پیر,  27 جنوری 2025ء
کیسا ہے یہ انداز سیاست؟

 باعث افتخار: انجینیئر افتخار چوہدری

پاکستان کی سیاست اس وقت ایک خطرناک موڑ پر کھڑی ہے جہاں سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی اور تشدد میں بدلنے کا رجحان عام ہو چکا ہے۔ چوہدری لطیف اکبر پر قاتلانہ حملہ، نعیم پنجوتھا کو اغوا اور تشدد کا نشانہ بنانا، اور ماضی میں انجینیئر افتخار چوہدری پر حملہ یہ سب واقعات نہ صرف سیاست کی پستی بلکہ جمہوری اقدار کی پامالی کی نشانیاں ہیں۔

چوہدری لطیف اکبر پر حالیہ حملہ آزاد کشمیر کی سیاست میں ایک ایسے بزدلانہ فعل کے طور پر سامنے آیا ہے جو جمہوریت اور آزادی کی روح کے خلاف ہے۔ آزاد کشمیر، جو ایک آزادی کا کیمپ سمجھا جاتا ہے، وہاں اس طرح کے واقعات ہونا مسلم لیگ نون کے کردار پر سوالیہ نشان ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ نون کی ایک رکن اسمبلی نے یہ بیان دیا کہ نعیم پنجوتھا کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہیے جو انتظار کے ساتھ ہوا تھا۔ یاد رہے کہ انتظار پنجوتھا کو اغوا کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ایسے بیانات مسلم لیگ نون کی قیادت کی جانب سے تشدد کی حمایت اور جمہوری روایات کو پامال کرنے کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔اس کے علاوہ ایک اٹھویں گریڈ کا افسر یہ کہہ رہا تھا کہ میری خواہش ہے کہ شہباز گل اور عمران ریاض کو ایسی سزا دوں کہ وہ ویل چیئر پہ موجود ہوں اور مجھے بڑی خوشی ہوگی۔ہم کس گلی جا رہے ہیں اپنا کوئی ٹھکانہ نہیں

پاکستان میں سیاسی اختلافات ہمیشہ موجود رہے ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں یہ اختلافات دشمنی میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ چوہدری لطیف اکبر پر قاتلانہ حملے نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ سیاست دانوں کو دبانے کے لیے تشدد کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف غیر جمہوری ہے بلکہ سیاسی نظام کے لیے بھی خطرناک ہے۔

مسلم لیگ نون، جو مرکز میں جمہوریت اور آئین کی بالادستی کی دعوے دار ہے، اس کے کارکنان اور رہنما آزاد کشمیر میں اپنے سیاسی مخالفین پر حملے کرتے ہیں۔ یہ دوہرا معیار اس جماعت کی حقیقی نیت کو بے نقاب کرتا ہے۔ازاد کشمیر ازادی کا ایک بیس کم ہے اس کے لیڈران پر حملہ کرنا قابل مذمت ہی نہیں قابل افسوس بھی ہے

آزاد کشمیر ہمیشہ سے امن اور بھائی چارے کی علامت رہا ہے، لیکن حالیہ واقعات نے اس خطے کو بھی تشدد کی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ چوہدری لطیف اکبر پر حملہ اور نعیم پنجوتھا کو تشدد کا نشانہ بنانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ آزاد کشمیر کی سیاست کو بھی ذاتی انتقام کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ نون کے کارکنان کے ان واقعات میں ملوث ہونے کی اطلاعات انتہائی افسوسناک ہیں۔

جمہوریت کا مطلب اختلاف رائے کو برداشت کرنا اور مسائل کا پرامن حل تلاش کرنا ہے، لیکن جب سیاست دان ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں یا تشدد کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، تو یہ جمہوریت کی روح کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ سیاست دانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ تشدد اور انتقام کا یہ راستہ کسی کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔

چوہدری لطیف اکبر پر حملہ ہو یا نعیم پنجوتھا کا معاملہ، یہ سب واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہمارے سیاسی نظام میں انصاف کی شدید کمی ہے۔ اگر ان واقعات کے ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں نہ لایا گیا تو یہ سلسلہ جاری رہے گا اور اس کے نتائج مزید خطرناک ہوں گے۔

میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ پاکستان کے حالات کو بہتر کرے اور ہماری قیادت کو عقل و شعور عطا کرے کہ وہ سیاسی اختلافات کو دشمنی میں بدلنے سے باز آئیں۔ یہ ملک جمہوریت کے لیے بنا تھا اور جمہوریت کے اصولوں پر چل کر ہی ترقی کر سکتا ہے۔

مسلم لیگ نون کو خاص طور پر اپنے رویے پر غور کرنا چاہیے اور اپنے کارکنان کو سمجھانا چاہیے کہ سیاسی مخالفین کے خلاف تشدد نہ صرف غیر قانونی بلکہ غیر اخلاقی بھی ہے۔ اگر آج ہم نے اس رویے کو نہ روکا تو کل کو یہی رویہ پوری قوم کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سیاست عوام کی خدمت کے لیے ہے، نہ کہ ذاتی دشمنیوں کو پروان چڑھانے کے لیے۔ وقت آ گیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنی پالیسیوں پر غور کریں اور تشدد کے اس سلسلے کو ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ چوہدری لطیف اکبر، نعیم پنجوتھا، اور دیگر متاثرین کو انصاف دلانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں تاکہ آئندہ کوئی بھی اس قسم کی بزدلانہ حرکت کرنے کی جرات نہ کرے۔

اللہ پاکستان کو امن، خوشحالی، اور ترقی عطا کرے۔ آمین۔

مزید پڑھیں: آزاد جموں و کشمیر کے اسپیکر کے قافلے پر حملہ، 2 افراد زخمی

مزید خبریں