سید شہریار احمد
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ
آ جاری نندیا تاروں کی نگری سے آجا
میرے منے کو آ کے سلا جا تاروں کی نگری سے آجا
مجھے یاد ہے وہ پہلی، میٹھی اور مدھر آواز جو میری سماعتوں سے ٹکرائی تھی میری ماں کی تھی جب وہ مجھے لوری سنایا کرتی تھی
آجاری نندیا میرے منے کو آ کے سلاجا
ماں میں جب آپ کی گود میں سر رکھ کر ،ایک ہاتھ کا انگوٹھا منہ میں ڈال کراور دوسرے ہاتھ کی انگلیوں سے آپ کے کالے گھنے بالوں سے کھیلتا تھا اور کبھی کان کی بالی کو نوچتا اور پھر ہنستا تھا تو آپ کے چہرے پر خوشی اور تکلیف کے ملے جلے جذبات ابھر آتے اور آپ میرا ماتھا چومتی تھی۔
آجاری نندیا میرے منے کو آ کے سلا جا
اپنے دائیں گھٹنے کو جس پرمیرا سر رکھا ہوتا آہستہ آہستہ ہلاتی اور بار بار یہ لوری سناتی تھی۔ میں تین یا غالبا چار سال کا ہوں گا مجھے اچھی طرح ہاتھ کی نرمی اور لمس یاد ہے جو آپ میرے سر اور ماتھے پر پھیر رہی تھی اور وقفے وقفے سے میرے چہرے پر پیار کررہی تھی
الہامی کتاب سے آپ نے ہمیں متعارف کرایا جب سمجھ نہ آنے والی آیات آپ ترنم سے پڑہتی اور روح میں رس گھولتی تھی تب پتہ چلا کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ اللہ سے آپ نے ہمیں متعارف کرایا اور اللہ سے پہلے آپ کا نام لیا
پھر آپ کے پیار میں وقت گزرنے لگا۔ میں سکول جانے لگا۔ زندگی میں تکلیف دہ تبدیلی آئی کہ ہر روز پانچ گھنٹے ماں سے دور رہنا پڑتا تھا ۔پھر اسکول سے گھر پہنچتے ہی سب سے پہلے آپ کی گردن میں بازو ڈال کر جھولنا اور آپ کا مجھے سینے سے لگا کر بھینچنا نہیں بھولتا۔ مجھے سکول کا سارا کام کروانا ،نہلانا اور مجھے کپڑے پہنانا، جوتے صاف کرنا اور کبھی بیمار ہو جاؤں تو میرا سر اپنی گود میں رکھ کر ساری رات جاگنا اور سینے سے لگا کر شفا دینا۔ مجھے سلانے سے پہلے خود کبھی نہ سونا ۔
میں شاعر نہیں ہوں ماں جی لیکن اگر شاعر ہوتا تو آپ کے لئےشاعری کرتا
ماں کے سینے میں کتنے دل ہیں؟ اپنے بیٹوں کے لیے الگ ،بیٹیوں کے لیے الگ دل۔ شوہر اور پھر پوتے پوتیوں کے لیے الگ۔ اپنے نواسے نواسیوں اور ان کے بچوں کے لیے علیحدہ دل یا پھر ایک ہی دل میں درجنوں خانے بنا رکھے ہیں سب کے لیے الگ الگ ، جہاں سب کے دکھ چھپائے بیٹھی ہو۔ اپنے دامن میں ہر کسی کی پریشانیاں سمیٹ کر مسکراتی رہتی ہو۔ سنا ہے ماں کو پیروں کی جنت کے بدلے کوئی اور آپشن دی جاتی تو وہ اپنی اولاد کی تقدیر لکھنے کا انتخاب کرتی
ماں تجھے سلام
مجھے افسوس ہے، رنج ہے، دکھ ہے تو اس بات کا کہ میں آپ کو آپ کی قربانیوں، آپ کی تربیت اور محبت کے احساس تشکر کے طورپر کچھ بھی نہیں دے سکا۔ میں ہی کیا کوئی بھی اپنی ماں کا احسان کیسے اتار سکتا ہے۔ میرے دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ میری عمر بھی تجھے لگ جائے ماں۔
بھائیوں نے آپ پر پہلے سے ہی اور جب بھی میں آپ کے پاس بیٹھنے آیا بھائی پہلے سے وہاں موجود ہوتے۔ پھر ایک تکلف ہوتا چلا گیا
کاش کبھی ایسا وقت آئے کہ پیڑھی پر بیٹھی اسی طرح روٹی پکا رہی ہو اور میں پہلی کلاس میں پڑھ رہا ہوں چھٹی کے بعد گھر آوں اور حسب عادت گردن سے جھول جاؤں اور مجھے بازو سے پکڑ کر کھینچ کر گود میں گرا لے اور پیار کرے
