اتوار,  01 دسمبر 2024ء
خوشیوں سے شعوری فرار/ رقیق القلب نسلیں

سید شہریار احمد
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ

آج میں رقص کروں گا کیونکہ ابھی میں زندہ ہوں

1400 سالوں سے ہماری پرورش،خوشی ،زندگی کی لذتوں اور چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کے خلاف ہوئی ہے۔

ہمیں رقص کرنے/ بانسری بجانے/ گانے سے اجتناب کا کہا گیا ہے۔ بلکہ اسے گناہ صغیرہ گردانہ گیا ہے
ہمیں کبھی کوئی سنت سادھو یہ نہیں کہے گا
کہ ہم اچھی بانسری بجاتے ہیں/ اچھا گاتے ہیں/ اچھا رقص کرتے ہیں
ہم لوگ ،کم سے کم پر مطمئن رہنے کے نسل در نسل عادی ہو چکے ہیں
خود کو دلاسے دیتے ہیں کہ غریبوں پر اللہ کی رحمت ہوتی ہے
اللہ مظلوموں کے ساتھ ہے۔
کسی کو خدا سے گلہ شکوہ کرنے ،مظلوم بننے کی ضرورت نہیں ہے
قناعت کو بے پناہ اہمیت دی گئی ہے
یہ تو افیم ہے تاکہ ہم عذابوں کے حصار میں بھی مطمئن اور شاداں رہیں
جبکہ جس ابتلا میں ہم غرق ہو رہے ہیں وہ بڑھتی جا رہی ہے
موزے تنگ نے کبھی کہا تھا کہ مذہب ایک افیون ہے جو اقوام کے ذہنوں کو کند کر دیتا ہے اور فہم و فراست اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم کر دیتا ہے۔
انسان زندگی کی خوشیوں کے احساس کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے
پرندے اس فن سے آگاہ ہیں اور جانور بھی اس حقیقت کو سمجھتے ہیں
صرف اور صرف انسان ہی وہ بد قسمت مخلوق ہے جو زندگی کے ساتھ مسلسل برسر بیکار ہے ۔
انسانیت پر ہزاروں برسوں سے مسلط، دنیا کے تمام دھرم، زندگی کے خلاف زہر اگلتے رہے ہیں
ان کی بنیاد ہی یہ ہے کہ انسان گنہگار پیدا ہوا ہے ۔
تمام معاشرے، تمام سماج، فرمانبرداری کے خواہاں ہیں۔ یہ غلامی کا اور روحانی قید کا دوسرا نام ہے
کیا آگہی گناہ ہے ؟
کیا جہالت نیکی ہے؟
ادیان عالم کا تقابلی جائزہ کریں تو ایک بات تو سب میں مشترک ملتی ہے کہ دنیا کے تمام دھرم، عیسائیت! ہندومت، جین مت، بدھ مت، سبھی یہی کہتے ہیں کہ تم عذاب میں ہو
تم ایک امتحان کے طور پر اس دنیا میں بھیجے گئے ہو۔
تم مصیبت زدہ ہو ،تمہیں ان سے نجات نہیں مل سکتی۔ کیونکہ یہ تمہارے پچھلے پاپوں کا نتیجہ ہے
تم جو کچھ پچھلے جنموں میں کرتے رہے ہو اسے مٹایا نہیں جا سکتا
اس لیے تمہیں ہر صورت یہ عذاب جھیلنا ہے۔

کسی زمانے میں ایک فلاسفرذینو ہوا کرتا تھا ۔زینو نہایت ذہین اور مدلل گفتگو کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا
اس کے لاکھوں پیروکار ہو چکے تھے
وہ انہیں بتاتا تھا کہ زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے اگر تمہارے پاس زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے تو پھر جینے کا بھی کوئی مقصد نہیں۔
اس کے ہزاروں پیروکار خودکشی کر چکے تھے۔
وہ انہیں اپنی جان، اپنے ہاتھوں سے لینے پر قائل کر دیتا تھا
جب اس کی عمر 90 برس کے قریب ہوئی تو کسی نے اس سے پوچھا کہ زینو آپ کے ہزاروں پیروکار ،خودکشی کر چکے لیکن آپ نے کبھی خودکشی کی کوشش نہیں کی
تو اس نے کہا، اب چونکہ فلاسفر بڑے چالاک اور مکار ہوتے ہیں تو اس نے کہا کہ میں دنیا کو دکھانا چاہتا ہوں کہ زندہ رہنا کتنی تکلیف دہ اور مایوس کن حالت کا نام ہے
اس وجہ سے میں نے خودکشی نہیں کی کہ تم لوگ مجھ سے سبق حاصل کرو۔

