پیر,  25 نومبر 2024ء
ملک میں امن و استحکام کے لیے آپریشن عزم استحکام ناگزیر

ملک میں پائیدار امن و استحکام کے لیے آپریشن عزم استحکام ناگزیرہوگیا ہےوزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کو آپریشن ’عزم استحکام‘ کے بارے میں گردش کرنے والی قیاس آرائیوں کے حوالے سے اعتماد میں لیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں کوئی فوجی بڑا آپریشن نہیں ہوگا۔واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے نیشنل ایکشن پلان پر ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں آپریشن ’عزم استحکام‘ کی منظوری دی گئی تھی جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف، جے یو آئی (ف) سمیت مختلف سیاسی جماعتوں نے اس آپریشن کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے آپریشن عزم استحکام کے حوالے سے سامنے آنے والے سیاسی جماعتوں کے تحفظات پر کہا تھا کہ ’آپریشن عزم استحکام کا ماضی کے آپریشنز سے موازنہ درست نہیں ہے.

آپریشن عزم استحکام پر کابینہ اور پارلیمنٹ میں اتفاق رائے پیدا کیا جائے گا‘۔ وزیراعظم ہاؤس نے واضح کیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ملک میں بڑے پیمانے پر کسی ایسے فوجی آپریشن پر غور نہیں کیا جا رہا ہے جہاں آبادی کی نقل مکانی کی ضرورت ہوگی۔وزیراعظم ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’عزم استحکام‘ کا مقصد پہلے سے جاری انٹیلی جنس کی بنیاد پر مسلح آپریشنز کو مزید متحرک کرنا ہے، ان کارروائیوں کا مقصد دہشت گردوں کی باقیات کی ناپاک موجودگی، جرائم و دہشت گرد گٹھ جوڑ کی وجہ سے ان کی سہولت کاری اور پرتشدد انتہا پسندی کو فیصلہ کن طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔

اس سے ملک کی معاشی ترقی اور خوشحالی کے لیے مجموعی طور پر محفوظ ماحول یقینی بنایا جا سکے گا۔بیان میں کہا گیا کہ ملک کے پائیدار امن و استحکام کے لیے اعلان کردہ وژن ’عزم استحکام‘ کو غلط سمجھا جا رہا ہے، اس کا موازنہ گزشتہ مسلح آپریشنز جیسے ’ضرب عضب‘ اور ’راہ نجات‘ وغیرہ سے کیا جارہا ہے، سابقہ مسلح آپریشنز میں ایسے معلوم مقامات، جو نو گو علاقے بننے کے ساتھ ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رہے تھے، سے دہشت گردوں کو ہٹا کر انہیں ہلاک کیا گیا۔ ان کارروائیوں کے لیے مقامی آبادی کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور متاثرہ علاقوں سے دہشت گردی کی عفریت کی مکمل صفائی کی ضرورت تھی، اس وقت ملک میں ایسے کوئی نو گو علاقے نہیں ہیں کیونکہ دہشت گرد تنظیموں کی پاکستان کے اندر بڑے پیمانے پر منظم کارروائیاں کرنے یا انجام دینے کی صلاحیت کو گزشتہ مسلح آپریشنز سے فیصلہ کن طور پر شکست دی جاچکی ہے۔اس لیے بڑے پیمانے پر کسی ایسے فوجی آپریشن پر غور نہیں کیا جا رہا ہے جہاں آبادی کی نقل مکانی کی ضرورت ہو گی۔یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان پر مرکزی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں آپریشن ’عزم استحکام‘ کے آغاز کے ذریعے انسداد دہشت گردی کی قومی مہم کو دوبارہ متحرک اور فعال کرنے کی منظوری دی تھی۔اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ فورم نے انسداد دہشت گردی کی جاری مہم کا جامع جائزہ لیا اور داخلی سلامتی کی صورتحال کا جائزہ لیا، نیشنل ایکشن پلان کے ملٹی ڈومین اصولوں پر ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا، خاص طور پر اس پر عمل درآمد میں خامیوں کی نشاندہی کرنے پر زور دیا گیا تاکہ ان کو اولین ترجیح میں دور کیا جا سکے۔

