هفته,  05 اکتوبر 2024ء
حکومت کی عوام دوست پالیسیوں سے مہنگائی میں واضح کمی

وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہےکہ حکومت کی عوام دوست پالیسیوں کے نتیجے میں مہنگائی میں واضح کمی آئی ہے اور عوام دوست پالیسیوں کے نتیجے میں ملک میں معاشی استحکام آیا ہے۔ آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ سے پہلے پاکستان میں مہنگائی میں بڑی کمی سے ایک سال میں 38 سے 11.8 فیصد پرآگئی ہے۔دوسری طرف حکومت نے پیٹرول کی قیمت کی قیمتوں میں 15 روپے 39 پیسے اور ڈیزل کی قیمت میں 7 روپے 88 پیسے کمی کا فیصلہ کیا ہے۔

وزارت خزانہ آئندہ 15 روز کیلئے پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا نوٹیفکیشن جاری کرے گا۔ خیال رہے کہ 16 مئی کو بھی حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں 15 روپے سے زائدکی کمی کی تھی۔ ادارہ شماریات کے مطابق اپریل کے مقابلےمئی میں سی پی آئی افراط زر 11.76 فیصد ریکارڈ کیا گیا جب کہ اپریل میں سی پی آئی افراط زر 17.34 فیصد تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک سال میں بجلی 58.7 فیصد، ٹرانسپورٹ سروس 32.2، کاٹن ملبوسات 23.2 فیصد ، پیاز 86.6 فیصد، ٹماٹر 55.4 اور مصالہ جات 39.17 فیصد مہنگے ہوئے۔

دوسری جانب مئی میں ماہانہ بنیادوں پرمہنگائی میں3.24فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی اور مئی 2024 میں مہنگائی 11.76 فیصد پر آگئی، مئی میں شہروں میں مہنگائی میں 2.80 فیصد اور دیہات میں 3.89 فیصد کمی ہوئی جب کہ جولائی سے مئی تک مہنگائی کی شرح 24.52 فیصد رہی۔ ادارہ شماریات کے مطابق مئی میں ٹماٹر، پیاز 51 فیصد، چکن35.2 اورگندم 22.7 فیصد سستے ہوئے جب کہ مئی میں مائع ایندھن 9.4، بجلی چارجز 4.5، موٹر فیول 3.18 فیصد سستا ہوا ،اس کے علاوہ مئی میں آلو14.73،گوشت 4 فیصد اور لوبیا 3.9 فیصد مہنگا ہوا۔ ٹاپ لائن ایجنسی کا کہنا ہے کہ سخت مانیٹری اور مالیاتی پالیسیوں کی وجہ سےافراط زرمیں کمی ہوئی جب کہ ریکارڈ زرعی پیداوار اور مستحکم کرنسی بھی مدد گارثابت ہوئی، ہمیں یقین ہےکہ اسٹیٹ بینک جلد ہی شرح سود میں کمی کرے گا۔

