هفته,  28  ستمبر 2024ء
وزیراعظم شہباز شریف کی میثاق معیشت کیلئےاپوزیشن کویپیشکش؟

وزیراعظم شہباز شریف نے میثاق معیشت کیلئےاپوزیشن کوایک بارپھریپیشکش کی ہے, وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ہم نے میثاق جمہوریت پر اتفاق کیا، اب میثاق معیشت پر بھی اتفاق ہونا چاہیے، جب کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کو اگر مشکلات ہیں تو آئیں بیٹھ کر بات کریں۔ قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نےکہا کہ میں نے اپنی پہلی تقریر میں یہ بات کی تھی کہ ہم نے میثاق جمہوریت پر اتفاق کیا، اب میثاق معیشت پر بھی اتفاق ہونا چاہیے، حالانکہ حکومت ان کی تھی، نہ صرف میری اس پیشکش کو ٹھکرایا گیا بلکہ اس ایوان میں جو نعرے بلند ہوئے وہ تاریخ میں ہمیشہ سیاہ باب میں یاد رکھے جائیں گے۔اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو یقیناً انصاف کا پلڑا ہر وقت بھاری رہنا چاہیے، چاہیے وہ کوئی سیاسی رہنما ہو یا پھر زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو، جب کہ اگلے سال میں نے اپنی بجٹ تقریر میں ایک بار پھر پیشکش کی کہ آئیں دوبارہ بیٹھ کر بات کرتے ہیں، اور پھر ایسے نعرے بلند ہوئے جن کا ذکر کرنا اس ایوان کی توہین ہے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آج تلخیاں جس حد تک پہنچ چکی ہیں، اس کا ذمہ دار کون ہے.

آج 76 سال بعد ہم ایسی جگہ پہنچے ہیں کہ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے بھی ججھکتے ہیں، اسی ملک میں وہ زمانہ تھا جب اسمبلی میں بہت تنقید اور مخالفت میں باتیں ہوتی تھیں لیکن سیاست دان ایک دوسرے کے دکھ اور سکھ میں شریک ہوتے تھے۔ آج اگر بانی پی ٹی آئی عمران خان کو جیل میں کوئی مشکلات ہیں تو آئیں بیٹھ کر بات کریں، اور بیٹھ کر معاملات کو طے کریں۔انہوں نے کہا کہ علی محمد نے اپنی جذباتی تقریر میں جن باتوں کا ذکر کیا، کاش وہ یہ بھی ذکر کردیتے کہ جب میری والدہ کا انتقال ہوا تب میں جیل میں تھا، میں نے سپرنٹنڈنٹ کو کہا کہ آج تاریخ ہے ، میری والدہ کا انتقال ہوا ہے اور ان کی میت لندن سے آنی ہے، میں درخواست لکھ دیتا ہوں کہ آج چھٹی دے دیں، جس پر انہوں نے کہا کہ آرڈر آیا ہے کہ آپ جائیں گے اور حاضری لگاکر واپس آجائیں گے۔شہباز شریف نے کہا کہ جب میں عداالت گیا تو مجھے امید تھی کہ جج صاحب کہیں گے کہ آپ کیوں آئے ہیں، آپ کی والدہ کا انتقال ہوا ہے، آپ واپس چلے جائیں، لیکن جب ہمارے وکیل نے استدعا کی کہ آج اجازت دے دیں، جس پر انہوں نے کہا کہ نہیں، آج ہم نے گواہان کو بلایا ہے، ہر صورت بیان ریکارڈ ہوگا۔ میں یہاں پورے ایوان کے سامنے یہ اعلان کرتا ہوں کہ میں نہیں چاہتا جو زیادتی ہمارے ساتھ ہوئی، وہ ان کے ساتھ بھی ہو، میں ان کی خدمت میں یہ عرض کروں گا کہ آئیں بیٹھیں، ملک کو آگے لے جانے، ترقی وخوشحالی کے لیے اور پاکستان کی بہتری کے لیے بیٹھ کر بات کریں۔یادر ہے کہ گزشتہ روز وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی جانب سے قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کے دوران فنانس بل میں اہم ترامیم کے اعلان کیا گیا، جس کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں آئی ایم ایف کے ساتھ ملکر بجٹ بنانے کی تصدیق کی تھی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی کی جانب سے جنوبی پنجاب کی محرومیوں، ذراعت پر ٹیکس سے متعلق سوالات کے جواب دینے کے لیے فلور پر آئے اور انہوں نے کہا ’ہمیں ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر بجٹ تیار کرنا پڑا‘۔

