هفته,  19 اپریل 2025ء
کامیابی کے سارے باپ/ ناکامی کا کوئی وارث نہیں

سید شہریار احمد
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ

کامیابی کے سارے باپ/ ناکامی کا کوئی وارث نہیں

میں وزیراعظم سے اپیل کرتا ہوں کہ ایک انکوائری کمیٹی بنائی جائے
جو یہ پتہ کرے کہ پیرس اولمپکس میں 27 آفیشلز اور سیاحوں کے ساتھ
یہ کھلاڑی ارشد ندیم کیسے پہنچ گیا؟

یہ صرف ارشد ندیم ہی نہیں جس کے پاس ابھی چند ماہ پہلے تک پریکٹس کرنے کے لیے مناسب بوٹ تک نہیں تھے.

جس کے پاس کئی گھنٹوں کی ریاضت کرنے کے بعد، اپنی جسمانی نشونما کے لیے اور توانائی حاصل کرنے کے لیے کھانے کو کچھ نہ تھا
جس کے پاس نہ کوئی مناسب سہولیات تھی نا حکومتی یا کسی ادارے کی سرپرستی
اور نہ ہی کوئی ایسا میدان جہاں پہ وہ جم کر پریکٹس کر سکتا
یہ صرف ایک ارشد ندیم ہی نہیں ہے
ایسی سینکڑوں مثالیں دنیا میں موجود ہیں
عظیم باکسرز جن کے پاس پہننے کو جوتے نہ تھے پھر وہ مائک ٹائسن بن گئے
عظیم باکسر محمد علی بن گئے
عظیم کھلاڑی ہر فیلڈ میں ہمیں ملتے ہیں جنہوں نے نہایت غربت میں بھی اپنی جدوجہد جاری رکھی
اور پھر اپنے ملک اور قوم کا نام روشن کیا

لیکن اس وقت ارشد ندیم کی کامیابی کے باپ بننے والے سینکڑوں منتظر ہیں
جو اس کا کریڈٹ لیں گے

آج ارشد ندیم پر کروڑوں روپے کی بارش ہو رہی ہے۔
اگر یہی ارشد ندیم دوسرے نمبر پر آتا ہے تو شاید کوئی اسے منہ نہ لگاتا
کوئی اس پر توجہ نہ دیتا۔

ارشد ندیم کی پرانی ویڈیوز دیکھیں
کئی بار اس نے اپیل کی کہ اسے سہولیات دے دی جائیں تو وہ اپنے ملک کا نام روشن کر سکتا ہے
لیکن کسی نے اس کو کچھ نہ دیا
نہ کسی نے اس کی بات سنی

آج جب وہ اکلوتا اپنے دم پر اور خدا کی نصرت سے فتح حاصل کر چکا ہے
تو یہ اس کی عظمت ہے کہ اس نے اپنی کامیابی کا سہرا اپنی قوم کی دعاؤں کے سر باندھا ہے

اگر میں اس کی جگہ ہوتا تو ایسے حکام/ ایسی کابینہ/ ایسے وزیراعظم/ ایسے اداروں اور ایسی عوام کو کبھی بھی اپنی کامیابی منسوب نہ کرتا ہے
کیونکہ جو سلوک انہوں نے ارشد ندیم کے ساتھ کیا وہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا
اور آج وزیراعلی مریم نواز اعلان کرتی ہیں کہ میاں چنوں میں سپورٹس سٹی بنایا جائے گا
سپورٹ سٹی بنتے ہوئے ان کی حکومت ہی ختم ہو جائے گی
لیکن یہ لوگ پھر بھی کریڈٹ لے لیں گے

آج سب لوگ ارشد ندیم کے لیے کروڑوں روپے کے انعامات کے اعلانات کر رہے ہیں
اچھی بات ہے
میں خوش ہوں
ارشد ندیم کو 19 گریڈ میں لیسکو میں جاب بھی دے دی گئی ہے
اچھی بات ہے
میں پھر خوش ہوں

لیکن ایک خطرہ منڈلا رہا ہے کہ شاید اتنی عزت ،اتنے انعامات کی بارش کے بعد، شاید ارشد ندیم اگلے ٹائٹلز نہ جیت سکے
کیونکہ اس کو اتنا کچھ مل گیا ہے اور یہ ممکن ہے وہ آئندہ اس طرح دل لگا کر محنت نہ کر سکے
کیونکہ جب انسان کے پاس کچھ نہیں ہوتا /انسان بھوکا ہوتا ہے /ننگے پاؤں ہوتا ہے/ تو پھر وہ اپنی جان لڑا دیتا ہے اپنی کامیابی حاصل کرنے کے لیے
اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے
لیکن جب آپ کسی انسان کو اتنا کچھ دے دیں کہ اس کی آئندہ نسلوں کے کام آ سکے تو پھر انسان کا سست ہو جانا لازم ہے
لیکن میری دعا ہے کہ یہ ہیرو ہمیشہ محنت کرتا رہے ایسے ہی
اور پاکستان کا نام روشن کرتا رہے

