سید شہریار احمد
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ
1998 میں پاکستان نے جب ایٹمی دھماکے کیے تو اس وقت پی ٹی وی نے ایک بیانیہ دیا
ناقابل شکست فتح
اب میرے جیسا جاہل آدمی تو یہ سمجھتا ہے کہ فتح تو ناقابل شکست ہی ہوتی ہے۔
فتح تو فتح ہوتی ہے۔ شکست شکست ہوتی ہے۔ لیکن یہ بیانیہ دے دیا دینے والوں نے
کیونکہ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ہمارے حکومتی مشیران اور اعلی عہدوں پر بیٹھے ہوئے ان اداروں میں لوگ، کتنے دانہ اور فہیم ہیں
جنکی بات سمجھتے ہوئے ہمارے تو ذہن کند ہو جاتے ہیں
لہذا میں نے بھی پاکستانی کرکٹ ٹیم کی پے در پہ شکستوں کے بعد
ایک نیا جملہ تخلیق کیا ہے۔
ناقابل فتح شکست
آئیں ہاتھ اٹھائیں اور کرکٹ پر فاتحہ پڑھ کر اسے منوں مٹی تلے دفن کریں
شکست پہ شکست
شکست پہ شکست
شکست پہ شکست
لیکن کوئی بات نہیں ہم تو ورلڈ کپ میں ہارنے کی تیاریاں کر رہے ہیں
بنگلہ دیش سے دوسری لگاتار ذلت آمیز شکست کا مزہ چکھنے کے بعد
ہمیں سوچنا پڑے گا کہ ہم ماہانہ اربوں روپیہ جو پاکستانی کرکٹ ٹیم اور اس کی مینجمنٹ پر خرچ کرتے ہیں
وہ سکول بنانے /سوشل ورک /صحت/ انفراسٹرکچر کی بہتری اور دوسرے کھیلوں کے لیے استعمال کریں
ہم جب بھی میچ ہارتے ہیں کوئی پرانا/ بوسیدہ /ریٹائرڈ کرکٹر اٹھ کے بیان داغ دیتا ہے کہ یہ مینجمنٹ کا قصور ہے
مینجمنٹ کہہ دیتی ہے کہ کھلاڑیوں نے پرفارم نہیں کیا اور یہی سلسلہ چلتا رہے گا۔
1992 کا ورلڈ کپ جو اتفاقا ہمارے ہاتھ لگا، اتفاقا اس لیے کہا کہ ہم نے اپنی پرفارمنس سے نہیں جیتا
اتفاقا ہماری جھولی میں آ گرا یا قسمت کہہ لیں
اس کے بعد آپ نے ایک گیت پی ٹی وی پر لگاتار سنا ہوگا جو آج تک چلتا ہے
ہے جذبہ جنوں تو ہمت نہ ہار۔
اس کے بعد
تم جیتو یا ہارو سنو ہمیں تم سے پیار ہے
ہم ہیں پاکستانی ہم تو جیتیں گے ہاں جیتیں گے
آپ نے لفافہ صحافی کی اصطلاح تو سن رکھی ہوگی لفافہ لکھاری بھی ہمارے ملک میں وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں، جن سے آپ اس طرح کے موٹیویشنل گیت لکھوا لیتے ہیں
لیکن کبھی گیتوں سے بھی کسی قوم نے یا کسی کھیل نے یا کسی ملک نے ترقی کی ہے؟
ہمارا ملک صرف ملی نغموں/ قومی گیتوں/ جذبہ حب الوطنی کی نظموں سے ہی 76 سال سے چل رہا ہے۔
اور ہر شعبہ زندگی میں کارکردگی سفر
کبھی کسی ملک کی ٹیم نے گیت سن کر فتح حاصل کی ہے؟
کیا انڈیا کی ٹیم گانا سن کے جیتتی ہے؟
کیا آسٹریلیا کے بالرز ،ملی نغمے سن کر وکٹیں لیتے ہیں؟