وزیر اعظم شہباز نے آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے مثبت امید ظاہر کی تاہم انہوں نے قبل از وقت بیان دینے سے گریز کیا، انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کو آئی ایم ایف کی طرف سے کوئی جواب موصول ہوا تو وہ اسے پارلیمنٹ کے ساتھ شیئر کریں گے، انہوں نے ’اچھی خبر‘ کی امید بھی ظاہر کی، تاہم یہ واضح نہیں کیا کہ آیا وزیر اعظم آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکج یا کھاد سے متعلق ٹیکس میں نرمی کا حوالہ دے رہے تھے۔ وفاق میں اتحادی حکومت دوبارہ معرض وجود میں آئی ہےشہباز شریف کے لیے تمام چھے اتحادی جماعتوں کو بیک وقت خوش رکھنا مشکل ہوگیا ہےصوبوں میں پیپلز پارٹی سندھ، پنجاب میں مسلم لیگ(ن) اور بلوچستان میں وفاق کی طرز پر ایک مخلوط حکومت ہے۔ یہ عوام کا فیصلہ تھا جس کا سب کو احترام کرنا ہے جنہوں نے جس طریقے سے مختلف جماعتوں کو یہ مینڈیٹ دیا ہے تو پوری دنیا ہمیں باریک بینی سے ہمیں دیکھ رہی ہے کہ ان جماعتوں میں کتنی صلاحیت ہے کہ یہ اس مینڈیٹ کے اندر رہتے ہوئے کس طرح عوام کے مسائل اور چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ہمیں اللہ تعالیٰ سے ملک کو درپیش ہمالیہ نما چیلنجوں کے لیے دعا کرنی ہے یہ ہوشربا چیلنجز ہیں اور ہمارا گیس اور بجلی کا گردشی قرضہ مجموعی طور پر 50 کھرب ہے، پی آئی اے کا قرضہ 825 ارب روپے ہے، بجلی کی چوری سالانہ 500ارب روپے ہے اور اسی سے اندازہ ہو جائے گا کہ صورتحال کتنی گمبھیر ہے۔جو ادارے بھی خسارے میں ہیں، ان کی وجہ سے ہمیں سال کے کئی سو ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے اور اس نقصان کو قرض لے کر پورا کررہے ہیں، اس وقت 1700ارب کے محصولات پر مختلف عدالتوں میں مختلف حیلوں بہانوں سے حکم امتناع ہے، یہ مجموعی طور پر ہماری حالت زار ہے، ایک خفیہ سازش ہے اور پوری طرح مغربی مفاد ہے جس میں مل کر ہماری معاشی جڑیں کھوکھلی کی جا رہی ہیں لہٰذا ہم کو مل کر اس کشتی کو پار لگانا ہے اور اگر یہ ناؤ ہچکولے کھاتی رہی تو تاریخ ہمیں اور ہماری نسلوں کو معاف نہیں کرے گی۔ خیبر پختونخوا میں انہیں مینڈیٹ ملا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ہاتھ کھینچ لیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو مینڈیٹ ملا ہے تو ہم ان کے ساتھ مل کر پوری کوشش کریں گے، یہ پاکستان چار اکائیوں کا نام ہے اور یہ آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ملکی معیشت کون چلائے گا ؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا حکومت سخت فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور ایسے فیصلے کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ ساختی اصلاحات پر کام شروع کیا جاسکے۔ نئی انتظامیہ کے لیے ایک بڑا چیلنج طویل عرصے سے زیرِ التوا ریاستی اداروں کی نجکاری کا عمل شروع کرنا ہوگا۔ یہ ادارے معیشت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو اس حوالے سے سخت تحفظات ہیں مگر اس معاملے پر دیگر اتحادی جماعتوں کا واضح مؤقف سامنے نہیں آیا۔ نجکاری کا معاملہ ایک سیاسی مسئلہ بن چکا ہے اور اکثریت سے محروم کمزور حکومت جس کی بقا مکمل طور پر اتحادی جماعتوں پر منحصر ہے، ایسی حکومت کے لیے پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز سمیت دیگر ریاستی اداروں کو فروخت کرنے کا فیصلہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔ یہ واضح رہے کہ ان اداروں سے سرکاری خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔تاہم اقتصادی پہلو کے حوالے سے سوال یہ ہے کہ نئی حکومت قرضوں کی بدترین صورتحال سے کیسے نمٹتی ہے۔ قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں وزیراعظم شہباز شریف نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ پوری وفاقی حکومت کے اخراجات قرضے کی رقم سے پورے کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبوں کو فنڈز کی منتقلی کے بعد وفاقی حکومت کے پاس بہت کم رقم رہ جاتی ہے۔ یہ یقیناً ملک کی مالی پریشانیوں کی ایک بڑی وجہ ہے۔