اجلاس میں مکمل قومی اتفاق رائے اور نظام کے وسیع ہم آہنگی پر قائم ہونے والی انسداد دہشت گردی کی ایک جامع اور نئی جاندار حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا گیا۔اس میں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم نے قومی عزم کی علامت، صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے سے آپریشن ’عزم استحکام‘ کے آغاز کے ذریعے انسداد دہشت گردی کی قومی مہم کو دوبارہ متحرک کرنے کی منظوری دی۔ یہ آپریشن ایک جامع اور فیصلہ کن انداز میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے کوششوں کے متعدد خطوط کو مربوط اور ہم آہنگ کرے گا۔سیاسی سفارتی دائرہ کار میں علاقائی تعاون کے ذریعے دہشت گردوں کے لیے آپریشنل جگہ کو کم کرنے کی کوششیں تیز کی جائیں گی، مسلح افواج کی تجدید اور بھرپور متحرک کوششوں کو تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مکمل حمایت سے بڑھایا جائے گا، جو دہشت گردی سے متعلقہ مقدمات کی موثر کارروائی میں رکاوٹ بننے والے قانونی خلا کو دور کرنے کے لیے موثر قانون سازی کے ذریعے بااختیار ہوں گے اور انہیں مثالی سزائیں دی جائیں گی۔اس مہم کو سماجی و اقتصادی اقدامات کے ذریعے مکمل کیا جائے گا جس کا مقصد لوگوں کے حقیقی خدشات کو دور کرنا اور انتہا پسندانہ رجحانات کی حوصلہ شکنی کرنے والا ماحول بنانا ہے۔ مہم کی حمایت میں ایک متحد قومی بیانیہ کو فروغ دینے کے لیے معلومات کی جگہ کا فائدہ اٹھایا جائے گا۔فورم نے اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی جنگ ہے اور یہ قوم کی بقا اور بہبود کے لیے بالکل ضروری ہے، فورم نے فیصلہ کیا کہ کسی کو بغیر کسی رعایت کے ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔رپورٹ کے مطابق وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا، جس میں معمول کے 11 نکاتی ایجنڈے کا جائزہ لیا گیا۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملک میں پائیدار امن اور استحکام کے وژن کے لیے عزم استحکام ہے، یہ کوئی بڑا فوجی آپریشن نہیں ہوگا۔ وزیر اعظم نےکہا کہ’عزم استحکام مختلف سیکیورٹی ایجنسیوں اور پورے ریاستی نظام کے کثیر الجہتی تعاون کا مجموعی قومی وژن ہے۔ اس مقصد کے لیے کوئی آپریشن شروع کرنے کے بجائے پہلے سے جاری انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کو مزید تیز کیا جائے گا۔ شہباز شریف نے کہا کہ ’ایک بڑا فوجی آپریشن جس کے لیے نقل مکانی کرنی پڑے، ویژن عزم استحکام کے تحت اس طرح کے آپریشن کا آغاز ایک غلط فہمی ہے۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ ’دہشت گردوں، جرائم اور دہشت گردی کے گٹھ جوڑ اور پرتشدد انتہا پسندی کو ہمیشہ کے لیے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا آپریشن کا مقصد تھا‘۔ یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان پر مرکزی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں آپریشن ’عزم استحکام‘ کے آغاز کے ذریعے انسداد دہشت گردی کی قومی مہم کو دوبارہ متحرک اور فعال کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔اجلاس میں وفاقی کابینہ کے اہم وزرا بشمول نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار، وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر داخلہ محسن نقوی، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے شرکت کی تھی۔ تمام صوبوں اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ، سروسز چیفس، صوبوں کے چیف سیکریٹریز کے علاوہ دیگر سینئر سویلین، فوجی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران بھی اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔ اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ فورم نے انسداد دہشت گردی کی جاری مہم کا جامع جائزہ لیا اور داخلی سلامتی کی صورتحال کا جائزہ لیا، نیشنل ایکشن پلان کے ملٹی ڈومین اصولوں پر ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا، خاص طور پر اس پر عمل درآمد میں خامیوں کی نشاندہی کرنے پر زور دیا گیا تاکہ ان کو اولین ترجیح میں دور کیا جا سکے۔ اجلاس میں مکمل قومی اتفاق رائے اور نظام کے وسیع ہم آہنگی پر قائم ہونے والی انسداد دہشت گردی کی ایک جامع اور نئی جاندار حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم نے قومی عزم کی علامت، صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے سے آپریشن ’عزم استحکام‘ کے آغاز کے ذریعے انسداد دہشت گردی کی قومی مہم کو دوبارہ متحرک کرنے کی منظوری دی۔

اعلامیے کے مطابق یہ آپریشن ایک جامع اور فیصلہ کن انداز میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے کوششوں کے متعدد خطوط کو مربوط اور ہم آہنگ کرے گا۔ سیاسی سفارتی دائرہ کار میں علاقائی تعاون کے ذریعے دہشت گردوں کے لیے آپریشنل جگہ کو کم کرنے کی کوششیں تیز کی جائیں گی، مسلح افواج کی تجدید اور بھرپور متحرک کوششوں کو تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مکمل حمایت سے بڑھایا جائے گا، جو دہشت گردی سے متعلقہ مقدمات کی موثر کارروائی میں رکاوٹ بننے والے قانونی خلا کو دور کرنے کے لیے موثر قانون سازی کے ذریعے بااختیار ہوں گے اور انہیں مثالی سزائیں دی جائیں گی۔ اس مہم کو سماجی و اقتصادی اقدامات کے ذریعے مکمل کیا جائے گا جس کا مقصد لوگوں کے حقیقی خدشات کو دور کرنا اور انتہا پسندانہ رجحانات کی حوصلہ شکنی کرنے والا ماحول بنانا ہے۔ مہم کی حمایت میں ایک متحد قومی بیانیہ کو فروغ دینے کے لیے معلومات کی جگہ کا فائدہ اٹھایا جائے گا۔فورم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی جنگ ہے اور یہ قوم کی بقا اور بہبود کے لیے بالکل ضروری ہے، فورم نے فیصلہ کیا کہ کسی کو بغیر کسی رعایت کے ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

فورم نے پاکستان میں چینی شہریوں کے لیے فول پروف سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے اقدامات کا بھی جائزہ لیا۔وزیراعظم کی منظوری کے بعد متعلقہ محکموں کو نئے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) جاری کیے گئے، جس سے پاکستان میں چینی شہریوں کو جامع سیکیورٹی فراہم کرنے کے طریقہ کار میں اضافہ ہوگا۔یاد رہے کہ قومی اسمبلی میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ عزم استحکام کی جو ایپکس کمیٹی نے اجازت دی تو سب کو پتا کہ آرمی پبلک کے سانحے کے بعد ایپکس کمیٹی بنائی گئی اس میں پی ٹی آئی بھی شامل تھی، ہم اس کو بحال کر رہے ہیں، اس کو کابینہ میں لے کر جارہے ہیں، ہم اسے ایوان میں بھی لے کر آئیں گے، ہم کوئی ایسا کام نہیں کریں گے کہ اس کو نشانہ بنایا جا سکے، ان کو اعتراض ہے تو جب یہ مسئلہ ایوان میں آئے گا تب بھی اس پر بول سکتے ہیں، مگر یہ لوگ اپنی سیاسی اوقات دکھاتے ہیں، کل کی میٹنگ میں وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا موجود تھے، ان کے سامنے سب بات ہوئی، آج یہ دہشتگردوں کے ساتھ کھڑے ہیں احتجاج کر کے۔