یہی کچھ تمام دھرموں کے پنڈتوں ،مولویوں !عالموں نے انسانیت کے ساتھ کیا ہے۔
ہم لوگوں پر فرض ہے کہ ہم عذاب اور اذیت کو سہتے چلے جائیں تاکہ مستقبل میں ہمیں انعام سے نوازا جائے

اسلام میں پچھلے جنم کے بارے میں تو کچھ نہیں البتہ زندگی سے اوازاری اور دوسری دنیا کی اہمیت کے حوالے سے بہت سی روایتیں ملتی ہیں
ہاں البتہ اولیاء کرام کے حوالے سے زندگی بھر یہی پڑھتے چلے آئے کہ دنیا مردار ہے ،انسان کتا ہے! دنیا کی کوئی اہمیت نہیں، اصل اہمیت آخرت کی زندگی کی ہے
یہ تو بہت ہی عجیب دلیل ہوئی اگر ہم زندگی میں کوئی غلط کام کرتے ہیں تو ہمیں اسی زندگی میں اس کی سزا ملنی چاہیے درحقیقت علت اور معلول ہمیشہ اکٹھے ہوتے ہیں

آپ ذرا اپنا ہاتھ آگ میں ڈالیں تو کیا آپ یہ سوچیں گے کہ اگلے جنم میں آپ کا ہاتھ جلے گا
نہیں، آپ کا ہاتھ اسی وقت جل جائے گا
ہر عمل کی اپنی سزا یا انعام ہوتا ہے
زندگیوں کا یہ فاصلہ ایک مکارانہ تصور ہے، جس کے لیے ہم سب کو جیون کو کم سے کم حالت میں قبول کرنے کے لیے ورغلایا گیا ہے
اور تمام مذاہب ہمیں زندگی کو ترک کر دینے کا درس دیتے ہیں تاکہ اگلے جہان میں ہمیں انعام و اکرام سے نوازا جائے
اگر وہ ایسا نہ کریں تو کوئی ان کی پرستش نہیں کرتا، کوئی ان کی تعریف نہیں کرتا،
اگر ہم محبت کریں تو اس کی تذلیل کی جاتی ہے۔ تمام مذاہب نے کہا ہے کہ محبت حیوانیت ہے ۔محبت کو حیوانیت قرار دینا غلط ہے۔ جانور تو جانتے ہی نہیں کہ محبت کیا ہے
اس وقت ہمیں بہت سی رکاوٹیں درپیش ہیں۔ ہم طویل عرصے سے ان روحانی ملاؤں کی قید میں ہیں۔
ہمیں بہت زیادہ غلط باتیں بتائی گئی ہیں کہ جینا ہمارے لیے سزا بن چکا ہے
لوگ پھر بھی جیے چلے جا رہے ہیں۔ اس کی وجہ ہے کہ پھر وہ کیا کریں؟
وہ اس لیے خود کشی نہیں کر پاتے کیونکہ اگر زندگی اتنی تکلیف دہ ہے تو پھر موت اس سے بہتر کس طرح ہو سکتی ہے؟
میں تو کہتا ہوں اگر تم زندگی کامل جینا چاہتے ہو تو کسی بھی منظم مذہب کا حصہ مت بنو
اور مردوں سے مغلوب نہ ہو۔ اپنی خواہش ،اپنی امنگوں کے مطابق زندگی گزارو۔ ہنسو/ گاؤ/ بنسری بجاؤ/ رقص کرو/ اپنے اندر اپنی روشنی پاؤ اور کسی خوف کے بغیر، کسی کی پرواہ کیے بغیر جیو
یہ ہماری زندگی ہے اور ہمیں حق ہے خوشیاں منانے کا
ہم نے مصیبتوں بھری زندگی نہیں گزارنی
ہم نے کیتھلک پادری نہیں بننا

مرنے کا مزہ تو ہر نفس نے چکھنا ہے ہمیں جینے کا مزہ بھی جھکنا چاہیے

تو پھر آج میں رقص کروں گا کیونکہ ابھی میں زندہ ہوں

مزید پڑھیں: بلوچستان پر حملے /اب گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جائے تو پیس دو

مزید خبریں