ادھر عارف حبیب سکیورٹی نے مہنگائی کے اعدادو شمار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی کی شرح مئی میں 11.8 فیصد رہی، اپریل کے مقابلے مئی کی مہنگائی 3.2 فیصد کم رہی۔ عارف حبیب سکیورٹیز کے مطابق مہنگائی کم ہونے کی شرح مئی 1977 کے بعد کم ترین رہی، مئی 1977 میں مہنگائی میں ماہ در ماہ 4.58 فیصد کمی ہوئی تھی، پاکستان کی تاریخ میں یہ دوسری بڑی گراوٹ ہے۔ سکیورٹیز کا کہنا ہےکہ 10 جون کو شرح سود میں 2 فیصد کمی ہوسکتی ہے آئندہ مالی سال کیلئے وفاقی ترقیاتی بجٹ کی مد میں 1221 ارب روپے مختص کرنے کی عبوری منظوری دے دی گئی ہے۔ وزارت منصوبہ بندی کے اعلامیے کے مطابق پلان کوآرڈی نیشن کمیٹی کے سالانہ اجلاس میں مختلف وزارتوں اور ڈویژنوں کی طرف سے آئندہ مالی سال کیلئے 2800 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ مانگا گیا تھا۔ اعلامیے کے مطابق پی ایس ڈی پی، ایس آئی ایف سی اور قومی اقتصادی کونسل کی سفارشات اور ہدایات کی روشنی میں تیار کیا گیا ہے، پی ایس ڈی پی میں مالی مشکلات کے باعث اہم قومی نوعیت کے منصوبوں کو ترجیح دی گئی ہے۔دستاویز کے مطابق اجلاس میں توانائی کیلئے 378 ارب، ٹرانسپورٹ اینڈ کمیونیکیشن کیلئے 173 ارب، فزیکل پلاننگ اینڈ ہاؤسنگ کیلئے 42 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز پیش کی گئی۔اجلاس میں صحت کیلئے 17 ارب روپے اور ہائیر ایجوکیشن (ایچ ای سی) سمیت تعلیم کیلئے 32 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔اعلامیے کے مطابق خصوصی علاقوں، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کیلئے 51 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔

آئندہ مالی سال کیلئے معاشی شرح نمو کا ہدف 3.6 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی نے آئندہ مالی سال کیلئے معاشی شرح نمو کے ہدف کی منظوری دے دی ہے۔ اعلامیہ کے مطابق آئندہ مالی سال کیلئے معاشی شرح نمو کا ہدف 3.6 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ اعلامیہ کے مطابق زرعی شعبے کی ترقی کا ہدف 2 فیصد جبکہ صنعتی شعبے کی ترقی کا ہدف 4.4 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ پاکستان معاشی بحالی کے سفر پر گامزن، شرح نمو 3.5 فیصد تک بہتر ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ بڑی صنعتوں کی شرح نمو کا ہدف 3.5 فیصد اور خدمات کے شعبے کی ترقی کا ہدف 4.1 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ وزارت منصوبہ بندی کے اعلامیہ کے مطابق جی ڈی پی میں مجموعی سرمایہ کاری کا ہدف 14.2 فیصد جبکہ آئندہ مالی سال افراط زر کا اوسط ہدف 12 فیصد مقررکیا گیا ہے۔آئندہ مالی سال کیلئے معاشی شرح نمو کا ہدف 3.6 فیصد مقرر کردیا گیا ہے۔ سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی نے آئندہ مالی سال کیلئے معاشی شرح نمو کے ہدف کی منظوری دی ہے۔ اعلامیہ کے مطابق آئندہ مالی سال کیلئے معاشی شرح نمو کا ہدف 3.6 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔

زرعی شعبے کی ترقی کا ہدف 2 فیصد جبکہ صنعتی شعبے کی ترقی کا ہدف 4.4 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ پاکستان معاشی بحالی کے سفر پر گامزن، شرح نمو 3.5 فیصد تک بہتر ہوگئی اس کے علاوہ بڑی صنعتوں کی شرح نمو کا ہدف 3.5 فیصد اور خدمات کے شعبے کی ترقی کا ہدف 4.1 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ اعلامیہ کے مطابق جی ڈی پی میں مجموعی سرمایہ کاری کا ہدف 14.2 فیصد جبکہ آئندہ مالی سال افراط زر کا اوسط ہدف 12 فیصد مقررکیا گیا ہے۔دوسری طرف چیئرمین ایف بی آر امجد زبیر ٹوانہ نے کہا ہے کہ آئندہ مالی سال ایف بی آر کا ٹیکس ٹارگٹ ساڑھے 12 ہزار ارب روپے سے زائد ہو سکتا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین نے کہا کہ ٹیکس ہدف اور ٹیکس کلیکشن کیلئے مختلف تجاویز زیر غور ہیں، کوشش کر رہے ہیں کہ رواں مالی سال کا ٹیکس ہدف مکمل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال ایف بی آر کا ٹیکس ٹارگٹ ساڑھے 12 ہزار ارب روپے سے زائد ہو سکتا ہے جب کہ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، ٹریک اینڈ ٹریس کا دائرہ کار مزید وسیع کرنے کیلئے بھی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھاکہ نان فائلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے فنانس بل میں اقدامات کیےجائیں گے، یہ غور کرنا چاہیے کہ وزارت خزانہ نے رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ کے اعداد و شمار جاری کر دئیے۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں بجٹ کا 64 فیصد قرض کی ادائیگی پر خرچ ہوا، قرض کی ادائیگی پر اخراجات بڑھنے کی وجہ بلند شرح سود ہے، صرف سود کی ادائیگی پر 4.2 کھرب روپے خرچ ہوئے، گزشتہ مالی سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران سود کی ادائیگی پر 2.6 کھرب روپے خرچ ہوئے تھے، گزشتہ سال کے مقابلے میں اسی عرصے میں قرض کی ادائیگی پر 65 فیصد زیادہ خرچ ہوئے، سول حکومت اور دفاعی امور کے لئے مختص بجٹ کا 42 فیصد خرچ ہوا۔ اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ وزارت خزانہ نے رواں مالی سال میں قرض اور سود کی ادائیگی کیلئے 7.3 کھرب روپے رکھے ہیں، قرض اور سود کی ادائیگی پر بجٹ کا 58 فیصد مختص ہے، مجموعی طور پر مقامی اور بین الاقوامی قرض کا 80 فیصد سود کی ادائیگی پر خرچ ہوا۔رپورٹ کے مطابق مالی سال کے پہلے 6 ماہ کے دوران مقامی قرض کی ادائیگی پر 3.72 کھرب اور بیرونی قرض کی ادائیگی پر 502 ارب روپے خرچ ہوئے، ترقیاتی پروگرام کے لیے مختص 950 ارب میں سے صرف 158 ارب روپے خرچ ہوئے، حکومت کو مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں ترقیاتی پروگرام پر 50 فیصد خرچ کرنا ہوتا ہے۔

