جمعرات,  11  ستمبر 2025ء
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے گرین بجٹ وقت کی ضرورت

پاکستان کے معاشی استحکام کو موسمیاتی خطرات سے بڑا کوئی خطرہ نہیں ہے۔پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے گرین بجٹ وقت کی ضرورت ہے,پاکستان کے ماحولیاتی استحکام کے لیے کئی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جو اقتصادی استحکام میں بھی معاون ثابت ہوں گے۔ پاکستان ماحولیاتی خطرات کا شکارپانچواں ملک ہے، پاکستان کو آفات کے خطرے کا بھی سامنا ہے۔گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق قدرتی آفات کے خطرے پر 194 ممالک میں پاکستان 23 ویں نمبر پر ہے۔

موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اعدادوشمارخطرناک ہیں، اعداد وشمار موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب بننے میں بنیادی شراکت دار نہیں، اس کے باوجود موسمیاتی تبدیلی نتائج کو تسلیم کرنا اور ان کا مقابلہ کرنا ناگزیرہے، 2022کا سیلاب موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا پریشان کن ثبوت ہے۔آئی ایم ایف نے اپنے قرضے میں معاشی استحکام کو موسمیاتی تبدیلی سے جوڑنے کے لیے کئی پالیسیاں نافذ کی ہیں ,اقوام متحدہ کے موسمیاتی ادارے , ڈبلیو ایم او کا کہنا ہے کہ ”دنیا بھر کے لوگ شدید موسم اور موسمیاتی حادثات سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔” ڈبلیو ایم او کا کہنا ہے کہ متواتر موسمیاتی تبدیلی کے باعث گزشتہ برس دنیا بھر میں پہلے سے زیادہ خشک سالی، سیلاب اور شدید گرمی کی لہریں دیکھنے میں آئیں جس سے لوگوں کی زندگیوں اور روزگار کے لئے خطرات بڑھ گئے۔عالمگیر موسمیاتی صورتحال سے متعلق ڈبلیو ایم او کی تازہ ترین رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ آٹھ برس تاریخ کے گرم ترین سال تھے جب سطح سمندر میں اضافے اور سمندری حدت نے نئی بلندیوں کو چھوا۔

