هفته,  14  ستمبر 2024ء
بلوچستان پر حملے /اب گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جائے تو پیس دو

سید شہریار احمد
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ

کبھی مجھے ناراض بلوچوں کی ،ریاست سے شکایات سے اتفاق رہا ہے
لیکن اب جو کام انہوں نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے شروع کر رکھا ہے
جس میں بھارت اور افغانستان کی پشت پناہی حاصل ہے
میں اس کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہوں اور اب مجھے ایسے عناصر سے کوئی ہمدردی نہیں جو اپنے مطالبات منوانے کے لیے معصوم لوگوں کے خون سے ہاتھ رنگیں

قانون کہتا ہے کہ سو گنہگار چھوٹ جائیں پر کسی ایک بے گناہ کو سزا نہیں ہونی چاہیے
سننے میں تو یہ بات بہت اچھی لگتی ہے
کہ ہم کسی معصوم کو بچا رہے ہیں
لیکن میں اسے بہت ہی کمزور اور نامعقول دلیل سمجھتا ہوں
کیونکہ ایک گنہگار جب چھوٹ جاتا ہے تو سماج میں گناہ و جرائم کا سلسلہ جاری رہتا ہے
اور وہ شخص ،معاشرے اور قانون نافذ کرنے والوں کے لیے ایک مستقل چیلنج اور درد سر بن رہتا ہے

آپ نے سنا ہوگا کہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے

تو میں کہوں گا کہ پس جانے دو
اب بلوچستان پر حملوں کے بعد
گیہوں کے ساتھ گھن کو بھی پس جانے دو
10 گنہگاروں کے ساتھ دو معصوم بھی سزاوار ٹھہریں تو ٹھہرنے دو
ہماری انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ،اکثر کسی خوف کے زیر اثر یا ڈیل کے نتیجے میں
انتہائی خطرناک مجرموں کو جیلوں اور ایجنسیوں کی تحویل سے آزاد کروا دیتے ہیں محض اپنے کسی سرکاری ملازم کی دہشت گردوں سے بازیابی کے بدلے میں،
جس کے بعد بہت بھیانک نتائج بھگتنے پڑتے ہیں
یہ دہشت گرد رہا ہو کر، پاکستانی عوام اور املاک کو شدت پسندانہ سرگرمیوں سے ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں
ان دہشت گردوں کو مہلت دینے اور پرامن شہری بننے کا موقع دینے کا رد عمل
ہم نے دیکھ لیا بلوچستان میں
جہاں 24 گھنٹوں میں مختلف حملوں میں 40 بے گناہ معصوم شہری قتل کر دیے گئے
17 ٹرک
2 مسافر وین
4پک اپ گاڑیاں جلا دی گئیں۔
قلات میں جھڑپوں میں پانچ اہلکاروں سمیت 11 شہید ہوئے
پسنی ،سنتسر !کھڈکوشہ میں ،تھانوں پر حملے کیے گئے۔
گاڑیاں اور ریکارڈ جلا دیے گئے
نوشکی میں ایف سی ہیڈ کوارٹر کے قریب راکٹ حملہ ہوا
فائرنگ کی گئی
بے شمار راہگیر زخمی ہوئے۔

بولان سے چھ لاشیں برامد ہوئیں
ریلوے پل تباہ کر دیا گیا۔
جس پر قانون نافذ کرنے والے ادارے، ان دہشت گردوں سے برسر بیکار ہوئے

21 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا
جبکہ 14 اہلکار شہید ہو گئے۔

21 دہشت گردوں کی موت کے بدلے 14 فوجیوں کی شہادت

یہ بہت گھاٹے کا سودا ہے۔

ہمارے ایک فوجی کی زندگی کی قیمت
ایک ہزار دہشت گردوں کے سروں سے زیادہ ہے۔
صرف ایک فوجی کی تربیت پر اور اسے ملکی سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری دینے اور اپنی جان اپنی سرزمین پر قربان کرنے پر، ریاست کی کتنے وسائل اور توانائیاں خرچ ہوتی ہیں یہ وہی جانتی ہے
کتنے سال انہیں ٹریننگ دے کر مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے
پھر ہمارے لیے ایسے جانثار نوجوان تیار ہوتے ہیں

مجھے اپنے ان 40 معصوم شہریوں کی ہلاکت کے ساتھ ساتھ
اپنے ان 14 فوجیوں کی شہادت پر دلی رنج و غم ہوا ہے
اور میں یہ روایتا نہیں بول رہا
حقیقتا دل سے بہت دکھی ہوا ہوں اس واقعے سے،
اور ان دہشت گردوں اور ان کی سہولت کاروں کے خلاف، خواہ وہ ملک سے یا بیرون ملک سے آپریٹ کر رہے ہوں میری نفرت ہر پاکستانی کی طرح اپنے منطقی مقام تک پہنچ چکی ہے

میں اپنی افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے اس دہشت گردی کے خلاف اپنی مکمل حمایت کا اعادہ کرتا ہوں
اور اپنی خدمات ان اداروں کو
اپنے ملک کی سلامتی کے لیے اپنی جان کی قربانی دینے کو تیار ہوں
اب وقت آگیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے
اور جو اعتماد میں نہ آئیں انہیں ان دہشت گردوں کا سہولت کار تصور کیا جائے

اور ایسے عناصر کے خلاف وسیع پیمانے پر آپریشن جاری رکھا جائے

میرے بس میں ہوتا تو میں ایک بم بن کر ان دہشت گردوں میں جا کر پھٹ جاتا

مزید پڑھیں: بختاور بھٹو زرداری کی کارساز ٹریفک حادثے کی ملزمہ کو سزا دینے کی اپیل

مزید خبریں

FOLLOW US

Copyright © 2024 Roshan Pakistan News