شہباز شریف نے قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ سے نمٹنے کے لیے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ (این ایف سی) پر نظرثانی کا عندیہ دیا ہے۔ لیکن این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کے لیے تمام صوبوں کے اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں اتفاقِ رائے ہونا ناممکن نظر آتا ہے۔ صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے بالخصوص خیبرپختونخوا جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ موجودہ انتظامات میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کے لیے سیاسی مفاہمت کی ضرورت ہوگی جو موجودہ محاذ آرائی کے ماحول میں ہونے کا امید نہیں۔ حکومت کے لیے ایک اور بڑا چیلنج آئی ایم ایف کے ساتھ 6 ارب ڈالرز کے توسیعی فنڈ کے لیے بات چیت کرنا ہے جوکہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کے قلیل مدتی بیل آؤٹ کی وجہ سے ڈیفالٹ کے خطرے کو ٹال دیا تھا لیکن آئی ایم ایف کا یہ پروگرام جلد ہی ختم ہونے والا ہے۔ چند ہفتوں میں ایک نئے پیکیج کے لیے عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ بات چیت شروع ہونے کی امید ہے۔ آئی ایم ایف نے پہلے ہی اپنی شرائط پیش کردی ہیں اور حکومت کو کسی بھی نئے معاہدے سے پہلے ان شرائط پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔

ان میں سے کچھ شرائط تو ایسی ہیں جن سے پہلے سے عدم استحکام کا شکار حکومت مزید غیر مقبول اور اس پر شدید سیاسی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ شہباز شریف کی پچھلی حکومت جس میں اسحٰق ڈار وزیرخزانہ تھے، اس حکومت کو آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ البتہ آخری لمحات میں دیے گئے آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج کی بدولت ملک ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ شہباز شریف نے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ خود آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں شامل ہوسکتے ہیں۔ ملک میں سیاسی استحکام کے بغیر معاشی حالات ٹھیک نہیں ہوسکتے۔

اقتدار میں موجود جماعتوں پر بڑے پیمانے پر انتخابی نتائج میں جوڑ توڑ کے الزامات سے کسی بھی مفاہمت کی کوشش کا کامیاب ہونا ناممکن لگتا ہے۔ اس بگاڑ کو دور کیے بغیر ملک میں سیاسی استحکام نہیں آسکتا۔لیکن صرف معیشت نہیں بلکہ داخلی سلامتی سے متعلق مسائل بھی درپیش ہیں جن پر تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان وسیع تر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے اور اپوزیشن کو آن بورڈ لینے کی ضرورت ہے۔ خیبرپختونخوا میں شدت پسندوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ سیاسی عدم استحکام نے عسکریت پسندوں کو دہشت گردی تیز کرنے کا بھرپور موقع دیا ہے اور وہ سیکیورٹی اہلکاروں اور تنصیبات کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کی زیرِقیادت خیبرپختونخوا حکومت اور وفاق کے درمیان کوئی بھی محاذ آرائی ملک کی داخلی سلامتی کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہوگی۔ 2022 میں شہباز شریف پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے، وزیراعظم کے طور پر ان کا پہلا دور صرف 16 ماہ تک محدود رہا۔عمران خان کو عدم اعتماد کے ووٹ سے وزارتِ عظمی کی کرسی سے ہٹا کر جب وہ پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے تو ان کے بڑے بھائی نواز شریف ملک میں موجود نہیں تھے۔ انہوں نے پہلی بار وزیراعظم کا عہدہ اس وقت سنبھالا جب ملک کو معاشی لحاظ سے سخت مشکلات کا سامنا تھا، روپے کے قدر میں مسلسل کمی اور ڈالرز کی اونچی اڑان نے ملک ڈیفالٹ کے خطرے میں تھا۔ تاہم اگست 2023 میں اپنی حکومت کی مدت پوری ہونے پر شہباز شریف کا دعویٰ تھا کہ ’انہوں نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا، جن حالات میں ان کو معیشت ملی وہ 17 مہینوں میں جتنی بہتر کی جا سکتی تھی انہوں نے کی ہے۔ اب ایک بار پھر 9 فروری 2024 کو ہونے والے انتخابات کے نتائج اور نئی قومی اسمبلی تشکیل ہونے کے بعد وہ دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں۔

مزید خبریں

FOLLOW US

Copyright © 2024 Roshan Pakistan News