اجلاس کے دوران اپوزیشن اراکین نے فوجی آپریشن کے خلاف شدید نعرے بازی کی تھی,یاد رکھیں کہ پشاور میں آرمی پبلک سکول پر مہلک دہشت گرد حملے کے بعد نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی نےمشاورت سے انسداد دہشت گردی اور انتہاپسندی کے لیے 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان تیار کیا تھا، جس کی بعد ازاں پارلیمنٹ نے 24 دسمبر، 2014 کو اس کی منظوری دی تھی۔وزیراعظم شہباز شریف کا نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ہم سب کو مل کر دہشت گردی کو کچلنا ہے۔ قومی سلامتی کا مسئلہ کافی عرصے سے نظرانداز ہوتا رہا ہے، پاکستان کو مختلف حوالوں سے دہشت گردی کاسامنارہا، پائیدار ترقی کے لیے ملک میں آئین و قانون پر عملداری ضروری ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کا اجلاس وزیراعظم ہاؤس میں ہوا، اجلاس میں پاکستان میں چینی باشندوں اور غیر ملکیوں کی سیکیورٹی کے امور کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس میں تمام وزراء اعلی، گورنرز، چیف سیکریٹریز اور وزراء داخلہ شریک ہیں، اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر سمیت وفاقی وزرا بھی موجودہ تھے۔.وزیراعظم نے کہا کہ انتہاپسندی اور مذہبی منافرت کا بھی دہشت گردی سے جان لیوا تعلق ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ تمام ریاستی اداروں کامشترکہ فرض ہے۔ جرائم، منشیات اور اسمگلنگ کا دہشت گردی سے جان لیوا تعلق ہے،گزشتہ برسوں میں حکومتیں دہشت گردی کےحوالے سے بری الذمہ رہیں، گزشتہ ڈھائی دہائیوں سے دہشت گردی کے مسئلے نے سر اٹھایا، انسداد دہشت گردی کے لیے اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا پڑےگا، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلح افواج کی قربانیاں بےمثال ہیں، سیکیورٹی کو ریاست کے صرف ایک ادارے پر چھوڑنا خطرناک روش ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ ہم سب نے ملکر دہشت گردی کو کچلنا ہے، گزشتہ برسوں میں حکومتیں دہشت گردی کےحوالے سے بری الذمہ رہیں، ہم نے ہر معاملہ مسلح افواج پر چھوڑ دیا جو خطرناک روش ہے، افواج پاکستان نے ملکی حفاظت کے لیے ہمیشہ قربانیاں دیں، انسداد دہشت گردی کے لیے اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا پڑےگا۔ توقع ہے کہ صوبے دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے اپنا حصہ ڈالیں گے، نرم ریاست سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل نہیں کرسکتی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی اپیکس کمیٹی کا ہونے والا اجلاس مؤخر کردیا تھا، اور قومی ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کا اہم اجلاس طلب کیا تھا، فاٹا میں قانون کی عملداری نہ ہو نے کی وجہ سے یہ علاقے دہشت گردوں اور انڈر ورلڈ مافیا کا گڑھ بن گئےاور پورا ملک خصوصاً خیبر پختونخوا خون میں نہلا گیا تھا انگریزسرکار نے اپنے نوآبادیاتی مفادات کے حصول کے لیے ان علاقوں کو بے آئین رکھا ,ادارہ جاتی سسٹم کے بجائے پورا فاٹا اور پاٹا انگریز کے وظیفہ خوار خوانین و مشران و ملکان کے حوالے کردیا.

