اتوار,  06 اکتوبر 2024ء
سیاسی نعرے۔۔۔!!

شہریاریاں۔۔۔ تحریر: شہریار خان

سیاست بڑی ظالم شے ہے۔۔ اس میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا۔۔ اس کے سینے میں دل بھی نہیں ہوتا۔۔ کچھ بھی کہہ دیں وہ سیاسی بیان ہوتا ہے اور اس پر یقین کر لینے والا اپنے ایسے کسی بھی عمل کا خود ذمہ دار ہو گا۔۔ سیاسی نعرے ہیں ان کو وعدے نہیں سمجھنا چاہیئے۔

سب سے پرانی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے سیاسی نعرے روٹی، کپڑا اور مکان کو عملی جامہ پہنایا گیا ہوتا تو آج اس ارض پاک میں کوئی بھی شہری کبھی بھی بھوکا نہ رہتا، کوئی بھی پاکستانی بے گھر نہ ہوتا اور اور پاکستان میں بسنے والا کوئی ایک بھی شخص تن ڈھانپنے کے لیے ڈھنگ کا کپڑا لینے کے لیے نہ ترستا۔
اب یہ نہیں کہ پیپلز پارٹی نے عوام کے لیے کبھی کچھ نہیں کیا۔۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے بڑے کارناموں میں پاکستان سٹیل ملز ہے، پیپلز پارٹی نے ہی پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کیا۔۔ مزدوروں کے لیے قواعد بنائے، ایسے بہت سے اچھے اقدامات ہیں جن کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔

آج بھی جب سکولوں، ہسپتالوں اور صنعتوں کی بدمعاشی دیکھتے ہیں تو ذوالفقار علی بھٹو کی نیشنلائزیشن کی پالیسی دوبارہ نافذ کرنے کا دل چاہتا ہے۔ دل کرتا ہے کہ جن ہسپتالوں اور سکولوں کو سرکاری اراضی کوڑیوں کے دام دی گئی ہے ان سے وہ جگہ واپس لے لی جائے اور انہیں بھی قومیا لیا جائے مگر پھر سرکاری سکولوں اور ہسپتالوں کی حالت دیکھ کر توبہ کر لیتا ہوں۔

پیپلز پارٹی کے عظیم لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹنے والے جنرل ضیا کو دیکھیں، انہوں نے جب اقتدار سنبھالا تو نعرہ کیا تھا؟ اسلام۔۔ مگر کیا انہوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کچھ ایسا کیا کہ اسے اسلامی کہا جا سکے؟۔ نہیں۔۔ عالمگیر کے گانے “دیکھا نہ تھا کبھی ہم نے یہ سماں۔۔۔ ایسا نشہ تیرے پیار نے کیا”میں سے نشہ نکال کر ایسا جادو تیرے پیار نے کیا کر دینے سے انہوں نے سمجھ لیا کہ ملک سے نشہ کی لعنت ختم ہو گئی ہے مگر حقیقت میں ان کے دور میں سب سے زیادہ نشے نے فروغ پایا۔
ضیا کے جانے کے بعد جب روشنی ہوئی تو پھر پیپلز پارٹی کی حکومت آئی مگر عوام کو روٹی ملی، کپڑا ملا نہ ہی مکان۔۔ یہ نعرہ بھی وہیں رہا۔۔ پھر مسلم لیگ ن آئی تو انہوں نے بھی عوام کو خوشحال کر دینے کے دعوے کیے گئے مگر عوام تو خوشحال نہ ہو سکے مگر ہر پیدا ہونے والے بچے کے قرض میں ضرور اضافہ ہوتا رہا۔
یہاں موٹر ویز بنیں، میٹرو چلے یا اورنج ٹرین۔۔ سب اچھے منصوبے ہیں مگر ان سب منصوبوں کے بعدعوام پر چڑھنے والے قرض میں اضافہ ہوتا گیا۔ دوسری جانب مہنگائی ہے کہ عمر کی رفتار سے بھی تیزدوڑتی چلی جا رہی ہے۔ تنخواہیں ہیں کہ تیس سال پیچھے چلی گئی ہیں مگر قیمتیں ہیں جو بیس سال آگے نکل گئی ہیں۔۔ پچاس سال کے اس خلا کو دور کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

