سید شہریار احمد
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ
شادی شدہ ہونا اور خوش ہونا کیا بیک وقت ممکن ہے؟
جی یہ سوال تمام شادی شدہ مردوں اور عورتوں کے لیے توجہ کا مرکز ہے
شادی شدہ زندگی میں سکون کی تلاش کے حوالے سے بہت سے قلم کاروں نے، اولیاء کرام نے اور فلاسفرز نے لکھا ہےاور نسخے تجویز کیے ہیں.
لیکن ہزاروں سالوں سے ازدواجی زندگی میں سکون اور خوشی تلاش کرنے والے، ہر قسم کا اوپائے کر کے بھی مایوس اور ناکامران رہے ہیں
میرے نزدیک کسی بھی تہذیب کو پرکھنے کے لیے اس کا یہی ایک امتحان کافی ہے کہ اس معاشرے میں کس طرح کی بیویاں، کیسے شوہر اور کیسے ماں باپ پائے جاتے ہیں؟
یہ سوال آپ کو بہت سادہ لگے گا لیکن اس کی اہمیت کے حوالے سے دیکھا جائے تو کسی بھی سماج ، کسی معاشرے ، کسی تہذیب کے تمام بڑے کام، کارنامے، فلسفہ آرٹ،ادب اور مادی ترقی، سب کے سب ماند پڑ جاتے ہیں
اگر آپ کے پاس دنیا کی ہر نعمت ہو بلکہ میں کہوں گا کہ اگر آپ نے اپنا پلاٹ چاند پر لے رکھا ہو، تب بھی اگر آپ کی گھریلو زندگی شاد اور مطمئن نہیں تو پھر آپ کے لیے دنیا کی کوئی خوشی، کوئی مقام ،کوئی سہولت، کوئی معنی نہیں رکھتی
دنیا بھر میں 90 فیصد سے زیادہ لوگ شوہر اور بیویاں ہوتے ہیں لہذا جو تہذیب، بہتر قسم کے ازواج اور ماں باپ معاشرے کو نہ دے سکے وہ انسانی زندگی کو خوشگوار نہیں بنا سکتی
چنانچہ وہی اونچے درجے کی تہذیب کہلائے گی جہاں اچھے خاوند اچھی بیویاں اور اچھے والدین پائے جائیں گے
اتنی مادی ترقی کے باوجود جو معاشرہ ،نوجوان لڑکی کے لیے بہتر قسم کا شوہر مہیا نہ کر سکے یا ایک اچھی بیوی نہ دے سکے تو سمجھیں اس تہذیب کی موت واقع ہو چکی ہے
میں نے تہذیب کی خوبی کا جو امتحان تجویز کیا ہے یعنی اچھے شوہر اور اچھی بیویوں کی تلاش کے حوالے سے، اس کا اثر بڑا دل فریب ہے
اس امتحان کی بدولت تمام انسان برابر ہو جائیں گے اور اس امتحان کی وجہ سے ایک ثقافت اور ایک تہذیب کی تمام غیر ضروری چیزیں ان کے نام نہاد کارنامے ،دھرے رہ جائیں گے اور سارے انسان اخوت و برابری کی ایک سادہ سی سطح پر اکٹھے ہو جائیں گے
تہذیب کے تمام کارنامے صرف اس ایک مقصد کو حاصل کرنے کے ذریعے بن جائیں گے
اور تہذیب، بہتر شوہر ،بہتر بیویاں اور بہت بہتر ماں باپ پیدا کر سکے گے
میرے جو دوست مشرق اور مغرب کی تہذیبوں کا مقابلہ کرنے میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں
میں تو بس انہیں یہی ایک دعا کی خوراک پلاتا ہوں، اس سے انہیں کچھ سکون ہو جایا کرتا ہے
قدرتی بات ہے مشرق میں رہنے والے جب مغربی ملکوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں تو وہاں کی آنکھیں کھول دینے والی مادی ترقی سے حیران رہ جاتے ہیں
