تحریر: شہزاد حسین بھٹی
بلوچستان میں پنجابی مزدوروں کو نشانہ بنانے کے واقعات کوئی نئی بات نہیں رہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے وقت کے ساتھ مزید سنگین شکل اختیار کر لی ہے۔ حالیہ واقعہ 18 فروری 2025 کو بارکھان میں پیش آیا، جہاں مسلح افراد نے کوئٹہ سے فیصل آباد جانے والی ایک بس کو روکا، مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کیے، اور سات پنجابی مزدوروں کو نیچے اتار کر بے دردی سے قتل کر دیا۔ یہ واقعہ کسی اتفاقیہ یا ذاتی دشمنی کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہونے والی دہشت گردی تھی، جس کا مقصد ایک مخصوص لسانی گروہ کو نشانہ بنانا تھا۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ پنجابی مزدوروں کو بلوچستان میں نشانہ بنایا گیا ہو۔ گزشتہ برس 26 اگست 2024 کو موسیٰ خیل میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا، جہاں 23 مسافروں کو گاڑیوں سے اتار کر قتل کر دیا گیا تھا۔ 2023 اور اس سے پہلے بھی کئی مواقع پر ایسے واقعات سامنے آ چکے ہیں، جن میں پنجابی مزدوروں کو دہشت گردی کا شکار بنایا گیا۔ بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں ان واقعات کی ذمہ داری قبول کرتی رہی ہیں، جو غیر بلوچ افراد کو نشانہ بنانے کو اپنی مزاحمت کا حصہ قرار دیتی ہیں۔
بلوچستان میں ایسے واقعات کے تسلسل نے یہ سوال پیدا کر دیا ہے کہ آیا ریاست اپنی رٹ قائم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے یا پھر دانستہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ جب بھی ایسا کوئی واقعہ پیش آتا ہے، حکومتی نمائندے مذمتی بیانات جاری کرتے ہیں، مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف اور صدر آصف علی زرداری نے حالیہ واقعے کی مذمت کرتے ہوئے مجرموں کو سزا دینے کا اعلان کیا ہے، لیکن ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ ایسے بیانات زیادہ تر رسمی ہوتے ہیں، اور ان کا زمین پر کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔
ان واقعات کے باعث بلوچستان میں کام کرنے والے پنجابی مزدور شدید خوف کا شکار ہیں۔ بہت سے لوگ یا تو بلوچستان چھوڑ چکے ہیں یا پھر چھوڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ایک مزدور، جو کسی سیکیورٹی خدشے کے باعث نام ظاہر نہیں کرنا چاہتا، کہتا ہے:
“ہم لوگ یہاں صرف رزق کمانے آتے ہیں، ہمارا کسی سے کوئی جھگڑا نہیں، لیکن ہمیں شناختی کارڈ دیکھ کر مار دیا جاتا ہے۔ ہم کہاں جائیں؟”
جب کسی قوم یا لسانی گروہ کو اس کی شناخت کی بنیاد پر مسلسل نشانہ بنایا جائے، تو اسے نسل کشی کہا جاتا ہے۔ اگرچہ حکومت اور انسانی حقوق کی تنظیمیں کھل کر اس مسئلے کو تسلیم کرنے سے گریز کرتی ہیں، مگر حقائق اس سے مختلف تصویر پیش کرتے ہیں۔ بلوچستان میں پنجابی مزدوروں کا قتل محض دہشت گردی نہیں بلکہ ایک مخصوص لسانی گروہ کو ختم کرنے کی کوشش کے مترادف ہے۔
حکومت کو ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہوگی جو نسلی و لسانی بنیادوں پر دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ بلوچستان میں مزدوروں کے لیے بہتر سیکیورٹی اقدامات کیے جائیں، تاکہ وہ خوف کے بغیر اپنا روزگار جاری رکھ سکیں۔ پنجابی، بلوچ اور دیگر قومیتوں کے درمیان غلط فہمیاں ختم کرنے کے لیے قومی سطح پر مکالمہ ضروری ہے۔ صرف بیانات دینے کے بجائے متاثرہ خاندانوں کو انصاف فراہم کیا جائے، تاکہ انہیں یہ احساس نہ ہو کہ ریاست نے انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔
بلوچستان میں پنجابی مزدوروں کو نشانہ بنانے کے واقعات ایک خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتے ہیں، جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے سنجیدہ اقدامات نہ اٹھائے گئے، تو یہ لہر مزید پھیل سکتی ہے، جس کے نتائج پورے ملک کے لیے تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ اب وقت آ چکا ہے کہ محض مذمتی بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کیے جائیں، تاکہ معصوم مزدوروں کا قتل عام روکا جا سکے اور پاکستان میں ہر قوم کو برابر کا تحفظ مل سکے۔