هفته,  19 اپریل 2025ء
“دو ٹکے کی لڑکی سے ہنی ٹرپ تک”

شہریاریاں۔۔ شہریار خان

ڈرامہ”میرے پاس تم ہو” کی کامیابی کے بعد خلیل الرحمن قمر ایسے مشہور ہوئے جیسے کوئی لیک وڈیو ہوا کرتی ہے۔ ہر کرنٹ افئیرز شو میں بھی ان کی انٹری ہوئی۔۔ وہاں وہ بہت “خوش اخلاقی” سے اینکر اور مہمانان سے گفتگو کیا کرتے اور اس گفتگو نے انہیں مزید مشہور کر دیا۔۔

ایک تو ڈرامہ میں ان کا لکھا گیا ڈائیلاگ ‘دو ٹکے کی لڑکی’ بہت مشہور ہوا، چند یار دوستوں کو اس ڈائیلاگ پہ اعتراض ہوا تو انہیں مزید پروگراموں میں بلایا جانے لگا۔۔ جہاں ایک پروگرام میں ان کا سامنا عورت مارچ والی ماروی سرمد سے ہوا۔

جب ماروی سرمد نے اپنی تنظیم کا نعرہ میرا جسم میری مرضی کا لگایا تو خلیل الرحمن قمر نے نیا ڈائیلاگ دیا کہ کوئی تمہارے جسم پہ تھوکتا بھی نہیں۔۔ اس بات پر انہیں سوشل میڈیا پر بہت تنقید کا نشانہ بنایا گیا مگر وہ بھی کپتان کی طرح ڈٹ کے کھڑا رہا اور اپنے ڈائیلاگ اور اپنی سوچ کا دفاع بھرپور انداز میں کیا۔

وقت کا پہیہ گھومتا رہا۔۔ یہ مختلف افراد کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کرتے رہے۔۔ نعمان اعجاز جیسے بہترین اداکار کے خلاف بھی انہوں نے بے شمار باتیں کیں۔۔ سب چلتا رہا مگر چند روز قبل ایک ٹی وی پروگرام میں یہ ساحل عدیم نامی ایک اور “پڑھے لکھے” شخص کے ساتھ بیٹھے اور وہاں سے ایک مرتبہ پھر سوشل میڈیا میں نام کمایا۔

ابھی چند روز ہی مزید گزرے تھے کہ پھر سے وہ خبروں کی زینت بنے جب انہوں نے ایک خاتون اور اس کے ساتھیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی۔۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایک اجنبی خاتون ایک اجنبی نمبر سے انہیں کال کیے جا رہی تھی۔ وہ پہلے فون نہیں اٹھا رہے تھے مگر پھر انہوں نے بات کی۔

اس خاتون نے معصوم سے رائٹر خلیل الرحمان قمر کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے ورغلا کر اپنے گھر بلایا۔۔ لالچ اس نے یہ دیا کہ وہ خلیل الرحمن قمر کے ساتھ مل کر ڈرامہ بنانا چاہتی ہے۔۔ حالانکہ وہاں پہنچنے پر اس نے ڈرامہ انکل خلیل کے ساتھ کر دیا۔

اس چالاک خاتون نے اپنے شکنجے میں پھنسانے کے بعد خلیل الرحمن قمر سے موبائل فون کے ساتھ ساتھ لاکھوں روپے نقدی بھی نکلوا لی۔ اب یہ سمجھ نہیں آیا کہ اتنا اچھا ڈرامہ نگار ایف آئی آر کیوں اچھی نہیں لکھ پایا اور جس نے بھی ایف آئی آر پڑھی اس نے قمر استاد پر لخ لخ مبارکباد ہی بھیجی۔۔

جب انہوں نے پریس کانفرنس کی تو ان سے کئی لوگوں نے پوچھا کہ آپ اتنی رات گئے ایک اجنبی خاتون کے پاس کیوں گئے؟۔ خلیل الرحمن قمر کا ڈائیلاگ تھا کہ انہیں ڈاکٹر نے پانچ سال تک دھوپ میں نکلنے سے منع کر رکھا ہے۔