وہ دیکھتے ہیں کہ مغربی ملکوں نے طبقات الارض، فلکیات، طب! سائنس ،کائنات کے حوالے سے کتنی منزلیں طے کر لی ہیں
آسماں کو چھوتی عمارتیں، ہزاروں میل لمبی سڑکیں تعمیر کرنے کے علاوہ ان گنت ایسی ایجادات کر لی ہیں جس نے انسان کی زندگی بہت آسان بنا دی ہے
لیکن پھر بھی سوال وہی ہے
کیا انسان، ذہنی اور روحانی طور پر مطمئن اور خوش ہے؟ اور جواب پھر وہی ہے کہ جب تک ازواج کا تعلق محبت، پیار !قربانی اور ایک دوسرے کو خوش کرنے والا نہیں ہوگا تب تک تمام لوازمات ہمیں وہ حقیقی اور روحانی خوشی نہیں دے سکتے جن کی ہمیں ہمیشہ تلاش رہتی ہے
اور پھر ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ جب مشرقی لوگ، مغربی ملکوں کے کارناموں کے گن گایا کرتے ہیں تو پھر ان پر ندامت دامن گیر ہو جاتی ہے اور وہ یہ سوچ کر کہ وہ کتنے پسماندہ ہیں، احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں
جس کا ایک حتمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بڑے غرور اور بڑی ہٹ دھرمی، بلکہ سخت تعصب کے ساتھ مشرقی تہذیب کے ترجمان اور وکیل بن جاتے ہیں
ظاہر ہے کہ اس طرح ان کی حالت قابل رحم ہی تصور ہوگی
کیونکہ وہ ٹھنڈے دل سے اور معقولیت کے ساتھ نہ تو مغرب کا کوئی اندازہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی مشرق کے بارے میں کچھ اچھا سوچ سکتے ہیں
یہی وہ شخص ہے جسے سکون دینے والی دوا کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس کا دماغ کا بخار اتر جائے
میرے نزدیک بہتر قسم کے خاوند اور بہتر بیویاں ڈھونڈنے کا غالبا سب سے اچھا طریقہ انسانی نسلیات کا علم ہے
کیونکہ اگر اس علم کے ذریعے سے جوڑے ڈھونڈے جائیں تو بیویوں کو تعلیم دے کر اچھی بیویاں بنانے اور شوہروں کو تعلیم دے کر اچھے شوہر بنانے کی زحمت نہیں ہوگی
لیکن جیسے حالات آج ہیں اس طرح گھریلو زندگی تو معدوم ہو جائے گی
جو تہذیب ،گھریلو زندگی سے چشم پوشی کرے یا گھریلو زندگی کو بہت معمولی حیثیت دے وہ گھٹیا قسم کے افراد ہی پیدا کر سکتی ہے
مجھے احساس ہے کہ میں کچھ جسمانی قسم کی باتیں کر رہا ہوں
لیکن میرا تعلق ہی جسم اور حیاتیات سے ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ہر مرد عورت کا تعلق انہی سے ہوتا ہے
دنیا کا ہر شخص جسمانی طور پر ہی خوشی، غم! غصہ، افسوس محسوس کرتا ہے
ہم چاہے محسوس کریں نہ کریں ہماری آرزومندی ،جاہ طلبی یا حوصلے ،سبھی جسمانی چیزیں ہیں
ہماری مذہب پرستی اور امن پسندی بھی جسمانی ہوتی ہے
ہماری بشریت کا تقاضا یہی ہے
اور اس حقیقت سے ہمیں آنکھیں نہیں چرانی چاہیے کہ ہم جسم اور حیات کے چکر سے نکل نہیں سکتے