آج کل بجلی، گیس کے بل کی ادائیگی تو ایک طرف، سبزی اور دال خریدنا بھی محال ہو چکا ہے۔۔ یہاں اچھے وقتوں میں جو ٹماٹر مہنگے ہو کر ساٹھ ستر روپے کلو ہوا کرتے تھے آج کل سو روپے کلو سے کم ہو جائیں تو لوگ شکر ادا کیا کرتے ہیں۔۔ کبھی کہا جاتا تھا کہ اگر گوشت نہ کھا سکیں تو دال سبزی سے گزارا ہو جائے گا، مگر اب حال یہ ہو گیا ہے میرے اس عظیم ملک کا کہ یہاں دال بھی تین سو روپے کلو ہو چکی ہے۔ سبزی کوئی بھی ایسی نہیں جو سو روپے کلو سے کم ہو۔۔ پالک یا میتھی کی ایک گڈی بھی پچاس روپے کی ملا کرتی ہے جس کی صفائی ہو تو وہ آدھی سے بھی کم رہ جاتی ہے۔

اس ملک کو زرعی ملک کہا جاتا ہے مگر یہاں گوبھی جیسی سبزی بھی دو سو روپے کلو ملتی ہے جو آرام سے اگائی جاتی ہے۔ غرض یہ کہ ہر شے عوام کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہے مگر مجال ہے کہ حکمرانوں کے کانوں تک عوام کی صدا پہنچتی ہو۔

میں قیدی نمبر چار سو بیس کا سب سے بڑا نقاد رہا ہوں، مگر ان کی سب سے اچھی بات جس کی میں تعریف کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ انہوں نے کوئی کام ہی نہیں کیا بس باتیں کیں، لطیفے سنائے اور یوٹرن کے ڈھیر لگائے یعنی نہ ڈھولا ہوسی نا رولا ہوسی۔ انہوں نے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا قرض لیا مگر قسم کھائی کہ کوئی ترقیاتی کام بھی نہیں کروائیں گے کہ ٹھیکیدار قسم کے لوگ اس میں سے کمیشن لے لیتے ہیں۔

انہوں نے اپنے دائیں بائیں ندیم بابر، عبد الرزاق داؤ، ظفر مرزا جیسے دوست احباب رکھے ہوئے تھے جو کمیشن لینے کا کام کسی ترقیاتی کام کے بغیر ہی کر لیتے تھے۔ اس لیے انہوں نے جو تین سو پچاس ڈیم بنائے وہ بھی صرف فیس بک پر بنے، پچاس لاکھ گھر بنائے وہ بھی صرف تصویروں میں رہے اور ایک کروڑ ملازمتیں دیں جن میں سے سب سے اچھی نوکری شہبازگل سمیت کچھ بیرون ملک مقیم پاکستانی دوستوں کو دی گئیں جنہوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور خوب اچھی طرح دھوئے۔
حالات پھر بھی لڑھک لڑھک کے ہی سہی چل رہے تھے کہ قیدی نمبر چار سو بیس کو ہٹانے والوں نے نئے سیاسی نعرے دئیے، ایک نے دو سو یونٹ مفت دینے کا اعلان کیا تو دوسری نے نعرہ لگایا کہ آپ کو تین سو یونٹ مفت ملیں گے، جب آپ بل دینے بینک جائیں گے تو آپ کے بل پر مہر لگے گی کہ آپ کا بل حکومت پنجاب نے ادا کر دیا ہے۔
کل ایک دوست بتا رہا تھا کہ میں بل جمع کروانے گیا تو بہت مطمئن تھا میں نے اپنے موبائل میں یہ کلپ سنبھال کر رکھا ہوا تھا، جب بینک والے نے پیسے مانگے تو میں نے اسے بتایا کہ میرا بل تو حکومت پنجاب نے ادا کرنا تھا۔۔ بینک والے نے بدتمیزی سے کہا کہ تم کوئی وزیر ہو یا بیورو کریٹ ہو؟۔ میں نے کہا میں تو عام آدمی ہوں۔۔ جواب میں بینک والے نے جو کچھ میری شان میں کہا وہ میں ضبط تحریر میں بھی نہیں لا سکتا۔

مزید پڑھیں: بھونڈ اور بابا رحمتا

بینک والا کہہ رہا تھا کہ کسی بھی قسم کی رعایت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تم منتخب رکن اسمبلی ہو، تم سینئر بیورو کریٹ ہو، تم واپڈا کے ملازم ہو۔۔ اگر ان میں سے کچھ نہیں تو پھر خاموشی کے ساتھ چاہے بیوی کی چوڑیاں بیچو یا انگوٹھی مگر پیسے لے کر آنا اور بل جمع کروا کے خاموشی کے ساتھ سر جھکا کے واپس جانا۔ کوئی سوال نہ کرنا کہ انتخابی مہم میں یہ وعدہ کیوں کیا تھا؟۔ انتخابی مہم کی تقاریر کو سنجیدہ لینا تمہاری غلطی تھی، آئندہ ایسی غلطی نہ کرنا، کوئی نیا نعرہ نہ خرید بیٹھنا ورنہ اسی طرح بیوی کا زیور فروخت کر کے بل ادا کرنا پڑے گا۔ بے وقوف، جاہل۔۔

مزید خبریں