اتوار,  08  ستمبر 2024ء
الیکٹرک بائیکس سے فحاشی کا خاتمہ

شہریاریاں۔۔۔ تحریر: شہریار خان

آج بہت سے لوگوں کو تکلیف ہو رہی ہے، تکلیف کیا ہے مرچیں لگی ہوئی ہیں۔۔ صبح سے وہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک شریف النفس قسم کے جج کے خلاف زہر اگل رہے ہیں کہ انہوں نے پنجاب حکومت کو الیکٹرک بائیکس کی تقسیم سے اس لیے روک دیا ہے کہ نوجوان ان الیکٹرک بائیکس پر ون ویلنگ کریں گے اور لڑکیوں کو چھیڑیں گے۔

آپ بے شک یہ بہانے بنائیں کہ ان بائیکس سے ون ویلنگ ممکن نہیں ہے مگر اس فیصلے سے جج صاحب کی شرافت تو جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔۔ وہ نہیں چاہتے کہ معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو۔۔ جج صاحب اپ اپنے فیصلے پر ڈٹ جائیں، میرے جیسے بہت سے لوگ آپ کے ساتھ ہیں جو چاہتے ہیں کہ معاشرے سے لچر پن کو ختم ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں، چاہے رات گئے تک خود وہ چینل دیکھیں جس پر کبھی این ٹی ایم والے ڈبے ڈبے بنا دیتے تھے۔

اب میں اور آپ ایسے ڈبے ڈبے والی سکرین سے صاف مناظر دیکھنے کے لیے ململ کا کپڑا آنکھوں پر ڈال کے نہ دیکھتے تو ہمیں کیسے پتا چلتا کہ ان فلموں سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اب اگر بعض نامی گرامی مولانا حضرات انگریزی یا بھارتی فلموں کی فرسٹ کاپی نہ دیکھیں تو ہمیں کیسے بتائیں گے کہ ان فلموں میں بے حیائی ہے۔۔ اس لیے جج صاحب نے بھی دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان موٹر بائیکس کی تقسیم پر پابندی لگائی ہے۔

کمال کی سوچ ہے، کیا تصور ہے؟؟۔ کوئی عام آدمی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ان بائیکس سے ایسے گندے کام بھی ہو سکتے ہیں، پنجاب حکومت کی نااہلی ہے کہ ان کے تھنک ٹینک یہ مستقبل کے مناظر نہیں دیکھ پائے کہ ان الیکٹرک بائیکس سے کیسے فحاشی پھیلنا تھی؟۔ اللہ ایسے جج صاحبان کو سلامت رکھے جو ان باریک وارداتوں کو روک لیتے ہیں۔
ایسی سوچ لانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اولڈ بکس میں سے ایسے انگریزی ناول پڑھیں جو کسی گمنام لکھاری نے تحریر کیے ہوں۔۔ اس کے علاوہ جیسے ہماری کلاس کے ٹیچرز یہ پہلے ہی جان لیتے تھے کہ کلاس کے نالائق اور بدمعاش قسم کے لڑکے کیا کرنے کی پلاننگ کرنے لگے ہیں۔ اس پر ہماری کلاس کے سب سے چالاک لڑکے کی رائے تھی کہ نوجوانی میں ہمارے ٹیچرز خود یہ کر چکے ہوں گے۔۔ آخر ثابت ہوتا ہے کہ تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔

دیکھئے ناں۔۔ ہمارے جج صاحبان ماشااللہ دور اندیش ہیں کہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی سیاسی جماعت کے کارکن بلیو ایریا اسلام آباد میں درختوں کو آگ لگاتے ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟۔ اس سیاسی جماعت کے وکلا سے پہلے عدالت عظمی کے جج صاحبان نے بتا دیا کہ یہ ان نوجوان کارکنوں نے درختوں کو آگ ایک خاص وجہ سے لگائی تھی۔

وجہ یہ تھی کہ پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کی تھی، اس شیلنگ کی وجہ سے سانس رک رہا تھا، اس شیلنگ کی شدت کم کرنے کے لیے سیاسی کارکنوں نے درختوں کو آگ لگا دی۔۔ اب اس بات سے اندازہ لگا لیجئے کہ ہمارے جج صاحبان ریسرچ کس طرح کرتے ہیں کہ بڑے بڑے سائنسدان بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ ان کی تعلیم میں کمی رہ گئی تھی جس سے انہیں اندازہ نہیں ہو سکا کہ درختوں کو آگ لگانے سے آنسو گیس کی شدت میں کمی لائی جا سکتی ہے۔