ماحول میں بہت بڑی مقدار میں پائی جانے والی گرین ہاؤس گیسوں کے باعث پورے کرہ ارض پر زمین، سمندروں اور فضا میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ادارے کا کہنا ہے کہ اس سال ‘دھرتی ماں کے دن’ سے پہلے جاری ہونے والی یہ رپورٹ عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس تک محدود رکھنے کے لیے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بڑے پیمانے پر اور تیز تر کمی لانے کے لئے اقوام متحدہ کی پکار کا اعادہ کرتی ہے۔علاوہ ازیں یہ رپورٹ خاص طور پر اُن انتہائی غیرمحفوظ ممالک اور علاقوں کو موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے اور اس کے خلاف خود کو مستحکم بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے لیے بھی کہتی ہے جن کا اس تبدیلی میں بہت کم کردار ہے۔ڈبلیو ایم او کے سیکرٹری جنرل پروفیسر پیٹری ٹالس نے کہا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے بڑھتے ہوئے اخراج اور تبدیل ہوتے موسم میں ”دنیا بھر کے لوگ شدید موسم اور موسمیاتی حادثات سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔”انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس ”مشرقی افریقہ میں متواتر خشک سالی، پاکستان میں ریکارڈ توڑ بارشوں اور چین اور یورپ میں اب تک آنے والی گرمی کی شدید ترین لہروں جیسے موسمی واقعات نے کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا۔ ان واقعات کے باعث غذائی عدم تحفظ میں اضافہ ہوا، بڑے پیمانے پر لوگوں نے نقل مکانی کی اور اربوں ڈالر کا نقصان اور تباہی ہوئی۔ڈبلیو ایم او نے انسانوں پر شدید موسم کے اثرات کو محدود رکھنے میں مدد دینے کے لئے موسمیاتی نگرانی اور ایسے واقعات کے بارے میں بروقت انتباہ کے نظام بنانے پر سرمایہ کاری کی اہمیت واضح کی ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس وقت ترقی یافتہ ٹیکنالوجی نے قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کے عمل کو ”سستا اور پہلے سے کہیں زیادہ قابل رسائی بنا دیا ہے۔”رپورٹ کے مطابق ”گلیشیئروں کے پگھلنے اور سطح سمندر میں اضافے کا عمل ہزاروں سال تک جاری رہے گا جو 2022 میں دوبارہ ریکارڈ سطح پر جا پہنچا تھا۔ ڈبلیو ایم او کا مزید کہنا ہے کہ ”بحر منجمد جنوبی میں برف کی تہہ میں تاریخی کمی آئی اور یورپ میں بعض گلیشیئروں کا پگھلنا واقعتاً غیرمتوقع تھا۔” گرین لینڈ اور انٹارکٹکا میں گلیشیئروں اور برفانی تہہ کے پگھلنے کے علاوہ گرمی کے سبب سمندری حجم بڑھنے سے بھی سطح سمندر میں اضافہ ہوا جس سے ساحلی علاقوں اور بعض صورتوں میں پورے ممالک کے وجود کو خطرات لاحق ہیں۔ رپورٹ میں شدید موسمی حالات کے بہت سے سماجی۔معاشی اثرات کا جائزہ بھی لیا گیا ہے جس نے دنیا بھر میں غیرمحفوظ ترین لوگوں کی زندگیوں کو غارت کر دیا ہے۔ مشرقی افریقہ میں مسلسل پانچ سالہ خشک سالی اور مسلح تنازعات جیسے دیگر عوامل کے سبب خطے بھر میں 20 ملین لوگ تباہ کن غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔

جولائی 2022 کے دوران پاکستان میں آنے والے بہت بڑے سیلاب میں 1,700 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے جبکہ اس آفت نے مجموعی طور پر 33 ملین لوگوں کو متاثر کیا۔ سیلاب سے مجموعی طو رپر 30 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا اور اکتوبر 2022 تک 8 ملین لوگ اندرون ملک بے گھر ہو چکے تھے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سال بھر خطرناک موسمی حالات نے بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کرنے کے علاوہ پہلے ہی بے گھری کی زندگی گزارنے والے 95 ملین لوگوں میں سے بڑی تعداد کے لیے حالات بدترین بنا دیے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ‘ارتھ ڈے’ پر اپنے پیغام میں خبردار کیا تھا کہ ”حیاتیاتی تنوع کا خاتمہ ہو رہا ہے اور دس لاکھ انواع معدومیت کے دھانے پر ہیں۔ انہوں ںے دنیا سے کہا تھا کہ ”فطرت کے خلاف یہ مسلسل اور غیرمعقول جنگ” بند کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”ہمارے پاس موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے ذرائع، علم اور طریقہ ہائے کار موجود ہیں۔”انتونیو گوتیرش نے اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام، نجی شعبے اور سول سوسائٹی کے رہنماؤں پر مشتمل ایک مشاورتی پینل کا اجلاس منعقد کیا تھا جس کا مقصد 2027 تک تمام ممالک کو شدید موسمی واقعات سے بروقت آگاہی کے نظام کے ذریعے تحفظ دینے کی غرض سے ایک عالمگیر اقدام کی رفتار تیز کرنا تھا۔اس موقع پر ابتداً 30 ایسے ممالک میں ایک تیزرفتار مربوط اقدام کا اعلان کیا گیا تھا جو شدید موسم کے مقابل خاص طور پر غیرمحفوظ ہیں۔ ان میں چھوٹے جزائر پر مشتمل ترقی پذیر ممالک اور کم ترین ترقی یافتہ ملک شامل ہیں۔