یہ گیتوں اور نغموں والی نحوست صرف ہمارے ملک میں ہی پائی جاتی ہے
آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ ہماری ٹیم جب بیرون ملک کسی دورے پہ جاتی ہے تو مینجمنٹ اور کھلاڑی، اپنے میچوں کی ہار کا ملبہ، موسمی حالات پہ ڈال دیتے ہیں ۔
وہ کہتے ہیں کہ موسم کی ساتھ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہو رہی تھی
مجھے بتائیں، کبھی کسی ٹیم کی مینجمنٹ نے یا کھلاڑی نے خواہ وہ ویسٹ انڈیز سے ہو آسٹریلیا سے انگلینڈ سے یا بھارت سے، اس نے کبھی یہ سٹیٹمنٹ دیا ہے کہ ہم موسم کے ساتھ اپنے آپ کو وارم اپ کریں گے؟
کبھی کھلاڑیوں نے کسی ملک میں پچ پر بات کی ہے؟ ویسٹ انڈیز کی ٹیم ،جسے کالی آندھی کہا جاتا تھا، دنیا کے کسی بھی ملک میں جا کے انہی کی پچ پہ، انہی کے کھلاڑیوں کا بھرکس نکال دیتی تھی
آسٹریلیا کی ٹیم کسی بھی ملک میں جا کے، کسی بھی وکٹ پر، رنز کا ڈھیر لگا دیتی ہے۔
انڈیا کی ٹیم اپنے ملک میں اور بیرون ملک میں جا کر ہر فارمیٹ پر ٹرافی لے کر آتی ہے
اور ہمارا کپتان کہتا ہے ہم پنڈی کی پچ کو سمجھ نہ سکے
او جاہل آدمی اگر تم پچ
کو نہیں سمجھ سکتے تو پھر تم کس بات کے کپتان بن گئے ہو؟
اسی پیچ پہ بنگلہ دیش کے کھلاڑیوں نے تمہیں ناکوں چنے چبوا دیے
پھر دوسرے دن بیان آیا کہ ہم سمجھے تھے کہ پانچویں دن بارش ہوگی۔ ہم موسم کو پریڈکٹ نہیں کر سکے۔
اب یہ بالکل حکمرانوں والے عذر تلاش کرتے ہیں
ہماری کرکٹ ٹیم بھی ، جس طرح ہمارے حکمران گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں، بیانات دیتی ہے
اور سب سے بڑھ کر اللہ کو جو سب سے ناپسند چیز ہے وہ تکبر ہے
اور اللہ کی پسندیدہ عادت عاجزی ہے
آسٹریلیا کی ٹیم جو کہ کئی بار ورلڈ کپ جیت چکی ہے جب بھی آسٹریلیا کا پاکستان کے ساتھ میچ ہوگا تو وہ کہیں گے کہ پاکستان کی ٹیم کے ساتھ بڑا ٹف مقابلہ ہوگا
اپنی ٹرافی کو ڈیفینڈ کرتے ہوئے بھی وہ کبھی یہ نہیں کہیں گے کہ ہم جیتیں گے۔
انڈیا کا جبکہ جب بھی پاکستان کے ساتھ مقابلہ ہوا تو انہوں نے کبھی یہ نہ کہا کہ ہم جیتیں گے
پاکستان کی اتنی گھٹیا پرفارمنس کے باوجود بھی انڈیا کا کپتان جب پریس کانفرنس کرتا ہے تو ہمیشہ یہی کہتا ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی
لیکن جب ہماری ٹیم کا کپتان ،خواہ وہ کوئی بھی ہو، وہ یہی کہے گا کہ ہم جیتیں گے
ہم نے بڑی پریکٹس کی ہے۔ ہم دوسری ٹیم کو ہرا دیں گے۔
ان کا یہ تکبر انہیں کبھی قیامت تک جیتنے نہیں دیتا، لیکن انہیں کبھی نہیں پتہ، آج تک انہیں کسی نے نہیں بتایا کہ اس طرح کے تکبرانہ جملے نہیں بولنے چاہیے۔