نیوٹن کی روح کانپ اٹھی یہ سوچ کر کہ ان کے نصیب میں صرف یہ تین قوانین حرکت کیوں آئے جن سے بچے چڑ کھاتے ہیں کہ یہ یاد کرنا مشکل ہوتا ہے مگر یہ لا آف موشن تو یاد کرنا آسان ہے کہ درختوں کو آگ لگانے سے آنسو گیس کی شدت کم کی جا سکتی ہے۔۔ اب یہ مغربی سائنسدان لاکھ وضاحتیں دیں کہ آگ جلانے سے تو اس شدت میں مزید اضافہ ہو گا کہ آکسیجن دینے والے درختوں کو آگ لگائی جا رہی ہے مگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مغربی ممالک مسلمانوں سے خائف ہیں۔ یہ ہماری ریسرچ سے بھی جلتے ہیں۔

میں تو جسٹس صاحب کے ساتھ ہوں کہ ان الیکٹرک بائیکس سے فحاشی پھیلے گی۔۔ فوری طور پر اقدامات ہونے چاہیئں کہ ان تمام چیزوں کا استعمال روک دیا جانا چاہیئے جن سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں فحاشی پھیلنے کا احتمال ہو۔۔ اس کے لیے میں بھی اپنے چند انتہائی قیمتی مشورے نذر جج صاحب کرتا ہوں۔
سب سے پہلے نمبر پر تو موبائل فونز کے استعمال پر پابندی عائد کی جائے کیونکہ آوارہ قسم کے لڑکے سستے پیکج لگوا کر رات رات بھر لڑکیوں سے باتیں کرتے ہیں جن سے معاشرے میں برائیاں پھیل رہی ہیں۔ آپ سے پہلے ان موے فونوں پر پابندی لگائیں ورنہ یہ کریڈٹ ایف بی آر لے جائے جو ٹیکس کے نام پر موبائل سم بند کروانے لگا ہے۔

دوسرے نمبر پر انٹر نیٹ بند کرنے کا حکم جاری کیا جائے جس کے ذریعے ہمارے نوجوان بچے فحش مواد دیکھ سکتے ہیں۔۔ یہ یقینناً انگریز نے اسی لیے ایجاد کیا تھا کہ وہ ہمارے معاشرتی اور اخلاقی اقدار تباہ کر دینا چاہتا ہے۔۔ یہ ختم ہو گیا تو ملک میں ہر طرف مذہبی ماحول ہو جائے گا۔

تیسرے نمبر پر انصاف کی کرسی پر بیٹھے منصف اگر یہ پارکس بند کروا دیں تو اس سے بھی معاشرتی بگاڑ میں کمی آ سکتی ہے کیونکہ وہاں اکثر کالج سے آنے والے لڑکے لڑکی جوڑوں کی شکل میں بیٹھے ہوتے ہیں اس لیے پارکس کو ختم کروا کے وہاں بھی کوئی “تعمیری” کام ہو سکے۔۔

سر میری ان تجاویز پر عمل کرتے ہوئے پلیز یہ احکامات جاری کیے جائیں بے شک یہ کریڈٹ مجھے نہ دیں۔۔ دیکھیں قوموں کی زندگی میں سخت فیصلے کرنے سے ہی اصلاح ہوتی ہے جیسے علامہ ضیا الحق کے دور میں عالمگیر کے گانے” دیکھا نہ تھا کبھی ہم نے یہ سماں،ایسا نشہ تیرے پیار نے دیا” میں سے نشے کا لفظ نکال دیا جس کے بعد ملک سے نشے کی لعنت کا خاتمہ ہو گیا۔ ایسے سخت فیصلے بہت ضروری ہیں، آپ ناقدین کی تنقید سے پریشان نہ ہوں۔۔ اور کوئی آپ کے ساتھ ہو یا نہ ہو۔۔ میں آپ کے ساتھ ہوں۔

مزید خبریں

FOLLOW US

Copyright © 2024 Roshan Pakistan News