حالانکہ جب وہ یہ پریس کانفرنس فرما رہے تھے اس وقت لاہور میں تیز دھوپ تھی اور وہ اسی تپتی دھوپ میں پولیس افسران کے ساتھ آئے تھے جبکہ وہ یہ والی پریس کانفرنس بھی رات بارہ بجے کے بعد بھی بلوا سکتے تھے۔۔

انہوں نے مزید سوالات کے جواب میں بتایا کہ وہ خاتون انہیں بہت دیر تک بلاتی رہی مگر وہ اسے ٹالتے رہے مگر پھر پو پھٹنے کے بعد وہ اسے ملنے کے لیے چلے ہی گئے۔۔ اب کوئی پوچھے کہ جب سورج نکل رہا تھا تو آپ بھی اپنے کمرے سے نکل گئے جبکہ اس وقت تک تو آپ کو ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق واپس آ جانا چاہئے تھا مگر آپ اس وقت گھر سے نکل رہے تھے۔

بہرحال ان کی ایف آئی آر کا ہر ڈائیلاگ بہت پھسپھسا ثابت ہوا۔۔ اگر انہیں پنچ لائن نہیں مل رہی تھی تو وہ ایف آئی آر لکھوانے کے لیے ‘بلبلے’ کے رائٹر علی عمران سے مدد لے لیتے، اگر وہ طویل ایف آئی آر لکھوانا چاہتے تو عشقیہ سطور پر مبنی یہ ایف آئی آر انہیں مستنصر حسین تارڑ لکھ کر دے سکتے تھے۔

اگر جاسوسی سٹائل کی کہانی وہ لکھوانا چاہتے تو مظہر کلیم ایم اے تو اب فوت ہو چکے مگر اس قسم کی کئی کہانیاں وہ عمران سیریز کے کسی پرانے ناول سے لے سکتے تھے۔ پھر بھی انہوں نے اچھی کوشش کی مگر کہانی میں بہت جھول تھے۔

اب بات صرف ایف آئی آر تک ہی رہتی تو شاید بچت ہو جاتی مگر لعنت ہو۔۔ اس “ہنی ٹریپ” والی خاتون اور اس کے ساتھیوں پر۔۔ انہوں نے اس ملاقات کی “ٹیلی فلم” بھی بنا رکھی تھی۔۔ تھوڑی سی لیک ہوئی تو خلیل الرحمن قمر کی مزید وضاحتیں سامنے آنا شروع ہو گئیں۔۔

کہنے لگے وہ فلم دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس تمام کارروائی میں میری مرضی نہیں تھی۔۔ مجھ سے سب کچھ گن پوائنٹ پر کروایا گیا۔۔ ہائے میرے خدا۔۔ کیا دور آ گیا ہے، کبھی یہ کام مرد کیا کرتے تھے اب خواتین یہ کر رہی ہیں۔ بے چارہ اغوا کاروں سے یہ بھی نہیں کہہ سکا کہ “میرا جسم میری مرضی”۔۔

مگر جناب خلیل الرحمن قمر کی بے شک کہانی میں جھول ہو، ان کے ڈائیلاگ ڈھیلے ہوں مگر ان کی “اداکاری” کمال کی تھی اور پوری فلم میں کہیں بھی یوں محسوس نہیں ہوا جیسے ان سے زبردستی یہ کام کروایا جا رہا ہو۔۔ اس لاجواب ایکٹنگ پر انہیں آسکر کے لیے نامزد کیا جا سکتا ہے ورنہ یہ ہنی ٹریپ نامی فلم فرانس کے کینز میلے میں ضرور ایوارڈ لے سکتی ہے۔

بس اس معاملہ میں خلیل الرحمن قمر کو شاید شرمین عبید چنائے سے مدد لینا پڑے مگر خواتین سے ان کے تعلقات کشیدہ ہونے کے باعث یہ ممکن نہیں اس لیے خلیل الرحمن قمر اس میدان میں اسی طرح اپنی اداکاری کے جوہر دکھاتے رہیں تو شاید انہیں ہالی وڈ سے کوئی آفر آ جائے کیونکہ ایسی آواز بند کر کے دیکھنے والی فلمیں وہیں بنتی ہیں۔

مزید پڑھیں: خلیل الرحمٰن قمر کو ہنی ٹریپ کرنے والا ماسٹر مائنڈگرفتار

مزید خبریں