مالی سال کے پہلے 6 ماہ کے دوران وفاقی حکومت کا مالی خسارہ 2.7 کھرب یا جی ڈی پی کے 2.5 فیصد کے برابر ہوگیا جو گزشتہ مالی سال کے پہلے 6 میں 1.78 کھرب یا جی ڈی پی کا 2.1 فیصد تھا۔ اعداد و شمار کے مطابق صوبوں کا کیش سرپلس 289 ارب روپے رہا جو گزشتہ سال 101 ارب روپے تھا، وفاقی حکومت کا مجموعی خسارہ جی ڈی پی کا 2.3 فیصد رہا، وفاقی حکومت کا مجموعی خسارہ گزشتہ سال اسی عرصے میں 2 فیصد تھا۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ مالی خسارے کا 77 فیصد مقامی ذرائع سے پورا کیا گیا، جولائی سے دسمبر 2023کے دوران وصولیوں میں 63 فیصد اضافہ ہوا، ٹیکس سے آمدن میں 30 فیصد اور نان ٹیکس آمدن میں 117 فیصد اضافہ ہوا، پہلے 6 ماہ میں پاکستان کی مجموعی آمدن 4 کھرب سے زیادہ رہیں، گزشتہ برس اسی عرصے کے دوران پاکستان کی مجموعی آمدن 2.5 کھرب روپے تھی۔ اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران پرائمری سرپلس 1.8 کھرب روپے رہا، ایف بی آر کی آمدن 30 فیصد اضافے سے 4.5 کھرب روپے رہی۔ مزید برآں، نئی حکومت کا پہلا بجٹ ملک معاشی حالات میں ایک بڑا چیلنج ہے,نئے مالی سال کا وفاقی بجٹ 10جون کو پیش کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔ وزارت خزانہ بجٹ تیاریوں کو حتمی شکل دے رہی ہے اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب 10 جون کو بجٹ پیش کریں گےبجٹ میں آئی ایم ایف شرائط کو شامل کیا جا رہا ہے۔ وفاقی حکومت آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ پیش کرنے والی ہے آئی ایم ایف کے مطالبے پر بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے حکومت کو کئی شعبوں میں ٹیکس چھوٹ مکمل طور پر ختم کرنا ہوگی۔ بجٹ کی تیاری ایسے وقت میں کی جارہی ہے جب حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (ائی ایم ایف) کے ایک اور پروگرام میں جانے کے لیے مذاکرات کررہی ہے۔حکومت کو ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس سے لوگوں کو سہولتیں ملیں لیکن دوسری جانب امیروں پر ٹیکس کے لیے سخت اقدامات کرنا اب ناگزیر ہوچکا ہے۔حکومت اپنے معاشی اہداف پورا کرنا چاہتی ہے تو زرعی آمدن، تجارت، کاروبار، رئیل اسٹیٹ، ڈیری فارمنگ، اور دیگر شعبوں سے وابستہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا۔ اور ان سے ان کی آمدن کے حساب سے ٹیکس اکٹھا کرنا ہوگا۔آئی ایم ایف پروگرام میں مزید پیش رفت کو قانون سازی اور پارلیمنٹ سے کئی اقدامات کی منظوری سے بھی جوڑا گیا ہے۔ ان اقدامات میں توانائی، پینشن، سرکاری کاروباری اداروں میں اصلاحات کے نفاذ، بجلی گیس کے نرخ، پیٹرولیم مصنوعات پر کاربن ٹیکس کے نفاذ اور ٹیکس سے متعلق اصلاحات شامل ہیں۔ حکومت نے توانائی کے شعبے میں گردشی قرضے کم کرنے کے اپنے منصوبے سے اور حکومت عملی سے عالمی مالیاتی ادارے کو آگاہ کیا ہے۔اعداد و شمار کے مطابق اس وقت صرف توانائی سیکٹر میں خسارہ 2400 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے اور رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ میں اس میں 325 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔حکومت کو آئی ایم ایف کے مطالبے پر پاکستان کے بجٹ خسارے اور آمدن بڑھانے کے لیے ٹیکس میں اضافے کے لیے مختلف اقدامات کرنا ہوں گے۔ ماہرین کے مطابق ان اقدامات کے نتیجے میں کئی ٹیکسز میں اضافہ اور بعض نئے ٹیکس لگنے کا بھی امکان ہے۔

آٹو سیکٹر میں ایڈوانس ٹیکس کے نفاذ کی تجویز سامنے آئی ہے جس کے تحت گاڑی کی مالیت پر 10 فی صد نیا ٹیکس عائد کیا جارہا ہے۔اسی طرح دو ہزار سی سی سے زائد کی گاڑیوں پر پہلے سے موجود سالانہ ایڈوانس ٹیکس فائلرز کے لیے پانچ لاکھ روپے کیا جارہا ہے جب کہ نان فائلرز کے لیے یہ ٹیکس 24 فی صد مقرر کرنے کی تجویز سامنے آئی ہے۔ اس عمل سے حکومتی ریونیو میں تو اضافہ ہوگا مگر اس سے ملک میں گاڑیوں کی فروخت مزید کم ہو جائے گی۔

اس کے علاوہ کریڈٹ کارڈز پر بیرونی ادائیگیوں پر نان فائلرز کے لئے 20 فی صد ٹیکس عائد کیا جارہا ہے جو کہ اچھی تجویز ہے اور اس سے نان فائلرز کی بیرونی اخراجات کی حوصلہ شکنی ہو گی۔دوسری جانب کریڈٹ کارڈز سے بیرونی ادائیگیاں کرنے والے فائلرز کے لیے ایڈوانس ٹیکس ختم کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی ہے۔
ایسا کرنے سے زرمبادلہ کے آوٹ فلو میں اضافہ ہوسکتا ہے۔یہ یاد رکھیں کہ اسی طرح اگر آپ ملک سے باہر بزنس کلاس میں سفر کررہے ہوں گے تو آپ کو فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے بجائے اب فکس ٹیکس دینا ہوگا جو روٹس کی مناسبت سے طے کیا جائے گا۔اس پر کم سے کم ٹیکس 75 ہزار روپے سے ڈھائی لاکھ روپے تک رکھنے کی تجویز ہے۔

