پیر,  20 مئی 2024ء
ظلم کیخلاف آواز، انسانیت کا جذبہ

فلسطین اسرائیل جنگ نے جس طرح پوری دنیا کو ظلم کے خلاف یک آواز ہونے پر مجبور کیا ہے۔ اسکی مثال انسانی تاریخ میں شاید کم ملے۔ اسکے وجوہات کچھ بھی ہوں۔ لیکن آج کے انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ نے وہ نرم گوشہ پھر سے بیدار کیا جس کو محبت کا جذبہ کہا جا تا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بھی اسی لئے کہا کہ اسکو دنیا میں اپنے خلافت کے اعزاز سے نوازا۔ انسان کو زمین پر بھیجے جانے کا مقصد بھی یھی بتایا گیا کہ وہ اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کرے ۔ اور دوسرے تفویض کردہ اختیار کی انجام دہی اس طریقے سے کرے جس کی تربیت کیلئے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث فرمائے۔ ان میں سے کسی کو اللہ تعالیٰ نے وقتی تربیت کیلئے کتابچے سے نوازا اور بعض کو انسانی حقوق و فرائض اور طرز زندگی کے بارے میں تمام لوازمات سے آگاہی کے سلسلے جامع کتابوں سے نوازا کہ اگر اس پر عمل پیرا رہیںگے تو دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کی ضمانت دی جائی ہے۔ ورنہ برے انجام سے بھی آگاہ کر رکھا ہے۔ کہ بغاوت کرنے کا انجام بہت برا ہے۔

