هفته,  23 نومبر 2024ء
سیاسی اونٹ پاکستان میں ہی کیوں بدکتاہے؟

پاکستان بالعموم سیاسی عدم استحکام اور پنجاب باالخصوص آج کل گندم کی خریداری میں تعطل کی وجہ سے انتشار کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔ پاکستان کی سیاست کا اونٹ کسی بھی کروٹ بیٹھنے کو تیار نہیں ہے۔ اور پنجاب کا کسان گندم کا خریدار ڈھونڈنے میں سر گرداں ہے۔ جبکہ موسمی حالات بھی کسانوں کے لئے ناموافق نظر آتےہیں۔ اس ضمن میں ہم پہلے سیاسی اونٹ کے نہ بیٹھنے کا سرسری جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہ ہمیشہ سیاسی اونٹ پاکستان میں ہی کیوں بدک جاتا ہے۔ جس کا مہار کسی کے قابو میں نہیں آرہا۔ پہلے سیاسی جماعتوں کو اعتماد نہیں تھا کہ ا لیکشن وقت پر ہونگے یا نہیں اسی گومگو کی کیفیت میں الیکشن تو ہو گئے۔ جس میں سیاسی جماعتوں کو جہاں جہاں کامیابی ملی تو مبارکبادیں اور واہ واہ لیکن جہاں جہاں انہی سیاسی جماعتوں کو ہار کاسامنا کرنا پڑا تو سیاسی دھاندلی اور فارم 45 اور 47 کا رونا دھونا۔ اور الیکشن کمیشن سے لیکر اسٹبلشمنٹ تک سب کو ایک ہی دھاندلی کی لاٹھی ھانکا جانے لگا۔ سیاسی اونٹ کے بے قابو ہونے کا خدشہ ظاہر ہونے لگا۔ لیکن بھلا ہو۔ پی ٹی آئی کے وکلاء قیادت کا جنکو پہلی بار سیاسی میدان میں بھی وکالت کے جوہر دکھانے کا موقع ملا ہے۔ انہوں نے بدکے ہوئے سیاسی اونٹ کا مہار مولانا فضل الرحمان کے ہاتھ میں تھمادیا۔ جن کو یقین کامل تھا کہ مولانا فضل الرحمان اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت سیاسی اونٹ کو کسی کروٹ بیٹھا دینگے۔ ان وکلاء قیادت کا دوسرا مقصد یہ تھا۔ کہ عوامی سطح پر جتنا کیچڑ انھوں نے مولانا فضل الرحمان پر اچھالا ہے۔ جس سے انکے سیا سی کیرئیر پر کافی منفی اثرات پڑے ہیں۔ پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے اور انکی قیادت کرنے سے مزید پراگندہ ہونا مقصود تھا۔ لیکن وکلاء حضرات یہ بھول گئے تھے کہ مولانا فضل الرحمن کبھی گرم جگہ پر پاؤ ں رکھنے کا روادار نہیں ہے۔ جیسا کہ انکا سابقہ ریکارڈ ہے۔ کہ وہ وقت اور حالات کا جائزہ لیکر آگے قدم بڑھاتے ہیں۔ ورنہ اس وقت تک کسی جگہ ڈیرے ڈال کر انتظار کرتے ہیں۔ جب تک زمین اور حالات چلنے کیلئے موزوں نہ ہوں۔ اس بار بھی مولانا فضل الرحمان نے ایسا ہی کیا۔ حالانکہ اس کے بارے میں چہ میگوئیاں ہوتی رہی۔ جیسا کہ انکے سیاسی اونٹ کو میدان میں بٹھانے کی بات کی تھی۔ کہ اب فیصلے ایوان میں نھیں میدان میں ہونگے۔ جس سے پی ٹی آئی کی نو آزمودہ وکلاء قائدین بھت متاثر ہوئے اور ان کو اپنے بدکے ہوئے سیاسی اونٹ کو بیٹھنے کا مکمل یقین بھی ہو چکا تھا۔ لیکن عین وقت پر مولانا موصوف نے انکے بدکے ہوئے اونٹ کا مہار ایسا چھوڑ دیا۔ کہ پیچھے مڑ کر نھیں دیکھا کہ وکلاء اب کونسے میدان میں اپنے اونٹ کو لانے میں کامیاب ہونگے۔ یا پہر کسی عدالت کے چوکٹ پر جا کر سیاسی بدکے ہوئے اونٹ کا اتہ پتہ معلوم کرتے رہینگے۔ جیسا کہ ان کا مخصوص طریقہ کار ہے۔ ان نو آموز سیاسی وکلا قیادت کا حال اس بچے کی طرح ہے کہ اگر اس کو کوئی دوسرا بچہ ڈانٹ لے۔ تو وہ روتے ہوئے اپنے باپ کے پاس شکایت لیکر جاتا ہے۔ کہ فلاں بچے نے میری طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھا ہے۔ یہ بھی اسی طرح روتے ہوئے عدالتوں کے دروازے پر پہنچ جاتے ہیں۔ ان سے کوئی یہ پوچھے کہ اگر عدالتوں نے سیاسی فیصلے کرنے ہوتے تو تمام ججز عدالتوں کی بجائے ایوانوں میں بیٹھے ہوتے۔ جیسا کہ ثاقب نثار جیسے ججز نے ایوانوں کا کام عدالتوں میں سنبھال لیا تھا۔ بہر حال مولانا فضل الرحمان نے عین وقت پر اپنی سیاسی بصیرت سے کام لیتے ہوئے اپنے الگ سیاسی اونٹ کا مہار تھام کر اپنا راستہ الگ کرلیا ۔جس سے مذہبی حلقوں اور عوام نے سراہا۔ کیونکہ پی ٹی آئی کی قیادت نے مولانا فضل الرحمان اور اس کے جماعت کے رفقاء کے ساتھ اپنے دور اقتدار میں جو توہین آمیز رویہ اختیار کیا تھا۔ جس کے بارے میں یہ گمان بھی نھیں کیا جا سکتا تھا۔ کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی کبھی ایک جگہ بیٹھنے کے روادار بھی ہونگے۔ مولانا فضل الرحمان کے اعلان کے بعد دونوں جماعتیں اب اپنے اپنے سیاسی اونٹ علیحدہ علیحدہ اور الگ الگ راستوں پر لاکر اسلام آباد کے میدان بٹھانے کی کوشش کریںگے۔ جس کے امکانات فی الحال بھت کم نظر آرہے ہیں ۔ کہ وہ اس میں کامیاب ہو سکیں گے ۔