اسی طرح ایک تجویز کے مطابق بینکوں سے کیش نکالنے پر نان فائلرز کے لیے ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا جارہا ہے اور اب اس کے لئے نئی شرح اعشاریہ نو فیصد مقرر کی جارہی ہے۔ جو پہلے اعشاریہ چھ فی صد تھی۔ اس سے نہ صرف حکومت کے محصولات میں اضافہ ہو گا وہیں نان فائلرز کو فائلرز بننے کی ترغیب ملے گی اور کیش پر کاروبار کی حوصلہ شکنی ہوگی۔وفاقی حکومت نے زرعی آمدنی، نان کارپوریٹ کاروبار، سروس پروائڈرز بلڈرز اور کنسٹرکشن فرمزپر بھی ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اسی طرح ایک اور تجویز کے تحت بجلی کے دو لاکھ سے زائد والے بلز پر نان فائلرز صارفین کے لیے ایڈوانس انکم ٹیکس کی شرح 20 فی صد تک کی جارہی ہے۔دوسری جانب حکومت نے بجلی اور گیس کے ایسے نان فائلرز صارفین پر بھی ٹیکس کی شرح 30 فی صد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کمرشل اور انڈسٹریل کنکشنز رکھتے ہیں۔ ایسا کرنے سے حکومت کے محصولات میں اضافہ ہےبجٹ کے لیے سیلز ٹیکس کے ساتھ ایکسٹرا سیلز ٹیکس نافذ کرنے کی تجویز بھی زیرِ غور ہے۔شادی ہالز کا بل دو لاکھ روپے سے زائد ہونے کی صورت میں 25 فی صد میرج ہالز ٹیکس بھی لینے کی تجویز بھی زیرِ غور ہے۔ اس عمل سے حکومتی ریونیوز میں تو خاطر خواہ اضافہ ہوگا لیکن اس سے مہنگائی بھی بڑے گی,پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات پر پیٹرولیم لیوی کے ساتھ اب حکومت نے ایک بارپھر 18 فی صد جنرل سیلز ٹیکس لاگو کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔

اس عمل سے جہاں مہنگائی بڑھے گی وہیں پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت میں بھی خاطر خواہ کمی ہوسکتی ہے۔حکومت نے اپنی آمدن بڑھانے کے لیے اس بار ادویات پر بھی 10 سے 18 فی صد جنرل سیلز ٹیکس نافذ کرنے کی تیاری کررہی ہے۔ رئیل اسٹیٹ کے شعبے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے حکومت کئی تجاویز پر سوچ بچار کررہی ہے۔ زرعی زمین اور پراپرٹی پر اعشاریہ پانچ فی صد ود ہولڈنگ ٹیکس نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور شہری علاقوں میں 450 گز سے زائد کی پراپرٹی فروخت کرنے پر نان فائلرز کو ساڑھے 10 فی صد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔تاہم سریے کی فروخت پر عائد ٹیکس چار فی صد ٹیکس ختم کیا جارہا ہے۔ ٹیکس تجاویز سے اندازہ ہوتا ہے کہ آئی ایم کی شرائط پوری کرنے کے لیے حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ اپنے محصولات بڑھائے اور قرضوں پر انحصار کم کرے۔ لیکن اس کے لیے حکومت کا انحصار ایک بار پھر براہ راست ٹیکس کے بجائے بالواسطہ ٹیکس پر زیادہ نظر آتا ہے۔ آئندہ مالی سال 2024-25 کے لیے مجموعی طور پر وفاق اور صوبوں کا ترقیاتی بجٹ 2709 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے

مزید خبریں