….علامہ سید محسن علی….اسلامی بینکاری ایران، سعودی عرب، ملائیشیا، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر، ترکیہ، بنگلہ دیش انڈونیشیا، بحرین سمیت پاکستان میں تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ مسلم ملکوں کے علاوہ مغربی ممالک جہاں روایتی بینکاری قائم ہے وہاں بھی اسلامی بینکاری کو فروغ دیا جارہا ہے۔ امریکا، برطانیہ، فرانس، سوئٹزرلینڈ کے علاوہ چین اور جاپان سمیت دنیا کے 80 سے زائد ملکوں میں اسلاممی بینکاری اجازت دی گئی ہے وہاں پر اسلامی مالیاتی ادارے بھی تیزی سے فروغ پارہے ہیں۔ عالمی معیشت کو کنٹرول کرنے والے کثیر ملکی مالیاتی ادارے عالمی بینک، عالمی مالیاتی فنڈ، ایشیائی ترقیاتی فنڈ اور دیگر ادارے بھی اسلامی فنانسنگ کو فروغ دے رہے ہیں۔ مغربی مارکیٹوں میں اسلامی بانڈز یعنی سکوک تیزی سے مقبول ہورہے ہیں اور خود پاکستان نے سکوک کے ذریعے عالمی منڈی سے قرض لیا
مالیاتی اور معاشی بحرانوں سے تنگ سیاستدان، بینکار، صنعت کار، تاجر اور عوام میں متبادل معاشی نظام کی طرف رغبت بڑھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر تیزی سے اسلامی بینکاری یا سود سے پاک بینکاری کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جب سے سودی نظام نے دنیا کی معیشت کو سنبھالا ، تب سے معاشی طور پر دنیا میں متعدد مقامی اور عالمی نوعیت کے مالیاتی, معاشی,اقتصادی بحرانوں کا سامنا ہوا ہے۔
اسلامک بینک کی پروڈکٹس دو طرح کی ہو تی ہیں ایک میں پیسہ کو جمع کیاجاتا ہے جس کو عام اصطلاح میں ڈپوزٹ کہا جاتا ہے اور دوسرے میں فنانسنگ کی جاتی ہے
عالمی سطح پر اسلامی مالیاتی صنعت کا مجموعی حجم 2.2 ہزار ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے اور تیزی سے مغربی بینکوں کے اسلامی فائنانس کو اپنانے کا رجحان دیکھتے ہوئے اب یہ کہا جارہا ہے کہ سال 2025 کے اختتام تک اسلامی مالیاتی صنعت 4.94 ہزار ارب ڈالر کی ہوجائے گی۔ مگر روایتی بینکاری کے مقابلے میں یہ اعدادوشمار بہت کم ہیں کیونکہ سودی بینکاری کا مجموعی حجم 486 ہزار ارب ڈالر سے زائد ہے۔مسیحی فرقہ کیتھولک کے روحانی پیشوا پوپ کے ترجمان اخبار Osservatore Romano نے 4 مارچ 2009 کو ایک مضمون میں لکھا تھا کہ’’اسلامی مالیات کا نظام کاروباری اخلاقیات پر قائم ہے۔ جو بینکوں کو اس کے کلائنٹس قرضہ لینے والے اور کھاتیداروں کو قریب لاسکتا ہے۔ جو کہ مالیاتی خدمات میں ایک نئی اور حقیقی روح کے مترادف ہے۔
مغرب میں بینک اسلامی بانڈزکو سکوک کہتے ہیں، اسکو اپنا سکتے ہیں۔ ان سکوک کے ذریعے کار سازی کی صنعت اور آئندہ ہونے والے اولمپکس کے مالیاتی اخراجات کو پورا کیا جاسکتا ہے‘‘۔ اس سے قبل پوپ بینی ڈکٹ نے بھی مالیاتی بحران پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پیسہ ایسے غائب ہورہا ہے جیسا کہ تھا ہی نہیں۔اسلامی بینک سے مراد تمام وہ بینک جو شریعہ کے مختص کردہ اصولوں پر اپنے کاروباری معاملات کی لین دین کرے اور تمام لین دین عین شریعہ کے متعین کردہ دائرہ کےمطابق ہو-
موجودہ اسلامی بینکاری کا ماڈل 1963ءکو سب سے پہلے ملایشیاء اور مصر میں پیش کیا گیا بعد ازاں دیگرمسلم دنیا میں اس حوالے سے مسلسل کام ہوتا رہا- 1970ء تک اسلامک بینکنگ کو اتنی پذیرائی نہی حاصل ہو سکی لیکن بیسویں صدی کے بعد سے عالمی دنیا نےاس پر تحقیقی و تنقیدی کام شروع کیا-اس کی تحقیق اور رائج نظام اسلامی نظام حکومت کی مقبولیت 2007ء میں ہوئی جب ’’Economic Recession‘‘ رونما ہوا جس میں امریکہ سمیت مغربی دنیا کے بین الاقوامی مالیاتی ادارے بحران کی وجہ سے فروخت ہو رہے تھے،
جس کے بعد سے اسلامی نظامِ معیشت کو اپنایا گیا- اس نظام کو سمجھنے اور عملی جامہ پہنانے پر بات تب ہوئی جب2010 ء میں یورپ میں یورپین کرنسی کا بحران ’’یورو کرائسز‘‘ آیا –
اس پر یورپ کی یونیورسٹیز میں تحقیق شروع ہوئی اور بالآخر یورپ کی دنیا نے اپنے ممالک میں اسلامی بینکاری سے متعلق عملی اور تعلیمی سطح پر کوشش شروع کر دی جسے بطورایک متبادل نظام کے طورپر شامل کیا گیا-
اسلامک بینکنگ تحقیقی دور سے گزر رہی ہے جس کا تعلق مکمل طور پر علمی تحقیق سے ہے روایتی بینکاری نظام پر تین صدیوں سے تحقیق ہو رہی ہے، لاکھوں پی ایچ ڈی ، ام ایس، ایم فل ہو چکے ہیں جس کے نتیجے میں یہ ایک مالیاتی نظام بنا ہے جبکہ اسلامی بینکاری نظام ابھی اپنے تحقیقی مراحل میں ہے
امریکہ میں 1930 کو ہونے والی عظیم کساد بازاری نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ جس کے اثرات نے طویل عرصے تک عالمی معیشت کو متاثر کیے رکھا۔ ماضی قریب میں معاشی بحران نے پوری دنیا کو متاثر کیا اور اب دنیا آگے بڑھنے کےلیے نئے راستوں کی تلاش میں ہے۔آج ہم کو طلب و رسد کے مسائل کا سامنا ہے اور عام استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس سے معیشتوں میں انفلیشن، زر کا پھیلاؤ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ افراط زر بڑھ رہا ہے۔ جس عام آدمی کےلیے گزارا مشکل ہوگیا ہے۔مسلم دنیا میں پاکستان اسلامی بینکاری میں بھی قائدانہ کردار ادا کررہا ہے تاکہ روایتی بینکاری کو ختم کر کے مکمل اسلامی بینکاری کو اپنایا جائے۔ اس حوالے سے دنیا میں سب سے بڑی کوشش پاکستان میں کی گئی تھی اور پہلے مرحلے پر روایتی بینکوں کے مخصوص آپریشنز کو اسلامی کیا گیا تھا قرضے سودی سے اسلامی پر منتقل کیے گئے۔ پاکستان میں بینکوں کے روایتی سے اسلامی پر منتقل ہونے اور ان بینکوں کے کاروبار میں کمی کے بجائے بہتری آنے سے یہ نظریہ کہ اسلامی بینک منافع بخش نہیں ہوسکتے، یہ بھی ختم ہوگیا
اب اگر دنیا میں کوئی بھی بینک روایتی سے اسلامی پر منتقل ہونا چاہ رہا ہے تو پاکستان اس کو وہ افرادی قوت فراہم کرسکتا ہے جوکہ اس قسم کے کاروباری عمل کرنے کی بہترین مہارت رکھتی ہے۔ امید ہے کہ جلدحکومت بھی اپنا تمام کاروبار سودی سے اسلامی پر منتقل کردے گی اور اس سے حاصل کردہ تجربے کی روشنی میں پاکستان دنیا کو غیر سودی بینکاری نظام کے قیام کےلیےکرادار ادا کرسکے گا۔ سود سے پاک نظام ہی بہترین معاشی نظام ہے جس نے مدینے کو عالمی ریاست بنایا، اور یہی نظام امیہ، عباسی اور عثمانی خلافت کی شان و شوکت کی وجہ بنا۔ اس سے دوری ہمیں بحرانوں سے قریب کرتی رہی۔ اللہ کے بنائے ہوئے اصول ہی انسانی فلاح کےلیے بہترین ہیں۔ اسلامی بینکاری میں وہ تمام خوبیاں ہیں جو آج کو بہتر اور کل کو روشن رکھیں گی۔یاد رہے کہ مروجہ اسلامک بینکنگ فتوی سے یا تقوی سے چل رہی ہے –
اس بات کو سمجھنا ضروری ہے اگر فتوی سے اوپر کوئی چیز ہے تو وہ تقویٰ ہے- اکثر احکامات فتوی سے جائز قرار دیئے جاتے ہیں لیکن بعض لوگ اس میں بھی تقوی کی بنیاد پر احتیاط برتتے ہیں – اسی طرح اسلامک بینکاری فتوی سے جائز قرار دی گئی ہے اور بہت سے صاحب تقوی حضرات اپنے لئے کوئی بھی اسلامک پروڈکٹ استعمال نہیں کرتے چاہے وہ تکافل ہو یا مضاربہ، مشارکہ کا کاروبار ہو- اسلام نے ہمیشہ جائز ذرائع سے معاشی طور پر مضبوط ہونے کی ترغیب دی ہے- ہمارے رہنما قائد اعظم محمد علی جناح بہت زیادہ دلچسپی رکھتے تھے کہ ملک میں اسلامک بینکنگ کا نظام متعارف کرایا جائے- اسٹیٹ بنک کا بھی مقصد یہی تھا کہ ملک سے سودی نظام کو ختم کیا جائے-