کسان اور پنجاب کے حکمران ایک دوسرے پر اعتماد کے عجیب کشمکش میں مبتلا ہیں۔ جیساکہ کسان قیادت نے پہلے لاہور میں سڑکوں پر اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کی کوشش کی ۔ شائد وہ پنجاب حکومت کو دباؤ میں لانا چاہتے تھے تاکہ جلد بازی میں اپنے حق میں ایسا فیصلہ کرایا جائے۔ جس سے مستقبل قریب میں عوام اور حکومت کے درمیان عدم اعتماد کی فضا پیدا ہو جائے۔ لیکن اس کا خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہ ہو سکا۔ تو دوسری طرف اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے انہوں نے احتجاج ملتوی کرنے کا مثبت فیصلہ کیا۔ جو صوبے کے بہترین مفاد میں تھا۔ کسانوں کے گندم کی فروخت کا مسلہ حل کرنے کیلئے پنجاب حکومت اور ن لیگ کی قیادت سر جوڑے بیٹھے ہیں ۔ کسانوں کے حق میں کچھ اچھے فیصلے کرنے کی نوید سنائی دی گئی ۔ جس نے انتشار کے آگ پر پانی پھینکنے کا کام کیا ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے۔ کہ کسانوں کے مطالبات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوششیں جاری ہیں ۔ جس کے مثبت اثرات مرتب ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔ کہ قوم کو مستقبل میں غذائی قلت کا سامنا نہیں کرنا پڑیگا۔ اس سلسلے میں پنجاب حکومت جامع پالیسی مرتب کر رہی ہے۔

مزید خبریں