سید شہریار احمد
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ
ویسے میں لوگوں کی باتوں سے متاثر ہونے والا تو نہیں کیونکہ اب اس عمر سے گزر چکا ہوں جہاں لوگوں کی بڑی بڑی باتیں سن کر ان سے مرعوب ہو جایا کرتے تھے۔
اب جب تک اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں اس وقت تک یقین کرنا ،دل قبول نہیں کرتا
اب چونکہ ہم ایسے سماج میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں پہ لوگ، لوگوں کے ناکردہ گناہوں کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور کسی کے اچھے کام کی تعریف کرنا تو بالکل ہی ناپید ہو چکا ہے۔
لیکن جہاں تک میری بات ہے تو اگر میں کسی کے غلط اعمال کو قابل گرفت سمجھتا ہوں تو وہاں اچھے کاموں کی پزیرائی کرنا بھی اپنا فرض جانتا ہوں۔
میں نے دیکھا ہے صبوحی حسین کو اور ان سے ملا ہوں جو بچوں کی فلاح و بہبود ان کی تربیت اور خواتین کو با اختیار بنانے ،ان کو روزگار کی وسائل مہیا کرنے، ان کی عزت نفس کو بحال کرنے اور ان کی تقدیر بدلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور کافی حد تک کامیاب بھی ہو چکی ہیں
صبوحی حسین، راولپنڈی خواتین چیمبر آف کامرس کی سابقہ صدر اور حالیہ سی ای او ڈیجیٹل نیکسشز آئی ٹی کمپنی ہیں
میں چاہوں گا کہ آپ بھی ان کے بارے میں کچھ جانیں اور لوگوں کو بتائیں، ایسی خواتین کو خاص طور پر جو مشکل حالات میں زندگی گزار رہی ہیں اور اپنا اور اپنے خاندان کا وسیلہ بننا چاہتی ہیں تاکہ وہ صبوحی حسین سے رابطہ کر کے مستفید ہو سکیں
جب ان سے ملاقات ہوئی تو گفتگو کے دوران انہوں نے اپنے بارے میں کچھ یوں بتایا
انہی کی زبانی سنیے
میرا سفر:
جون 2019 میں، میں نے پاکستان میں آباد ہوتے ہی اپنی زندگی کے ایک نئے باب کا آغاز کیا۔ مجھے بہت کم معلوم تھا کہ یہ سفر گہرے چیلنجوں اور تبدیلی کے تجربات لیے ہوئے ہوگا میری آمد کے چند ماہ بعد ہی میں نے جانا کہ میری والدہ کینسر میں مبتلا ہیں۔ وہ تین ماہ بعد چل بسی۔ اس غم نے مجھے ڈپریشن میں ڈال دیا،
تاہم، غم کے درمیان، میں نے اپنے درد کو تعمیری چیز میں تبدیل کرنے کا ایک طریقہ تلاش کیا۔ میں نے اپنی توجہ سفر اور سیاحت کی طرف موڑ دی۔ میں نے پسماندہ بچوں کے لیے کیمپنگ پروگرام شروع کیے، جس کا مقصد انھیں ہائیکنگ، ایڈونچر کی مہارتیں اور آزادی سکھانا تھا۔ بدقسمتی سے، مجھے جلد ہی احساس ہوا کہ پاکستان میں معاشرتی ماحول اس طرح کے اقدامات کے لیے سازگار نہیں ہے۔ بہت سے والدین اپنے بچوں کو خطرات سے دوچار کرنے میں ہچکچاتے تھے، آزادی کو فروغ دینے کے بجائے انہیں پناہ میں رکھنے کو ترجیح دیتے تھے۔
محور کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے، اس کے ساتھ ساتھ میں نے اپنی آئی ٹی کمپنی، ڈیجیٹل نیکسس کو بھی بحال کرنا شروع کر دیا، جس کا انتظام میرے شوہر قطر میں کر رہے تھے۔ ایک ساتھ مل کر، ہم نے پاکستان میں کام کرنے کا فیصلہ کیا، تاکہ بچوں اور خواتین کو خاص طور پر آئی ٹی کے شعبے میں بھی تربیت دی جا سکے
میرے سفر نے ایک اور اہم موڑ لیا جب میں نے راولپنڈی ویمن چیمبر آف کامرس میں شمولیت اختیار کی۔ اس پلیٹ فارم نے مجھے خواتین کی صحت اور تعلیم کی وکالت کرنے کے انمول مواقع فراہم کیے ہیں، میں نے صرف ڈیڑھ سال میں صدر بننے سے پہلے سینئر نائب صدر کے طور پر خدمات انجام دیں – ایک چیلنجنگ لیکن فائدہ مند تجربہ۔
اپنے دور میں، میں نےصحت کے اقدامات اور تعلیمی مواقع کے ذریعے خواتین کو بااختیار بنانے پر توجہ دی۔ میرا پختہ یقین ہے کہ ایک صحت مند اور تعلیم یافتہ عورت اپنے خاندان اور معاشرے میں نمایاں کردار ادا کر سکتی ہے۔، آج، ہم پاکستان میں بین الاقوامی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے انتھک محنت کر رہے ہیں، جس کا مقصد معیشت کو مستحکم کرنا اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔ میرا مشن محض معاشی ترقی سے آگے بڑھتا ہے۔ میں خواتین کے لیے ایک محفوظ اور معاون ماحول کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہوں۔
میرا ماننا ہے کہ خواتین کو بااختیار بنانا تعلیم سےشروع ہوتا ہے تعلیم کے ساتھ ساتھ، ہمیں ایک پائیدار ،حفاظتی ماحول پیدا کرنا چاہیے۔
پاکستان میں ہمیں جن اہم چیلنجوں کا سامنا ہے ان میں سے ایک نئی ٹیکنالوجی کو اپنانے میں ہچکچاہٹ ہے۔ ایک غلط فہمی ہے کہ مصنوعی ذہانت سے ملازمتیں ختم ہو جائیں گی، لیکن سچ یہ ہے کہ AI ان لوگوں کے لیے نئے مواقع پیدا کرے گا جو تعلیم یافتہ اور موافقت پذیر ہیں۔ ہمیں ان پیش رفتوں کو سمجھنے اور ان سے ڈرنے کی بجائے اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے خود کو تعلیم دینی چاہیے۔۔ ایک ساتھ مل کر، ہم ایک ایسا مستقبل بنا سکتے ہیں
یہ تھی وہ باتیں جو انہوں نے اپنے بارے میں بتائیں اور جہاں تک کام کی بات ہے تو میں ان کا کام دیکھ ہی چکا ہوں
دیکھا آپ نے کہ کتنے لوگ اس سماج میں اچھا کام بھی کر رہے ہیں۔
جہاں میں دو نمبر لوگوں کو بے نقاب کرتا رہوں گا وہیں ساتھ ساتھ آپ کو کام والے لوگوں سے بھی ملواتا رہوں گا ۔
کیسا لگا ان کے بارے میں جان کر؟ میں نے ٹھیک کہا نا
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے