اتوار,  01 دسمبر 2024ء
شادی ایک سماجی رسم / اکثر رسمیں تباہ کن ہوتی ہیں

سید شہریار احمد
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ

کسی مرد کو پھانسی پر لٹکانے کے اور بھی آسان اور سہل طریقے ہو سکتے ہیں جس میں پل بھر میں انسان کی موت واقع ہو جائے
پھر یہ شادی کروا کر عمر بھر پل پل مارنے سے کیا حاصل ؟
میں جب بھی کسی شادی میں شرکت کرتا ہوں تو دلہا/دلہن کے ہنستے مسکراتے چہرے دیکھ کر ،چشم تصور سے ان کے آنے والے حالات دیکھ لیتا ہوں
اور پھر دل میں یہ گیت گاتا ہوں
دل میں چھپا کے پیار کا طوفان لے چلے
ہم آج اپنی موت کا سامان لے چلے
کیا شادی ایک فرسودہ رسم
ہے؟ میاں بیوی کے تعلقات ہمیشہ ہی اختلافات کا شکار کیوں رہے ہیں؟
خالق کائنات کے بنائے گئے تمام اصول/ کائناتی قوانین/ جنگلی اور آبی حیات/ طبعی قوانین غرض کے ہر تخلیق، خدا کے مقرر کردہ قواعد و ضوابط کے مطابق عمل پیرا ہے
بس صرف ایک نظام، ایک پلان، جو ہزاروں سالوں سے ناکامی کا منہ دیکھ رہا ہے اور جو اللہ کی منشا کے مطابق انجام پذیر نہ ہو سکا۔ بلکہ میں تو کہوں گا کہ جو صرف ایک پلان، پوری کائنات میں فیل ہوا وہ میاں بیوی کا رشتہ ہے۔
دنیا میں کوئی بھی ایسا شادی شدہ جوڑا پانا مشکل ہے جس میں لڑائی نہ ہوتی ہو
بلکہ لڑائی کی نوعیت زبانی کلامی سے بڑھ کر اکثر اوقات ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی ہے
اور بے شمار ایسے واقعات ہوتے ہیں جس میں بیوی اپنے خاوند کو مارتی ہے
یہ مار روحانی بھی ہو سکتی ہے نفسیاتی اور جسمانی بھی۔
۔ اس کی تاریخ بہت پرانی ہے چونکہ مرد نے لاکھوں سالوں سے عورت کو پست اور غلام بنائے رکھا ہے
اس لیے عورت، انتقام کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی
یہ سب کچھ وہ لاشعوری طور پر کرتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ صنف نازک کے ساتھ بہت مظالم ہوئے ہیں
کبھی اسے پیدا ہوتے ہی دفن کر دیا جاتا تھا۔ کبھی عورت کو اپنے شوہر کی موت پر اسی کے ساتھ چتا پر ستی کر دیا جاتا۔ کبھی عورت کو اس کے حقوق، اس کی آزادی ،اس کی خوشی سے محروم کیا جاتا رہا
یہ سب کچھ لاشعوری طور پر عورت کے ذہن میں گھر بناتا رہا
ان سب مظالم کا جو کہ لاکھوں سالوں سے عورتوں کے ساتھ ہوتے رہے ،بیوی ان کا ذمہ دار، صرف اپنے خاوند کو سمجھتی ہے اور اس سے انتقام لیتی ہے۔
میاں اور بیوی جو کہ بالکل علیحدہ رویوں، علیحدہ نفسیات کے حامل ہوتے ہیں جب شادی کے بندھن میں بندھتے ہیں تو ایک دوسرے کے حاکم بننے کی کوشش کرتے ہیں
اور کوئی دوسرا اس بات پر تیار نہیں ہوتا کہ وہ کسی کا محکوم بنے
کامیاب ازدواجی زندگی کے لیے تھوڑی سی فہم کی ضرورت ہے۔ چند ایک بنیادی سچائیوں کو تسلیم کرنا چاہیے ۔
جیسے کہ کوئی بھی شخص کسی دوسرے کے لیے پیدا نہیں ہوا
اور دوسری بات یہ کہ کوئی شخص بھی اپنے آپ کو آپ کی دلیلوں اور مثالوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہے
اور تیسری سچائی یہ ہے کہ آپ اپنی محبت کے خود مالک ہوتے ہیں ۔
آپ جتنا چاہیں کسی کو محبت دے سکتے ہیں لیکن آپ کسی کو مجبور نہیں کر سکتے کہ وہ بھی آپ سے محبت کرے
اگر ہم ان چند سچائیوں کو سمجھ لیں تو پھر ہم شادی شدہ ہو کر بھی مطمئن رہ سکتے ہیں۔
ایک دوسرے کو گنجائش فراہم کرتے ہوئے۔
ویسے درحقیقت شادی ایک فرسودہ رسم ہے اور میرے خیال میں رسموں کے مطابق جینا ہی درست نہیں ہے۔ ہر رسم تباہ کن ہوتی ہے اور خاص طور پر شادی تو کروڑہا لوگوں کی زندگیوں سے خوشی کے تمام امکانات معدوم کر چکی ہے ۔
آپ کسی بھی رشتے میں دراڑ ڈالیں تو یہ ممکن ہے کہ دو دوستوں میں ایک دوست دوسرے کو بیوقوف بناتا ہو، اسے یوز کرتا ہو، ایک دوست خوش ہو لیکن دوسرا اداس۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ باس اور ماتحت کی ریلیشن شپ میں باس ماتحت کو تنگ کرے اور انجوائے کرے جبکہ ماتحت ہر وقت کڑہتا رہے