جیسا کہ انسان کو مجموعی طور پر کئی خصوصیات سے نوازا گیا ہے اسمیں ایک خصوصیت محبت کا جز بھی ہے۔ وہ ہر وقت انسان کے دل میں موجود رہتا ہے جو کسی نہ کسی شکل میں اظہا ر کو باعث بنتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی آدمی پیدل چلتا ہے۔ اسکے سامنے کوئ چیونٹی آئے جسکا پاؤں سے کچھلنے کا اندیشہ ہو تو وہ انسان اس چیونٹی کو پاؤں سے کچھلنے کی بجائے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ یعنی کمزور کیلئے اسکے دل میں محبت کا جذبہ موجزن رہتا ہے۔ اسی طرح اگر روڈ پر کہیں گاڑی ڈرائیو کر رہا ہے۔ اسکے سامنے کوئ بھی جانور یا حشرات الارض جائے تو ہر ممکن طریقے سے بچا نے کی کوشش کرتا ہے بعض اوقات اس طرز عمل میں آدمی کو مالی اور جانی نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے لیکن اپنے دل سے اس محبت کے جذبہ کو محو نھیں ہونے دیتا۔ چہ جائیکہ کسی انسان پر ظلم ہوتے ہوئے دیکھے اور چپ ہو کر خاموشی سے گذر جائے۔ پہلے کوشش کی جاتی ہے کہ ھاتھ روکے۔ ممکن نہ تو زبان سے برا بھلا ضرور کہتا ہے اگر وہ بھی ممکن نہ ہو تو دل میں ضرور لعن طعن بھیجتا ہے۔ اسکو ایمان کہا گیا ہے۔ حدیث شریف کے حوالے سے جیساکہ ایمان کے تین درجے بتائے گئے ہیں۔ آج کا انسان جب اسرائیلی مظالم دیکھ رہا ہے۔ تو اس کے دل میں بلا تخصیص رنگ، نسل اور مذہب کے خداوند کریم کا ودیعت کردہ محبت انسانی کا جذبہ غالب آریا ہے۔ جس کو وہ برداشت کرنے سے قاصر ہے۔ اور جوش و جذبہ کی شکل میں پوری دنیا میں فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے طور پر تحریک کی شکل میں نظر آرہا ہے۔ جس کو کنٹرول کر نا حکمرانوں کے بس سے باہر ہو چکا ہے۔ شمال سے جنوب اور مغرب سے مشرق تک تمام لوگ اسرائیلی مظالم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ایک طرف اسرائیل اپنے آپ کو تمام قوانین اور اخلاقی اقدار سے مبرا و ارفع سمجھتے ہیں اور دوسری طرف غرور و تکبر کے زعم میں خوش فہمی کا شکار بھی ۔
اسرائیل کیلئے پوری دنیا میں واحد امریکی حکمران نرم گوشہ رکھتے ہیں وہ نہ اسرائیل کو جنگ ہندی ہر رضامند کرسکتے ہیں اور نہ اسرائیل کو اقوام متحدہ کے پاس کردہ قوانین پر عمل درآمد کرانے کیلئے راضی کر سکتے ہیں۔ وہ اٹھ ماہ جنگ کے دوران صرف مسلم ممالک کے حکمرانوں پر دباؤ ڈالے رکھے ہوئے ہیں کہ فلسطین کے مجاھدین کی مدد سے گریز کریں۔ تاکہ اسرائیل کے خلاف وہ بڑی کارروائی کرنے کے قابل نہ رہیں۔ اس ضمن میں امریکی حکومت کو خاطر خواہ کامیابی تو نہ مل سکی۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ برملا چند ایک اسلامی ملکوں کے علاؤہ کسی نے بھی فلسطینی مجاہدین کی مدد نھیں کی۔ بلکہ اسرائیل کے پڑوسی مسلم ملکوں نے اسرائیل کیلئے بری اور بحری راستے بند کر دیئے جس سے اسرائیل کو تجارتی اور مالی مشکلات کے ساتھ ساتھ روانہ کی بنیاد پر اربوں ڈالرز کا نقصان اٹھا نا پڑ رہا ہے۔ امریکہ سے اسلحہ کی ترسیل میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس مسلہ کا حل امریکی حکمرانوں نے یہ تلاش کیا کہ سعودی عرب پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے دباؤ ڈالا جائے۔ امریکی حکومت نے سعودی عرب کو کہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرلے۔ تو امریکہ انکو جدید اسلحہ اور جدید جنگی طیاروں کی فروخت کے ساتھ دفاعی معاہدہ بھی کریگا۔ اس کے علاؤہ فلسطین کو تسلیم کرنے کا وعدہ بھی ۔ انکار کی صورت میں امریکہ جنگ کی حالت میں سعودی عرب کی مدد نھیں کرےگا۔ نہ اسلحہ فروخت کرےگا۔ امریکی حکام تمام آپشن پر غور کر رہے ہیں۔ جہاں دھونس اور دباؤ سے کام لیا جا سکتا ہے وہاں اپنا مقصد پورا کرنے کیلئے اس سے کام لے رہے ہیں جہاں منت و سماجت کی ضرورت پڑتی ہے وہاں پاؤں پکڑنے سے بھی گریز نھیں کرتے ۔ کسی نہ کسی طرح سے اپنا کام نکالنے اور مقصد پورا کرنے کیلئے ہر طرح کے حربے استعمال کر رہے ہیں۔ اس دھمکی آمیز پیغام کا ایک اور مقصد بھی ہے جس کو امریکی حکام منظر عام پر لانے سے فی الحال گریزاں ہیں۔ وہ یہ کہ اسرائیل فلسطین جنگ سے پہلے سعودی عرب نے ان تمام پڑوسی ممالک سے تعلقات بحال کرلئے تھے۔ جن کے ساتھ سالہا سال سے کشیدگی اور جنگی حالات کا سامنا تھا۔ اور دوسری طرف اسرائیل کو تسلیم کرنے کا بھی پیغام دیا گیا تھا۔۔اب امریکی حکومت ایک بار پھر سے سعودی عرب کو اس دور میں واپس لے جا نے کی کوشش کر رہا ہے ۔ جس سے تمام مسلم ملکوں کے عوام میں سعودی حکومت کے خلاف نفرت پیدا ہو۔ اسلامی ملکوں کے درمیان حالیہ اتحاد کا پھر سے خاتمہ کیا جائے جس کیلئے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ مسلم دنیا میں سعودی عرب کے خلاف بد اعتمادی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے علاؤہ روس اور چین سے سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے تعلقات کو روکنے کی کوشش کرکے غلط فہمیوں کا شکار کیا جائے۔ جیسا کہ ماضی میں محمد بن سلمان کو صدر ٹرمپ نے اپنے دور حکومت میں متنبہ کیا تھا۔ کہ امریکی حمایت کے بغیر وہ سعودی عرب میں پندرہ دن کیلئے بھی حکمرانی نھیں کرسکے گا ۔

مزید خبریں

FOLLOW US

Copyright © 2024 Roshan Pakistan News