پاکستان کے ساتھ 2021 کے آرٹیکل IV مشاورت کے دوران موسمیاتی تبدیلی پر تبادلہ خیال کیا گیا جس کے تحت، پہلی بار، آئی ایم ایف کی نگرانی کی سرگرمیوں کے لیے ماحولیاتی تبدیلی کو ترجیحی طور پر شناخت کیا گیا۔عالمی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف نے حکومتِ پاکستان سے کہا ہے کہ مالی آئندہ بجٹ منصوبہ بندی کے طریقہ کار اور موسمیاتی موافقت پر مبنی سرمایہ کاری کے لیے عملی طور پر ایک اہم موڑ ثابت ہونا چاہیے پاکستان کے معاشی استحکام کو موسمیاتی خطرات سے خطرہ ہے۔ پاکستان 30 بلین ڈالرکی لاگت کے سیلاب سے متاثر ہوا سیلاب نےپاکستان کو معاشی ترقی کی پٹڑی سے اتار دیا۔ آئی ایم ایف نے اپنے تمام قرض دینے کے کاموں میں موسمیاتی کے خطرات کو ایک ٹچ اسٹون کے طور پر مربوط کر لیا ہے۔ ایس بی اے کی اہم شرائط میں توانائی پر بھاری سبسڈی ختم کرنا، عوامی قرضوں کی پائیداری کو مضبوط کرنا، مارکیٹ پر مبنی شرح مبادلہ کے نظام کو نافذ کرنا، ٹیکس ریونیو میں اضافہ، گورننس کو بہتر بنانا اور بدعنوانی کو کم کرنا، توانائی کے شعبے میں اصلاحات اور آخر کار، ماحولیاتی لچک شامل ہیں۔ یہ یاد رکھیں کہ آئی ایم ایف نےماحولیاتی تبدیلی سے متعلق فنانسنگ کو راغب کرنے کے لیےبجٹ میں حکومت کو تکنیکی مشورے دیتے ہوئے کہا ہےکہ ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق اقدامات میں شفافیت کی ضرورت ہے، جن کے اثرات پالیسی سازی اور موسمیاتی فنانسنگ پر ہوں ۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کے مستقبل کو ایک پائیدار مستقبل کے خاکے کے ساتھ ہم آہنگ کر رہا ہے، جو وزارت موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ کاری نے پیش کیا۔

آئی ایم ایف نے وزارت خزانہ اور وزارت منصوبہ بندی بجٹ بنانے والے 2 بڑے اسٹیک ہولڈرز سے کہا ہے کہ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام اور وسیع تر عوامی سرمایہ کاری پروگرام کے اہم پہلوؤں کے بارے میں بجٹ دستاویزات میں معلومات شامل کرکے شفافیت کو بہتر بنائیں کیونکہ بجٹ میں ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق اقدامات کے اثرات کے بارے میں ناکافی معلومات ہے۔ منصوبہ بندی کمیشن کو فنانس ڈویژن کے ساتھ مل کر قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی سے منظوری کے لیے ایک تجویز تیار کرنی چاہیے اس طریقہ کار پر ایک معاہدہ طے پا جانا چاہیے تاکہ 25-2024 کے بجٹ دستاویزات میں اسے شامل کیا جا سکے۔آئی ایم ایف نے فنانس ڈویژن کو مالی سال کے لیے موسمیاتی اخراجات سے متعلق معلومات شائع کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ بجٹ ٹریکنگ اور موسمیاتی اخراجات سے متعلق معلومات کو بجٹ میں شائع کرنے سمیت گرین بجٹ پر کام کو آگے بڑھائیں۔آئی ایم ایف نے وزارت خزانہ سے بھی کہا کہ وہ مالی سال 25-2024 کے لیے بجٹ کال سرکلرز میں متعلقہ وزارتوں کو مزید رہنمائی فراہم کرنے کے لیے عمومی طور پر موجودہ ٹریکنگ مشق تیار کرے اور بتدریج ریونیو کے اقدامات تک ٹریکنگ کو بڑھائیں اور کنٹرولر جنرل آف اکاؤنٹس کے تعاون سے گرین ٹریکنگ سسٹم کو تمام صوبوں تک پھیلائیں۔ وزارت خزانہ کے اکنامک ایڈوائزر ونگ کو لازمی طور پر موسمیاتی تبدیلی کے مختلف منظرناموں کی صورت میں مالیاتی خطرات کے حوالے سے طویل مدتی مالیاتی پائیداری پر تجزیاتی رپورٹ شائع کرنی چاہیے۔ یہ کہ آئی ایم ایف کے جاری 3 ارب ڈالر پروگرام کے تحت موسمیاتی سرکاری سرمایہ کاری منصوبے کے حوالے سے مخصوص اسٹرکچرل بینچ مارک ہے جسے حکام کو مکمل کرنا ہے، جس میں کابینہ سے ’نیو پبلک انویسٹمنٹ منیجمنٹ اسیسمنٹ‘ کی منظوری بھی شامل ہے۔

