں دیں گے
فوج پہ تبرہ بھیجیں گے لیکن اپنے گریبان میں منہ ڈال کر نہیں دیکھیں گے۔
انسان بنو کر لو بھلائی کا کوئی کام انسان بنو
دنیا سے چلے جاؤ گے رہ جائے گا بس نام انسان بنو
خود پاپ کرو نام ہو شیطان کا بد نام انسان بنو
لیکن یہ میں کن سے کہہ رہا ہوں؟ ان ناجائز منافہ خوروں/ بے حسوں /ذخیرہ اندوزوں/ انسانیت کے دشمنوں سے
یہ وہ لوگ ہیں جو روز قیامت ،دوبارہ زندگیے جانے اور خدا کے حضور پیش ہونے پر ایمان نہیں رکھتے۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کہا تھا کہ جو ناپ تول میں گڑبڑ کرے یا اشیا میں ملاوٹ کرے یا ذخیرہ اندوزی کرے وہ ہم میں سے نہیں
یعنی کہ اس کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیا اور پھر بھی اس کے باوجود یہ نبی کی شفاعت کے طلب گار ہیں ۔
آخر میں پھر ان ذخیرہ اندوزوں/ ناجائز منافع خوروں/ اور حرام کمانے والوں کو رمضان کا مہینہ مبارک ہو