اس ساری بات کا نتیجہ یہ بنیادی حقیقت ہے کہ زندگی میں سب سے ابتدائی اور بنیادی رشتہ مرد عورت اور بچے کا رشتہ ہے
لہذا زندگی کا کوئی فلسفہ اس وقت تک موضوع اور مناسب فلسفہ نہیں کہلا سکتا جب تک کہ وہ اس بنیادی رشتے پر ہر پہلو سے روشنی نہیں ڈالتا
چونکہ ہمارا آج کا موضوع ازدواجی زندگی کی خوشی اور سکون سے ہے جو کہ ہزاروں سال کی انسانی تاریخ میں ہمیں کہیں بھی نظر نہیں آیا ،بلکہ ہر کہانی، ہر قصے ،ہر روایت میں مفقود رہا ہے
مرد تاریخ کی ابتدا سے لے کر اج تک عورتوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا ڈھب نہیں سیکھ سکے
جبکہ یہ حقیقت ہے کہ مرد پیدائش سے لے کر موت تک عورتوں میں ہی گھر رہتا ہے
عورت کبھی ماں، کبھی بیوی ۔کبھی بہن ،کبھی بیٹی کے روپ میں اس کے ساتھ رہی ہے
اگر کوئی شخص شادی نہیں کرتا تو بھی اسے شاعر ولیم ورڈز ورتھ کی طرح اپنی بہن کی رفاقت میں زندگی بسر کرنا ہوگی
یا عظیم فلسفی ہر برٹ سنسر کی طرح اپنے گھر کی ملازمہ کا دست نگر بننا پڑے گا
یا پھر آوسکر وائلڈ کی طرح اخلاقی بے راہ روی میں زندگی گزارنی ہوگی
اس کی زندگی بڑی قابل رحم ہوگی
اس نے کہا تھا عورت کے ساتھ زندگی بسر کرنا ناممکن ہے، مگر عورت کے بغیر بھی زندگی نہیں گزاری جا سکتی
اس قول سے خیال آیا کہ سینکڑوں صدیاں پہلے ایک ہندو رشی نے جو تخلیق انسانی کی کہانی بنائی تھی، انسانی عقل و دانش ،اس کہانی سے ایک انچ اگے نہیں بڑھ پائی
چار ہزار برس پہلے ہندو رشی نے یہی بات کہانی کے قالب میں اس طرح پروئی تھی
خدا نے عورت کی تخلیق کے لیے پھولوں کی خوشبو، پرندوں کی چہچہاہٹ ،قوس قزہ کے رنگ ،موجوں کی مستی ،بادلوں کی آوارگی وغیرہ وغیرہ چیزوں کے خمیر سے عورت پیدا کی اور مرد کے حوالے کر دی تاکہ وہ اسے بیوی بنائے
آدم اپنی حوا کو پا کے بہت خوش ہوا
خوبصورت زمین پہ سیر کرنے نکل گئے
کچھ دن بعد آدم خدا کے حضور حاضر ہوا اور کہا کہ عورت مجھ سے لے لیں میں اس کے ساتھ نہیں رہ سکتا
خدا نے لے لی عورت واپس
چند دن گزرے آدم پھر حاضر ہوا کہ میں عورت کے بغیر نہیں رہ سکتا مجھے واپس عنایت کر دیں ،چند دنوں میں آدم بہت مغموم رہنے لگا تھا
خدا نے اس کی درخواست کو سنا ،اسے نمٹا دیا اور حوا اس کے حوالے کر دی
چنانچہ یہ واقعات متواتر تین چار بار ہوئے
آخر خدا نے آدم سے وعدہ لیا ہے کہ اب کی بار وہ اپنی بات سے نہیں پھرے گا اور کچھ بھی ہو جائے اس کے ساتھ نباہ کرے گا
مجھے لگتا ہے آج بھی وہی حال ہے جو چار ہزار سال پہلے کی اس کہانی میں بتایا گیا ہے
اور اس کیفیت میں کوئی خاص تبدیلی رونما نہیں ہوئی
لیکن اچھی بیوی کی تلاش اور اچھے شوہر کی تلاش پھر بھی جاری ہے
جو کہ ایک صعی لا حاصل کے سوا کچھ نہیں
لہذا اب میں یہی کہوں گا کہ
پاس کر یا برداشت کر