اتنے مشکل حالات میں/ معاشی /سماجی اور سیاسی تنزلی میں
جب قوم غم سے نیم مردہ ہوا چاہتی تھی
آپ نے اس قوم میں ایک نئی روح پھونک دی ہے

آپ کی کامیابی پر میں، جو ایک سخت گیر اور سنگدل انسان، اپنے آپ کو تصور کرتا ہوں آبدیدہ ہو گیا
ایک بار نہیں
کئی بار آبدیدہ ہوا

ان لوگوں سے جنہوں نے ہمارے بین الاقوامی ہیرو کے لیے فلیٹ، نوکری یا پیسوں کے انعامات دینے کا وعدہ کیا ہے درخواست ہے کہ وہ بغیر ارشد ندیم کی اپیل کے اس کو دے دیں
تاکہ اس کو بھی ہمارے اور بہت سے قومی ہیروز کی طرح
جنہوں نے بین الاقوامی طور پر پاکستان کا سر فخر سے بلند کیا
غلہ منڈی میں مزدوری نہ کرنا پڑے
اور اپنے میڈلز نہ بیچنا پڑیں

ہمارے ملک کی تو یہی ریت ہے
ہیروز کو چند دنوں میں ہی بھلا دیا جاتا ہے
ہمارے ملک کے ہر ضلع /قصبے اور گاؤں میں ارشد ندیم جیسے کھلاڑی موجود ہوں گے
یہ جو کھیلوں کی وزارت اربوں روپیہ سالانہ کھا جاتی ہے
اور جن کھیلوں پر جیسے کرکٹ ہے، اربوں روپیہ ماہانہ خرچ کر دیا جاتا ہے
اور ان سے نتیجہ صفر

ایسے لوگ جو ایتھلیٹک فیڈریشن کے 20/ 20 سال تک صدر اور چیئرمین کے عہدوں پر فائض رہے
فوج سے آئے ہوئے/ بیوروکریسی سے آئے ہوئے
ان 20/ 20 سالوں میں پاکستان
کوئی ایک کانسی کا تمغہ بھی نہ جیت سکا
تو اب قوم کو مل کر یہ بھی جدوجہد کرنی چاہیے کہ ان جرنیلوں سے بیوروکریٹوں سے ان اداروں کو پاک کر دیا جائے
اور مخلص کھلاڑیوں کو جنہوں نے ملک کا نام روشن کیا ہے ان اداروں کا/ ایتھلیٹکس فیڈریشنز کا صدر بنایا جائے
اور یہ اربوں روپیہ جو افسران ماہانہ کھیلوں کی سہولیات اور ترقی کے نام پر کھا جاتے ہیں اور ان کھلاڑیوں کو دو گلاس دودھ تک نہیں ملتا کسی بھی امپورٹنٹ ایونٹ میں،
یہ پیسہ اب انہی دیہات قصبوں اور گاؤں میں لگایا جائے جہاں پر ارشد ندیم جیسے ہونہار/ ٹیلنٹڈ لوگ موجود ہوں
یا پھر قریہ قریہ شہر شہر سے ٹیلنٹڈ لوگوں کو ،بچوں کو، اکٹھا کر کے! انہیں ایک کمپلیکس میں پورے سال تربیت دی جائے
اور ان پر وہ پیسہ خرچ کیا جائے جو یہ اعلی حکام آرام دہ کرسیوں اور ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر ،چائے کا کپ پیتے ہوئے اڑا جاتے ہیں۔

میں آخر میں وزیراعظم شہباز شریف سے پھر پرزور اپیل کروں گا
کہ ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی جائے
جس میں یہ پتہ لگانا مقصود ہو
کہ پیرس اولمپکس میں 27 آفیشلز اور سیاحوں کے ساتھ، جو سیر تفریح کرنے گئے
یہ کھلاڑی ارشد ندیم کیسے پہنچ گیا؟

مزید پڑھیں:تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال کا نام تبدیل کر کے ٹی ایچ کیو ارشد ندیم ہسپتال رکھ دیا گیا

مزید خبریں