یاد رکھیں کہ7 نومبر 2019 دنیا کے 153 ممالک کے 11 ہزار سائنسدانوں نے موسمیاتی تبدیلیوں کو ایمرجنسی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر طرز زندگی کو بڑے پیمانے پر بدلا نہیں گیا تو انسانوں کے لیے نامعلوم مشکلات سے بچنا ناممکن ہوجائے گا۔ سائنسدانوں نے ایک خط میں یہ بات کہی جو موسمیاتی سائنس پر مبنی تھا، جس کی تشکیل 1979 میں پہلی عالمی موسمیاتی کانفرنس میں رکھی گئی تھی، دہائیوں سے متعدد عالمی ادارے اس بات پر زور دے چکے ہی ںکہ گرین ہاﺅس گیز کے اخراج کی شرح میں کمی لانے کی ضرورت ہے۔ خط میں اوریگن اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر ولیم ریپل نے لکھا تھا کہ 40 برسوں سے عالمی سطح پر مذاکرات کے باوجود حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور ہم اس بحران پر قابو پانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی رفتار بیشتر سائنسدانوں کے خیالات سے زیادہ تیز ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ ان کا اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ انسانیت کو ہر طرح کے تباہ کن خطرے سے آگاہ کریں اور اس وقت سیارہ زمین کو موسمیاتی ایمرجنسی کا سامنا ہے۔ بتایا گیا کہ کچھ مثبت اعشاریے بھی سامنے آئے ہیں جیسے شرح پیدائش میں کمی اور متبادل توانائی کے استعمال میں اضافہ، مگر زیادہ تر اعدادوشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان بہت تیزی سے غلط سمت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں گوشت کے استعمال کی شرح میں اضافہ، زیادہ ہوائی سفر، جنگلات کی تیزی سے کٹائی اور عالمی سطح پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں اضافے جیسے اقدامات موسمیاتی تبدیلیوں کی رفتار میں اضافہ کررہے ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ اس بحران کی شدت کو سمجھیں، پیشرفت پر نظر رکھیں اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ترجیحات طے کریں، اس مقصد کے لیے عالمی سطح پر بڑے پیمانے پر معاشرتی تبدیلیوں کی ضرورت ہے جبکہ قدرتی نظام کو اپنانا ہوگا۔ خط میں 6 بنیادی نکات پر زور دیا گیا تھا یعنی روایتی ایندھن کو بدل دینا، میتھین اور دیگر آلودگی کی روک تھام، ماحولیاتی نظام کی بحالی اور تحفظ، کم گوشت کھانا، کاربن فری معیشت کو اپنانا اور آبادی کی نشوونما کو مستحکم رکھناہے ۔

