میرے دوست اشتیاق عباسی اور ظفر اقبال بیگ کے پیغام نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ وہ کہنے لگے کہ تم معاشرتی مسائل پر بھی لکھتے ہو اور پارٹی معاملات پر بھی، کئی کئی کالم تحریر کرتے ہو، اور مختلف اخبارات میں چھپتے ہو، مگر کیا تم نے کبھی اس بات پر توجہ دی کہ آج کی نوجوان نسل کس طرف جا رہی ہے؟
یہ حقیقت ہے کہ آج کے نوجوانوں کے ہاتھ میں موبائل ہے، جسے وہ سادہ الفاظ میں “ٹچ موبائل” کہتے ہیں، اور اس کے ساتھ ہی ان کی زندگی بدل چکی ہے۔ زیادہ تر نوجوان بے کار وقت گزار رہے ہیں۔ جو شخص فجر کے وقت اٹھنے کا عادی نہیں، اپنے کام کی تلاش میں نہیں نکلتا، اسے نہ نوکری ملتی ہے اور نہ رزق کے دروازے کھلتے ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ جو رات کو دن بنا لیتے ہیں، ان کے بجلی کے بل کیوں زیادہ آتے ہیں؟ ہر مہینے جب بل آتا ہے تو حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیا ہو گیا، لیکن اس کا احساس نہیں کہ نیند اور وقت کی بربادی کا نتیجہ یہی ہے۔
وہ لوگ جو فجر کی نماز پڑھتے ہیں، اللہ کے حضور جھکتے ہیں، ان کی صحت بھی اچھی رہتی ہے اور کاروبار بھی کامیاب ہوتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہندو سورج نکلنے پر گنگا میں کھڑا ہوتا ہے اور مسلمان مسجد کا رخ کرتے ہیں؟ 2012 میں جرمنی جانے کا اتفاق ہوا، وہاں عشاء کی نماز کے بعد شیرٹن ہوٹل، فرینکفرٹ سے باہر نکلنے کا ارادہ کیا تو ہوٹل کی ریسپشن پر موجود خاتون نے حیرانی سے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو؟ میں نے کہا شہر دیکھنے، تو اس نے جواب دیا کہ پورا شہر سو چکا ہے۔ باہر نکلا تو واقعی ہر طرف خاموشی تھی، چند ہوٹلوں کی مدھم روشنیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ مگر صبح ساڑھے چھ بجے دیکھا کہ پورا شہر جاگ چکا تھا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں؟
باپ اگر نماز پڑھ کر آئے تو اپنے بچوں کو جگانے کی بجائے ان سے چھپ کر باہر نکلتا ہے کہ کہیں وہ جاگ نہ جائیں۔ اللہ نے فرمایا ہے: “اپنے اہل خانہ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔” لوگ شاید کہیں کہ میں مولوی بن گیا ہوں، مگر حقیقت یہ ہے کہ میں اپنے نوجوانوں کو کچھ دے کر جانا چاہتا ہوں۔ ان سے آج یہی وعدہ لینا چاہتا ہوں کہ فجر کی نماز پڑھیں، اور اگر اس کے بعد ان کے مسائل حل نہ ہوں تو مجھے پکڑ لینا۔مجھے پتہ ہے اپ کے ذہن میں سوال ایا ہوگا کہ دنیا کے امیر ترین لوگ کیا فجر کی نماز پڑھتے ہیں میں اپ کو بتاتا ہوں دنیا کے امیر ترین لوگ اگر فجر کی نماز نہیں پڑھتے تو اپ کی طرح عادت دن سوئے بھی نہیں رہتے ہمارے ساتھ ایک انگریز کام کرتا تھا وہ صبح سویرے چھ سوا چھ بجے مجھے فون کرتا تو میں نے ایک دو دفعہ سوئے ہوئے لہجے میں اسے کچھ جواب دیا تو کہنے لگا مسٹر افتخار مجھے یہ خیال آیا تھا کہ اپ فجر کی نماز پڑھ کے افس کے لیے تیار ہو رہے ہوں گے تو میں نے اپ کو اس لیے کال کیا اور مجھے بڑی شرمندگی ہوئی کہ یہ دیکھیں کہ لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں گورا صبح سویرے اٹھتا ہے اور رات جلدی سو جاتا ہے کسی گورے کو آپ نو ساڑھے نو بجے کے بعد کال نہیں کر سکتے اور آپ اسے بے شک چھ ساڑھے چھ ۔صبح یہ کال کریں وہ اپ کو ملے گا لیاقت بلوچ نے مجھے ایک دفعہ بتایا تھا کہ جو عرب ہیں ان کو کوئی رات کے دو بجے کا کوئی اپ کو ٹائم دے یا ایک بجے کا ٹائم دے کہ ملاقات کریں وہ سچ ہوتا ہے لیکن کوئی کہے کہ اٹھ بجے میں ملوں گا تو وہ جھوٹ بولتا ہے یہ حال ہے اب عرب دنیا کا اور یہی حال ہمارے نوجوان نسل کا بھی ہو رہا ہے
پاکستان کے موجودہ حالات نے ہمیں یہ سکھا دیا ہے کہ ہمیں اپنی اصلاح کی ضرورت ہے۔ ہم ہمیشہ سیاست دانوں، فوجی حکمرانوں اور عالمی قوتوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں، مگر سچ یہ ہے کہ ہم نے خود بھی اپنی زندگیوں میں بے شمار کوتاہیاں کی ہیں۔ ہم وقت پر سونے اور وقت پر جاگنے کے سنہری اصول کو بھول چکے ہیں۔ ہم نے اپنی صبحوں کو راتوں میں بدل دیا ہے اور پھر حیران ہوتے ہیں کہ ہمارے رزق میں برکت کیوں نہیں، ہماری صحت کیوں خراب ہے، ہمارے کام کیوں رکتے ہیں۔
نماز صرف ایک عبادت نہیں، بلکہ ایک نظم و ضبط ہے، جو انسان کی شخصیت کو سنوار دیتا ہے۔ جو لوگ فجر پڑھ کر اپنے دن کا آغاز کرتے ہیں، وہ ہمیشہ دوسروں سے آگے ہوتے ہیں۔ نہ صرف ان کے جسم میں تازگی ہوتی ہے بلکہ ان کے کام میں بھی برکت ہوتی ہے۔ اللہ کا یہ نظام ہے کہ جو اس کے احکامات پر چلتا ہے، وہ کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔ اگر غیر مسلم وقت کی قدر کر کے ترقی کر سکتے ہیں، تو مسلمان کیوں نہیں کر سکتے؟
ہم نے اپنے نوجوانوں کو کہاں کھڑا کر دیا ہے؟ پہلے نوجوان کتابیں پڑھتے تھے، اب سکرین پر انگلیاں چلاتے ہیں۔ پہلے وہ میدانوں میں کھیلتے تھے، اب گیمز کی ورچوئل دنیا میں کھو گئے ہیں۔ پہلے…