دوسری ٹیمیں یہاں ریوڑیاں بیچنے کے لیے نہیں آئیں ۔
وہ بھی پریکٹس کر کے، ملک سے محبت کر کے، ملک کو جتانے کے لیے آتے ہیں اور وہ جیتتی ہیں
ان کے کھلاڑی پیسوں پر توجہ نہیں دیتے
ٹاپ کے کھلاڑی ہیں دنیا میں ،
کتنے کھلاڑی ہیں جو اشتہاری فلموں میں آتے ہیں؟
لیکن ہمارے سورما، شیمپو کا اشتہار ہو /گھی کا ہو/ ٹوتھ پیسٹ کا یا اچار کا، کوئی اشتہار نہیں چھوڑتے۔
ایک میچ میں کروڑوں روپیہ کسی پروڈکٹ کی پبلسٹی میں کما لیتے ہیں
بیٹ پہ سٹیکر/ کیپ پہ سٹیکر/ شرٹ پہ بے شمار کمپنیوں کے لوگوز /کروڑوں روپیہ ایک کھلاڑی کماتا ہے ایک میچ میں
اور پھر اشتہاروں میں بھی لاکھوں کروڑوں روپے کما لیتے ہیں۔
بابر اعظم/ شاہین آفریدی/ رضوان کی 45 لاکھ روپیہ پر منتھ تنخواہ ہے
جو پاکستان کرکٹ بورڈ ان کو دے رہا ہے۔ کرکٹ بورڈ کے حکام جو اربوں منتھلی اخراجات کر رہے ہیں تنخواہوں میں اور اپنے ملازمین کو بینیفٹس دینے میں، میری رائے ہے کہ کوئی قانون سازی کی جائے کہ کمپنیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ ہمارے حاضر سروس کھلاڑیوں کے اشتہار نہیں بنائیں گے
ریٹائرڈ کھلاڑیوں کے اشتہار بنا لیں
تاکہ یہ کھلاڑی اپنی گیم پر توجہ مرکوز کر سکیں اور سینٹرل کنٹریکٹ میں تبدیلی کی جائے
ان کی کارکردگی کی بنا پر ان کے پیسے لگائے جائیں۔
ورنہ یہ بڑے بے شرم کھلاڑی ہیں یہ اپنے ملک اور قوم کا بیڑا غرق کر دیتے ہیں
قوم اتنی جذباتی ہے، میں نے دیکھا ہے کہ لوگ اپنے ٹی وی سیٹ توڑ دیتے تھے میچ ہارنے پہ
جبکہ بھارت اور بنگلہ دیش میں جب ان کی ٹیمیں ہار کے آئیں اور قوم کو پتہ تھا کہ یہ لاپرواہی سے ہاری ہیں تو انہوں نے ان کے گھر بار جلا دیے
ان کے پتلے نذر آتش کر دیے۔ اس طرح ہمارے کھلاڑیوں کے گھر جلائے جاتے تو آج ہمیں اس طرح کی ذلت امیز شکستیں نہ دیکھنی پڑتیں ۔
میں نے تو برسوں پہلے کرکٹ دیکھنا/ سننا اور پوچھنا چھوڑ دیا تھا جب ہم جیتا ہوا میچ مخالف ٹیم کی جھولی میں ڈال دیتے تھے اور جب ہمارے بین الاقوامی سپر سٹارز میچ فکسنگ میں پاکستان اور انگلینڈ میں سزائیں بھگتنے لگے تھے۔
تم ہارو تو ہمیں تم سے کوئی پیار نہیں ہے
ہمیں تم سے نفرت ہو جاتی ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تم کیوں ہارہے ہو۔
آئیں ہاتھ اٹھائیں ہے اور کرکٹ کی وفات پر فاتحہ پڑھ کر
اسے منوں مٹی تلے دفن کر کریں
مزید پڑھیں: پاکستان کرکٹ ٹیم کو بنگلہ دیش سے شکست پر شاہد آفریدی پھٹ پڑے