پاکستان کے ساتھ 2021 کے آرٹیکل موسمیاتی بحران آئی ایم ایف کی نگرانی ترجیحی علاقے کے طور پر شناخت کیا گیا ہے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیےکافی تیزی سے آگے بڑھے اکتوبر 2019 میں عہدہ سنبھالنے کے بعد کرسٹالینا جارجیوا نے فنڈ کے کام کے لیے موسمیاتی تبدیلی کی مرکزیت کو تسلیم کیا کہ مالیاتی استحکام کے لیے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹ کے پائیدار ترقی حاصل کر سکتے ہیں، واضح ہےکہ کوئی ادارہ کام کرنے کی ذمہ داری سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ اس کے بعد اپریل 2022 میں آئی ایم ایف کے قرض دینے والے ٹول کٹ کے ایک ستون کے طور پر لچک اور پائیداری کا ٹرسٹ قائم کیا گیا۔ آر ایس ٹی پاکستان جیسے کمزور درمیانی آمدنی والے ممالک کو طویل المدت آب و ہوا اور دیگر خطرات سے نمٹنے کے لیے طویل مدتی رعایتی مالی امداد فراہم کرتا ہے۔ غالباً اسی ونڈو کے ذریعے ہی آئی ایم ایف نے خوفناک سیلاب کے بعد 1 بلین ڈالر کے اجراء کو تیزی سے آگے بڑھایا ہےآئی ایم ایف نے مستقل طور پر موسمیاتی خطرات کو اپنے قرض دینے کے تحفظات کے ایک لازمی حصے کے طور پر اٹھایا ہے۔اگرچہ پاکستان جیسے ممالک نے اپنی پالیسیوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کو شامل کرنے میں سست روی کا مظاہرہ کیا، لیکن آئی ایم ایف نے اپنے قرضے کے تحفظات کے ایک لازمی حصے کے طور پر موسمیاتی خطرات کو مستقل طور پر اٹھایا ہے۔

آئی ایم ایف کے لیے، آب و ہوا کے خطرات بہت اہم ہو گئے ہیں جو میکرو اکنامک اور مالیاتی استحکام کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ قرضے کے فریم ورک میں موسمیاتی خطرات کو ضم کرکے، آئی ایم ایف نے کمزور ممالک اور معیشتوں میں خطرے سے منظم طریقے سے نمٹنا شروع کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف اب موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنے مینڈیٹ کی وجہ سے مشکل سے مجبور ہے۔پاکستان، اور کئی دوسرے ممالک کے لیے، یہ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف جنگ میں ایک اہم ادارہ بننے کے لیے تیار ہے، خاص طور پر جب سے آئی ایم ایف نے اپنے مینڈیٹ کے تینوں بڑے ستونوں کو دوبارہ ترتیب دیا ہے۔سب سے پہلےآئی ایم ایف کی طرف سےمشاورت ملکی سطح کے جائزوں کی ایک باقاعدہ خصوصیت ہے۔ ماضی میں صرف مالیاتی، مالیاتی اور شرح مبادلہ کی پالیسیوں کا احاطہ کیا تھا لیکن اب اس نے موسمیاتی جھٹکوں کے میکرو مالیاتی خطرات اور میکرو اکنامک استحکام کے لیے موسمیاتی اثرات کا اندازہ لگانے کے لیے ٹولز تیار کیے ہیں۔درج ذیل موسمیاتی بحران کے تین خطرات کااحاطہ کیا گیا , جسمانی خطرات جیسے آب و ہوا سے پیدا ہونے والی آفات اور انفراسٹرکچر پر ان کے اثرات، منتقلی کے خطرات، جیسے تخفیف اور موافقت سے متعلق پالیسی تبدیلیاں جو اقتصادی شعبوں کو متاثر کر سکتی ہیں خاص طور پر فوسل فیول انڈسٹریز، قابل تجدید ذرائع، اور نقل و حمل، اور مالیاتی خطرات جیسے کہ مالیاتی اداروں اور سرمایہ کاروں کا آب و ہوا سے متعلق خطرات کا سامنا ہیں۔اس کے ساتھ آئی ایم ایف نے کاربن ٹریڈنگ اور آب و ہوا کے لیے قرض کی تبدیلی کے لیے کاربن کی قیمتوں میں گہری دلچسپی لینا شروع کر دی ہے۔