لیکن شادی میں ایسا ممکن نہیں، میاں بیوی کے تعلقات میں یا تو دونوں خوش رہیں گے یا دونوں تکلیف میں۔
ایسا ممکن نہیں ہے کہ ان دونوں میں سے ایک فرد خوش / مطمئن رہے اور دوسرا اداس
یہ سب جانتے ہیں ہوئے بھی ان کے ریلیشن شپ کبھی ٹھیک نہیں ہوتی
تاہم عورت کو اس کی ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ صدیوں سے اس پر تشدد کیا جا رہا ہے۔ اسے مارا گیا، قتل کیا گیا، دفنایا گیا اور پھر جو اس کے قریب ترین مرد ہوتا ہے وہ شوہر ہوتا ہے۔ پھر وہ کسی نہ کسی بہانے اس کے لیے مشکل کھڑی کرتی رہتی ہے ۔
خواتین مجھے معاف کیجئے کہ میں ایسی باتیں کر رہا ہوں لیکن مردوں کے لیے اس جنم میں تو بچاو کا کوئی راستہ نہیں ہے
اب مجھے سمجھ میں آیا ہے کہ ہندوؤں نے اگلے جنموں کو کیوں ایجاد کیا ہے
لیکن ہم مسلمان تو اگلے جنم پر یقین نہیں رکھتے سوائے اس کے کہ روز محشر زندہ اٹھائے جائیں گے
البتہ ہم نے سن رکھا ہے کہ یہی بیویاں ہمیں جنت میں ملیں گی
تو میں تو خدا سے یہی دعا کروں گا کہ اے خداوند یہ بیوی اسی جنم میں کافی ہے۔ میری بیوی بہت عظیم ہے اسے اگلے جنم میں کوئی دوسرا بہتر شوہر دینا۔
مسلمان لوگ کہتے ہیں کہ رشتے آسمانوں پر بنتے ہیں ہندو کہتے ہیں کہ یہ بندھن سورگ میں بنے ہیں۔
شادی کوئی آسمانوں پر نہیں ہوتی، یہی زمینوں پر ہوتی ہے اور یہ ہمارے مکار مولویوں اور پنڈتوں کے ذریعے ہوتی ہے
آپ کو اسے سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے تو پھر آپ اسی طرح آزاد رہو گے جیسے شادی سے پہلے تھے۔
یہ شادیاں مصنوعی ہوتی ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں۔ کوئی عورت یا کوئی مرد ایک دوسرے کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ اب ہمارا ہنی مون کا موسم ختم ہو چکا ہے۔ بہار گزر چکی ہے۔ اب ہم ایک دوسرے سے ویسی محبت نہیں کرتےجیسی کہ پہلے کرتے تھے
لہذا یہ بندھن مصنوعی ہے۔ اسلام میں شادی کو ایک سماجی کنٹریکٹ کہا گیا ہے جبکہ کرسچن میرج ایکٹ میں شادی ایک ہولی کنٹریکٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عیسائیوں میں طلاقوں کا رجحان مسلمانوں کے مقابلےمیں بہت کم ہے
چونکہ ہم مسلمان اگلے جنم پر یقین نہیں رکھتے لہذا ہم لوگ اگلے جنم میں اچھی پتنی کی امید بھی نہیں لگا سکتے
کیا آپ نے کبھی ایسا سنا کہ کسی بیوی نے اپنے خاوند کی کسی کوالٹی/ ٹیلنٹ/ ہنر/ عادت کو سراہا ہو ؟
میں نے بہت بڑے بڑے فلاسفرز/ سپر سٹار/ شاعر/ سیاست دانوں کی زندگی کے بارے میں جانا بھی ہے اور پڑھا بھی ہے۔ کسی کی بیوی اپنے شوہر سے مطمئن نہیں ہے
ہاں تین ہزار سالہ تاریخ میں صرف ایک خاتون ایسی گزری ہے جس نے اپنے خاوند کو سراہا ہے ۔ان کی عزت کی ہے اور ان سے کہا ہے کہ آپ سچے ہیں
ایک صاحب اپنی بیگم کے پاس آئے اور انہیں کہا کہ مجھے کپکپی طاری ہو رہی ہے مجھے چادر دو۔ مجھ پہ فرشتہ نازل ہوا ہے اور اللہ نےمجھ وحی کی ہے مجھے اللہ نے اپنا رسول منتخب کیا ہے
اس خاتون نے کہا ہاں آپ سچ کہتے ہیں آپ اللہ کے رسول ہیں اور وہ تھیں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ
صرف ایک خاتون کی مثال ملتی ہے اس کے بعد آپ کو روے زمین پر کوئی ایسی مثال نہیں ملے گی جس میں عورت نے اپنے خاوند کی ستائش کی ہو
ہمیں شادی کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔ شادی کو ایک کھیل کے طور پر لیں۔ یہ کھیل ہی ہوتی ہے
جس طرح ہم بھارت اور پاکستان کرکٹ میچ کو جنگ سمجھتے ہیں اور جنگ کو کھیل سمجھتے ہیں،
ہمیں بھی اس رشتے کو ایسے ہی دیکھنا چاہیے کھیل کے طور پر
دنیا بھر کے فلاسفر/ اولیا کرام/ دانشور ایک اچھی اور خوشگوار شادی شدہ زندگی کے لیے تجاویز پیش کر چکے ہیں لیکن آج تک کوئی مثبت نتیجہ برامد نہیں ہوا

میں ضرور ایک خوشگوار ازواجی زندگی کا حل پیش کرتا اگر میرے پاس ہوتا تو

مزید خبریں