وہ خوشی میں کہاں سے لاؤں
( دوڑ پیچھے کی طرف ہے گردش ایام تو)
اب آپ ماشاءاللہ 78 برس کی ہو گئی ہومگر میری نظروں میں ابھی بھی ماں کا وہی تروتازہ مسکراتا اور جوان چہرہ ہے جو شبیہ پہلی بار میری آنکھوں میں سمائی تھی۔
مجھے آپ کے چہرے پر کہیں کوئی جھریاں نظر نہیں آتیں ۔مجھے آپ کا جوانی والا ہنستا مسکراتا چہرہ نظر آتا ہے
آپ میرے لیے ابھی بھی 78 برس کی جوان ماں ہو
لیکن میرے سامنے ماں کا ایک اور چہرہ بھی ہے جس میں اولاد کے لیے دکھ ہے، درد ہے اور جس کی پیار بھری آنکھیں انسوؤں کے پیچھے سے چمک رہی ہیں۔ ماں ایک فوری مرہم ہے۔ماں میں نے ہمیشہ آپ کے منہ سے دعا ہی سنی ہے جو دکھی دلوں کے لیے دوا کا کام کرتی ہے آپ نے ہمیشہ سب کو دعائیں ہی دی ہیں اور بے شک آپ کو اس کے علاوہ اور کوئی کام بھی تو نہیں آتا۔
ہم سب دعاؤں کے سہارے ہی چل رہے ہیں۔ آج تک ہم نے جو کمایا ہے وہ ایک پلڑے میں رکھ دیں تو دوسرے پلڑے میں دعاؤں کا وزن زیادہ ہوگا
میں ہمیشہ جاننا چاہتا ہوں کہ اب جب کہ آپ نے ساری زندگی خاندان کے لیے گزار دی آپ سکول میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ کیا شرارتیں کرتی ہوں گی۔ اپنی کسی خاص بے تکلف سہیلی کے ساتھ زندگی کے راز کیسے شیئر کیے ہوں گے؟ آپ نے بھی اور لڑکیوں کی طرح خواب دیکھے ہوں گے اور خاص طور پر اپنے ہونے والے مجازی خدا کے لیے خواب۔ میرے باپ سے شادی کر کے کیا وہ خواب پورے ہوئے؟ کبھی آپ نے اپنی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا اور اس کے علاوہ آپ کو کون سا کھانا پسند ہے؟ کس رنگ کے کپڑے اچھے لگتے ہیں؟ کہاں کی سیر کرنا پسند ہے کبھی تو کچھ بتا دو۔
آج میں آپ کا بیٹا آپ کے سامنے آپ کی گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر زمین پر بیٹھا ہوں اور دل کی گہرائیوں سے آپ سے اپنے پیار کا اظہار کرنا چاہتا ہوں اور بتانا چاہتا ہوں کہ اولاد بھی اپنے ماں باپ سے بے پناہ محبت کرتی ہے پر اظہار سے شرماتی ہے
آپ کو کیا بتاؤں کتنے سالوں تک راتوں کو اٹھ اٹھ کر آپ کو آپ کے کمرے میں جا کر دیکھتا رہا کہ آپ سانس لے رہی ہیں یا نہیں؟ بچپن میں سنا تھا کہ میری دادی سوتے میں اللہ کے پاس چلی گئی تھیں اور یہ بات ایسی دماغ میں بیٹھی کے سالوں تک اس خوف نے میری جان نکالے رکھی۔
اب بھی صبح جب آپ دیر سے بیدار ہوں تو چپکے سے دروازہ کھول کر دیکھ لیتا ہوں
ایک وہم دل میں بیٹھ گیا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سوتے میں کسی دن آپ کی آنکھ نہ کھلے۔ جس دن آپ کی سانس رکی تو میرا بھی دم گھٹ جاے گا
میں شرمندہ ہوں کہ پہلے میں آپ سے پیار کا اظہار نہ کر سکا۔
جی چاہتا ہے جیسے میں بچوں کو پیار کرتا ہوں اسی طرح آپ کا ماتھا چوموں، آپ کے بال بناؤں، آپ کے گال، آپ کے ہاتھ اور آپ کے پاؤں کو بوسا دوں۔ میں کسی دن سچ مچ اس طرح کر بیٹھوں گا۔
مجھے باقی زندگی گزارنے کے لیے اب ایمان کی اور نہ ہی معجزوں کی ضرورت ہے
مجھے آپکی ضرورت ہے ماں ۔
میں اللہ کی عبادت سینٹ جوزف کی طرح کروں گا اور آپ سے محبت رانجھے کی طرح
آپ کا شرمسار بیٹا