ان علاقوں کو خیبر پختونخوا کا حصہ بنانے کے بعد یہاں پر امن و امان کی طرف توجہ دی جائے اور یہاں کے عوام کو انسانی حقوق اور انصاف تک رسائی دی جائے بلکہ ان علاقوں میں دہشت گردی زیادہ ہوگئی ہے بلکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد ٹی ٹی پی زیادہ متحرک ہو گئی ہے۔ آپریشن سے بڑی کامیابیاں حاصل کیں لیکن اب طالبان اپنے ملک اور قوم کے خلاف سرگرم ہیں۔ انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف ٹھوس مہم کب چلے گی ، دہشت گرد سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں,نیشنل ایکشن پلان 20نکات پر مشتمل تھا ۔ ۔دہشت گردی کے جرائم میں سزا یافتہ مجرمان کی سزائے موت پر عمل درآمد, خصوصی فوجی عدالتوں کا قیام ,ان عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا کچھ افراد کو سزائے موت بھی سنائی گئی ۔اب یہ عدالتیں ختم ہوچکی ہیں۔ پاکستان کا نظام فوجداری دہشت گردوں کو سزا دینے میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردی ایک نیا طریقہ واردات ہے اور ہمارا پرانا ‘رشوت زدہ اور بوسیدہ عدالتی نظام اور پراسیکیوشن برانچ دونوں ہی اس مسئلے کو ختم کرنے مجرموں کو سزا دینے یا ان کی نشاندہی کرنے میں ناکام رہے ہیں ہمارا نظام انصاف تو عام رہزن کو بھی سزا نہیں دے سکتا تربیت یافتہ دہشت گرد اور ان کے طاقتور سہولت کاروں کو سزا دینا تو بڑی بات ہے اس لئےکہہ سکتے ہیں کہ نظام انصاف کی بہتری کے لئے کچھ نہیں ہو ا ۔ جزا کے ساتھ ساتھ سزا کاعنصر شامل کرکے نظام انصاف اور تفتیش و تحقیقات کا نظام بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کا مقصد ان گروہوں اور تنظیموں کو ختم کرنا تھا جو انتہا پسندی ‘دہشت گردی اور فرقہ واریت میں ملوث ہیں لیکن کئی پارٹیوں اور تنظموں کی قیادت آج بھی کھلم کھل مذہنی فرقہ وارایت، مذہبی انتہاپسندی کا پرچار کر رہی ہیں قوم پرستی کی آڑ میں بھی نفرت ، دشمنی اورمار دو مر جاؤ کی آگ بغیر کسی خوف کے جلائی جارہی ہے اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نکتے پر آگے جانے کی بجائے ہم پیچھے جا رہے ہیں کیا ایسی تنظیمیں اور ان کی لیڈرشپ کھلے عام پاکستان کے تعلقات ختم کرنے کا فریضہ سرانجام دینے کے محاذ پر سرگرم نہیں۔افغان طالبان اور ٹی پی پی کی درپردہ سہولت کاری کہاں سے ہورہی ہے ، یہ سوال بھی ذہن میں اٹھتا ہے کہ ماضی میں ہم تمام دہشت گردوں کے بجائے مخصوص دہشت گردوں کو نشانہ تو نہیں بناتے رہے؟نیکٹا, نیشنل کائونٹر ٹیررزم اتھارٹی کو مضبوط اور فعال بنایا جانا بہت اہم نقطہ ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف سب سے اہم ادارہ نیکٹا کو مختلف انٹلی جنس اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون کا شدید فقدان ہے۔سب سے اہم ادارہ نیکٹا کو فعال ہونا تھا نیکٹا کا ایک طاقتور اور با اختیار بورڈ آف ڈائرکٹر موجود ہے ‘قانونی پابندی ہے کہ بورڈ کا اجلاس ہر تین مہینے کے بعد ہونا لازمی ہے یعنی سال میں چار مرتبہ ، کیا اس پر عمل ہوا ۔ نیکٹاکے بورڈ آف گورنر کے چیئرمین وزیراعظم ہیں اوراس کے ممبرا ن میں تما م صوبوں بشمول گلگت بلتستان کے وزراء اعلی ‘وزیر اعظم آزادکشمیر ‘ داخلہ‘ قانون ‘ دفاع اورخزانہ کے مرکزی وزراء‘ آئی ایس آئی ‘آئی بی ‘ملٹری انٹلی جنس اورایف آئی اے کے ڈائرکٹر جنرل ‘صوبائی چیف سیکرٹری اور تمام صوبوں کے آئی جی پی ‘سیکرٹری داخلہ اور دوسرے اہم عہدیداران شامل ہیں۔ نیکٹا کے بورڈ کی ساخت اور قانون کے مطابق اس کے اختیارات اس ادارے کو دہشت گردی کے خلاف پالیسیاں بنانے اور ان پر عمل درآمد کا سب سے زیادہ فعال اور طاقتور ادارہ بناتے ہیں بد قسمتی سے یہ ادارہ موجودہ اورسابقہ حکومت کی ترجیحات میں سب سے نچلے درجے پر ہے۔ ملک کے تمام باشعور حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ تمام خفیہ ایجنسیوں اور سیکیورٹی کے اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون بڑھانے کے لئے ایک منظم سسٹم کی ضرورت ہے نفرت انگیز مواد انتہا پسندی , فرقہ واریت اور تشددکا پرچار کرنے والے اخبارات, لٹریچر اوررسالوں کے خلاف سخت اقدامات کرنا ضروری ہےدہشت گردوں اور ان کی تنظیموں کے فنڈ کے ذرائع کو بند کرنا ‘ کیا اس پر عمل ہوا ہے ،آج بھی لوگ کھلے عام چندے جمع کر رہے ہیں‘باقاعدہ مسجدوں اور بازاروں میں چندہ بکس لگے ہوئے ہیں۔ جب لوگ انتہاپسند تنظیموں کے قائدین کو کھلے عام اخباروں اور ٹی وی پر اجتماعات کرتے دیکھتے ہیں تو وہ بھی ان کو اصلاحی تنظیمیں سمجھ کر چندہ دے دیتے ہیں.

قربانی کی کھالیں، زکوۃ، فطرانہ، خیرات و صدقات تک یہ تنظمیں اکٹھا کرتی ہیں۔ ان تنظیموں پر آج تک کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ‘اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ اس سلسلے میں پراگرس کچھ نہیں بلکہ حالات جوں کے توں ہیں ۔کالعدم تنظیموں کو دوسرے ناموں سے کام کرنے کی اجازت نہیں تنظیم پر پابندی نہیں بلکہ تنظیم کی قیادت،اس کے فنانسرز اور سہولت کاروں پر ہر قسم کی سیاست پر پابندی عائد کی جانی چاہیے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کسی تنظیم پر پابندی لگائی جاتی تو اس کی قیادت نئے نام سے کوئی تنظیم قائم کرکے اپنا کام شروع کردیتی ہے ۔اسی طرح بہت سی تنظیمیں ہیں جو پابندی کے باوجود دوسرے ناموں سے کام کر رہی ہیں حکومت شاید ناموں پر پابندی لگاتی ہے نہ کہ افراد اور پروگرام پرجب کہ یورپ اور اقوام متحدہ نام کے بجائے افراد کے خلاف پابندیاں لگاتی ہےدسمبر 2014میں بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان کے بعد قائم کیے گئے نیکٹا کو فعال ہونا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ملک میں انتہا پسندی اوردہشت گردی کی ترویج کے لیے کوئی محفوظ مقام نہیں رہنے دیا جائے گا اس نکتے پر عمل درآمد کے لیے انتہاپسند تنظیموں، ان کے عہدیداروں، فنانسرز اور سہولت کاروں کے خلاف ملک بھر میں کثیر الجہتی آپریشن کی ضرورت ہے۔نیشنل ایکشن پلان کا یہ بہت اہم نقطہ ہے کہ نیکٹا یعنی نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کو مضبوط اور فعال بنایا جائے گا ۔ یہ بات درست ہے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف سب سے اہم اداروںبشمول نیکٹا اور پولیس کو حکومت کی طرف سے سرد مہری کا سامنا رہا ہے انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ایجنسیز کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون کا شدید فقدان ہے۔نیکٹاکے بورڈ آف گورنر کے چیئرمین وزیراعظم ہیں جب کہ پاکستان تما م صوبوں بشمول گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ ‘وزیر اعظم آزادکشمیر ‘ داخلہ‘ قانون ‘ دفاع اورخزانہ کے وفاقی وزراء‘ آئی ایس آئی ‘آئی بی ‘ ایم آئی اورایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل ‘ تمام صوبوں کے آئی جی پولیس، چیف سیکریٹری صاحبان‘ سیکریٹری داخلہ اور دوسرے اہم عہدیداران شامل ہیں۔ لیکن اس اتھارٹی کے بورڈآف گورنر ز کا اجلاس باقاعدگی کے ساتھ نہیں ہورہا۔مذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ اور اقلیتوں کے تحفظ کی ضمانت دینا لیکن یہاں بھی مایوسی ہے ، انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں ہوئے ۔دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ان کو ریگولر کرنا ، اس حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی سب کے سامنے ہے‘ ایک وفاقی اسلامک ایجوکیشن کمیشن بنانے کی باتیں سنی گئی تھیں ‘تاکہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت دینی مدارس کی منیجمنٹ سسٹم اور سلیبس کو منظم کیا جاسکے اور دینی مدارس کے طلباء کو پڑھانے کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کی بھرتی کی جائے ‘یہ ادارہ ان مدارس کی ڈگریوں اور سرٹیفیکیٹس کی تصدیق بھی کرے گا‘ مالی مدد بھی کرے گا میڈیا میں دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظیموں کو گلوریفائی،کرنا اور ان کو ہیرو بناکر پیش کرنا کو بند کرنا‘ابھی تک اس سلسلے میں کوئی ٹھوس کام ہوتا نظر نہیں آیا ‘ آج بھی متعدد اینکرز، صحافی اور یوٹیوبرز دھڑلے سے سرگرم ہیں.

بلوچستان کوخصوصی توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ وہاں صرف مذہبی نہیں بلکہ قوم پرستی کے نام پر بھی دہشت گردی ہو رہی ہے‘ بلوچستان میں سماجی تبدیلیاں لانے کے لیے اقدامات کے ساتھ انتظامی نیٹ ورک کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ فرقہ واریت پھیلانے والے عناصر کے خلاف اقدامات کے محاذ پر اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے بھائی کہلانے والے ملکوں کی باہمی آویزش پاکستان میں بھی پراکسی کی صورت میں آنے کا خدشہ ہے افغان مہاجرین کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک پالیسی کی تشکیل کرنا ۔اس سلسلے میں تمام افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کا حتمی پروگرام بنایا جائے ضروری ہے کہ اس مسئلے پر وفاق اور صوبوں کی پالیسی یکساں ہو اب تو افغانستان میں ایک مستحکم حکومت بھی قائم ہو گئی ہے لہٰذا افغان باشندوں کا پاکستان میں رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ موجودہ فوجداری قوانین اور عدالتی نظام تو عام مجرموں کو سزا دینے کے قابل نہیں قانون میں اصلاحات اور عدالتی نظام میں بہتری لانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے خاص طور ایسی پولیس اور پراسیکیوشن کی تشکیل جو خاص طور پر دہشت گردی کے مجرموں کو قرار واقعی سزا دلوا سکے۔ دہشت گردی سے مقابلے کے لیے ہمارے پاس وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔ ملک کے ہر شعبے کوانتہا پسندی نے متاثر کیا ہے نیشنل ایکشن پلان کے نکات میں ہر نکتہ اپنی جگہ اہم اور سنجیدہ توجہ کا مستحق ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ ایجنڈے کے ہر پوائنٹ پر کام کرنے کے لیے الگ الگ ماہرین کے گروپ یا تھنک ٹینک بنائے جائیں اور ان کو ایک متعین مدت میں ٹھوس سفارشات اور لائحہ عمل تیار کرنے کا کہا جائے۔ .قومی اسمبلی کےاجلاس میں ’دہشت گردی‘ کے واقعات میں اضافے سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس پر جواب دیتے ہوئے وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نےکا کہنا ہے کہ گذشتہ حکومت نے دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کو ترجیح دی۔ انہوں نے کہا کہ ہم دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں لیکن پھر نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کو روکا گیا۔ پاکستان میں گذشتہ کچھ عرصے کے دوران ایک مرتبہ پھر ’دہشت گردی‘ کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے جن میں سے بعض حملوں میں غیرملکیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس حوالے سے قومی اسمبلی میں بات کرتے ہوئے عطا تارڑ نے کہا کہ ’اتحادی افواج کے انخلا کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا لیکن دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے حکومت سرگرم ہے۔

مزید خبریں