آئی ایم ایف نے پیرس معاہدے کی تکمیل کے لیے بین الاقوامی کاربن کی قیمت کے فرش انتظام کی تجویز بھی پیش کی ہے۔ دوسرا مالیاتی شعبے کی تشخیص آئی ایم ایف کو ممکنہ کمزوریوں اور خطرات کی نشاندہی کرنے اور باخبر پالیسی فیصلے کرنے میں مدد کرتی ہے۔ یہ 1999 سے عالمی بینک کے ساتھ مشترکہ طور پر کسی ملک کے مالیاتی شعبے کے استحکام اور تندرستی کا اندازہ لگانے کے لیے استعمال ہونے والا ٹول ہے۔ایف ایس اے اب آب و ہوا سے متعلق مالی استحکام کے چیلنجوں کو مربوط کرتا ہے۔ اپنی پالیسی مداخلتوں کو مزید مضبوط بنانے کے لیے، آئی ایم ایف اب نیٹ ورک فار گریننگ دی فنانشل سسٹم میں پہلے سے زیادہ فعال ہے، 114 مرکزی بینکوں کا ایک نیٹ ورک جس کا مقصد گرین فنانس کی سکیلنگ کو تیز کرنا ہے۔یہ مرکزی بینکوں کے لیے موسمیاتی سمارٹ کردار کے لیے سفارشات تیار کرتا ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان بھی اس کا ایک رکن ہے، اور حالیہ برسوں میں، اس نے گرین بینکنگ کو فروغ دینے اور اپنی پالیسیوں کو عالمی پائیدار مالیاتی پالیسیوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ تیسرا، چونکہ آئی ایم ایف ایک ڈیٹا پر مبنی ادارہ ہے جیسا کہ کوئی اور نہیں، اس نےآئی ایم ایف کے فلیگ شپ کلائمیٹ چینج انڈیکیٹرز ڈیش بورڈ کے لیے اپنے ڈیٹا سیٹس کو اکٹھا کرنا شروع کیا ہے، جس سے میکرو اکنامک اور مالیاتی پالیسی کے تجزیے کے لیے درکار آب و ہوا سے متعلق ڈیٹا کو اکٹھا کیا جا رہا ہے۔آئی ایم ایف موسمیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اپنے اراکین کی مدد کے لیے آب و ہوا سے متعلق ڈیٹا سیٹس کا استعمال کرتا ہے جس کے لیے مالیاتی اور میکرو اکنامک پالیسیاں مناسب پالیسی ردعمل کا ایک اہم جزو ہیں۔ ڈیٹا سیٹس کا استعمال ماحولیاتی خطرات کو سنبھالنے کے لیے بھی کیا جاتا ہے تاکہ ترقی، روزگار، افراط زر، ادائیگیوں کے توازن، اور مالیاتی خسارے کو کاربن کی شدت اور موسمیاتی جھٹکوں کے خطرے سے متعلق اس کے میکرو ڈیٹا کو مربوط کیا جا سکے۔

کاربن کی شدت خاص سرگرمیوں یا مصنوعات سے وابستہ اخراج کی مقدار کا ایک پیمانہ ہے، بشمول اس کے قرضوں کے کاربن فوٹ پرنٹ، کاربن ٹیکس، اخراج-تجارتی نظام، یا ایندھن کے ایکسائز ٹیکس۔ اس طرح پاکستان میں پالیسی سازوں کے لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ وہ واضح طور پر آئی ایم ایف کو مسلسل بنیادوں پر اصلاحات کے لیے منطق سے آگاہ کریں۔مجموعی طور پر، آب و ہوا کی لچک اور اقتصادی استحکام مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں۔ واضح طور پر وہ ممالک جو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے زیادہ لچکدار ہیں، ان کی مستحکم معیشتوں کے امکانات زیادہ ہیں۔

مزید خبریں