تحریر :اصغر علی مبارک
او آئی سی کا سربراہی اجلاس گیمبیا کے شہر بنجول میں شروع ہوگیا ہے۔ ڈپٹی وزیراعظم پاکستان اسحاق ڈار نےاو آئی سی سربراہی اجلاس میں اسلامو فوبیا سے مشترکہ مقابلہ کرنے پر زوردیا ہے ڈپٹی وزیراعظم پاکستان اسحاق ڈارسربراہان مملکت اجلاس میں غزہ کی صورتحال, کشمیر کے حوالے سےآگاہ کیا
،نائب وزیر اعظم نے او آئی سی پر زور دیا کہ وہ عالمی انفارمیشن نیٹ ورکس/پلیٹ فارمز بالخصوص گلوبل سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اثرانداز ہونے کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی مرتب کرے
سربراہی اجلاس میں پاکستان کی ترجیحات میں اسلامو فوبیا کا خاتمہ، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا پرامن حل اور غزہ کے عوام کے خلاف اسرائیلی جارحیت اور نسل کشی کے خاتمے پر امت کا اجتماعی موقف شامل ہیں,ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں پاکستان کو متفقہ طور پر کانفرنس بیورو کا وائس چیئر منتخب کیا گیا ہے,نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار نے گیمبیا کے شہر بنجول میں منعقدہ 15ویں اسلامی سربراہی اجلاس کے موقع پر اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل حسین براہیم طحٰہ سے ملاقات کی ہے ۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق ملاقات کے دوران نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے 15ویں او آئی سی اسلامی سربراہی اجلاس کے کامیابی سے انعقاد پر سیکرٹری جنرل کو مبارکباد دی۔ اس موقع پر نائب وزیراعظم محمد اسحاق ڈار نے بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کے بارے میں شدید تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک، تشدد اور اشتعال انگیزی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنے کے لیے مشترکہ کارروائی کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین کے خلاف اسرائیل کی جارحیت کے نتیجے میں دنیا بھر میں اسلامو فوبیا اور زینو فوبیا کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے سیکرٹری جنرل کو بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال اور وہاں بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے طاقت کے بے تحاشا استعمال کے بارے میں آگاہ کیا۔ انہوں نے کشمیری عوام کی منصفانہ جدوجہد کی حمایت میں او آئی سی کے تاریخی کردار کا ذکر کرتے ہوئے کشمیر پر او آئی سی کے رابطہ گروپ اور کشمیر کے بارے میں خصوصی ایلچی کے کردار کو سراہا۔
او آئی سی کے سیکرٹری جنرل نے کشمیری عوام کے لیے او آئی سی کی حمایت اور او آئی سی کی مختلف قراردادوں میں ان کے جائز حق خودارادیت کی تصدیق کی۔ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے غزہ میں جاری نسل کشی اور وہاں کی سنگین انسانی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے خطے میں تنازعات میں اضافے پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور فلسطینیوں کو فوری جنگ بندی اور انسانی امداد کی بلا تعطل فراہمی پر زور دیتے ہوئے پاکستان کے اصولی موقف کا اعادہ کیا۔ انہوں نے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے او آئی سی کی کوششوں اور اقدامات کو بھی سراہا اور ان اقدامات کے لیے پاکستان کی مکمل حمایت کا اظہار کیا۔ ملاقات کے دوران جن دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ان میں دنیا کے مختلف حصوں میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی،دہشت گردی اور او آئی سی ممالک کو مشترکہ حل تلاش کرنے پر کام کرنے کی ضرورت شامل ہے۔
اجلاس کے دوران، او آئی سی کے وزرائے خارجہ نے سینئر آفیشلز میٹنگ (ایس او ایم) کی رپورٹ کو اپنایا ،مختلف دستاویزات کو حتمی شکل دی، جن میں مسئلہ فلسطین، او آئی سی سربراہی کانفرنس کا حتمی اعلامیہ اور بنجول اعلامیہ شامل ہیں،نائب وزیر اعظم پاکستان اسحاق ڈار نےکہا کہ گستاخانہ اور اسلام مخالف مواد کے معاملے میں ایسا نہیں ہے جو وسیع پیمانے پر پریشانی کا ذمہ دار ہے،اسلامو فوبیا کا اظہار دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک، تشدد اور اشتعال انگیزی کے بڑھتے ہوئے واقعات سے ہوتا ہے،اگرچہ عالمی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے اپنے لیے ایک واضح تفہیم اور پابندی کا تعین کیا ہے جس میں “سام دشمنی” اور “ہولوکاسٹ سے انکار” سے متعلق مواد کی ذمہ داری ہے
نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نے بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنے کے لیے او آئی سی کے مشترکہ اقدام کی ناگزیر ضرورت پر زور دیا ،انہوں نے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے لیے پاکستان کی غیر متزلزل سفارتی حمایت کا وعدہ کیا،نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے فلسطینی عوام کے ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت کے لیے پاکستان کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا،موجودہ بحران کا واحد مستقل حل ایک محفوظ، قابل عمل، متصل اور خودمختار ریاست کے قیام میں مضمر ہے، فلسطین جون 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ہے، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہے،اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل دشمنی کے خاتمے کے لیے اپنی قرارداد 2728 پر فوری عمل درآمد کو یقینی بنائے،اسحاق ڈار نےدو ریاستی حل کے حصول کو محفوظ بنانے کے لیے ایک جامع، شفاف، اور ناقابل واپسی امن عمل کا جلد از جلد دوبارہ آغاز پر زوردیااورکہا کہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت پر او آئی سی کی وزارتی کمیٹی کا دوبارہ فعال ہونا چاہئے،نائب وزیراعظم نے اسرائیل کی طرف سے طاقت کے اندھا دھند استعمال اور غزہ کے غیر انسانی محاصرے کا فوری خاتمے پر جدو جہد کا مطالبہ کیا
گیمبیا, دی نیور اگین یادگار بنجول کے سائے میں اسلامی تعاون تنظیم کےسربراہی اجلاس کا یہ 15 واں ایڈیشن ہے۔ سربراہی اجلاس5 مئی 2024 تک ہوگا۔ او آئی سی کے ستاون (57) رکن ممالک کے صدور، بادشاہ، سلطان، وزرائے اعظم، حکمران اور دیگر عالمی رہنماؤں کی شرکت کررہے ہیں,اسحاق ڈار او آئی سی سربراہی اجلاس میں شریک رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کریں گے۔گیمبیا او آئی سی کا سربراہی اجلاس جو کہ اصل میں 2020 میں شیڈول تھا لیکن تیاریوں کی کمی کی وجہ سے اسے تین بار ملتوی کر دیا گیا تھاافریقہ کا سب سے سرزمین والا ملک نومبر 2023 کے سربراہی اجلاس کی تاریخ سے پہلے بنجول انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ڈوئل کیریج ویز، ایک سمٹ ہوٹل، ایک بین الاقوامی کانفرنس سینٹر، اور وی وی آئی پی لاؤنج جیسے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو مکمل کرنے میں ناکام رہااسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) جو کہ اقوام متحدہ کے بعد دوسری بڑی تنظیم ہے اپنے قیام سے غیر موثر ہے گزشتہ چھ ماہ سے دنیا کے مسلمان صرف تنقید کر رہے ہیں لیکن عملی طور پر غزہ کے لوگوں کے لیے کچھ نہیں کر رہے۔او آئی سی دنیا بھر کے 1.2 ارب مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا کہ اس تنظیم نے اپنے پلیٹ فارم سے اپنے قیام سے لے کر آج تک مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ اور مسائل کے حل کے سلسلے میں سوائے اجلاسوں کے کچھ نہیں کیا 28 جون، 2011ء کو آستانہ، قازقستان میں اڑتیسویں وزرائے خارجہ اجلاس کے دوران میں تنظیم نے اپنا پرانا نام تنظیم موتمر اسلامی کو تبدیل کرکے نیا نام اسلامی تعاون تنظیم رکھا,اس وقت تنظیم نے اپنا لوگو بھی تبدیل کر لیا۔
تنظیم تعاون اسلامی ایک بینالاقوامی تنظیم ہے جس میں مشرق وسطی، شمالی، مغربی اورجنوبی افریقا، وسط ایشیا، یورپ، جنوب مشرقی ایشیا اور برصغیر اور جنوبی امریکا کے 57 مسلم اکثریتی ممالک شامل ہیں۔ او آئی سی میں پالیسی ترتیب دینے میں سب سے اہم کام رکن ممالک کے سربراہان کا اجلاس ہے، جو ہر تین سال بعد منعقد ہوتا ہے۔
سال میں ایک مرتبہ فیصلوں پر عملدرآمد کی صورت حال اور غور کے لیے وزرائے خارجہ کا اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔ طالبان کے افغانستان میں بر سر اقتدار آنے کے بعد ملک کی تشویشناک صورت حال اور سنگین انسانی بحران کے خدشے کے باعث پاکستان کی کوششوں سے سعودی عرب کی دعوت پر او آئی سی وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس 19 دسمبر 2021 کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ہوا۔ 21 اگست 1969ء کو مسجد اقصی پر یہودیحملے کے رد عمل کے طور پر 25 ستمبر 1969ء کو مراکش کے شہر رباط میں او آئی سی کا قیام عمل میں آیا
او آئی سی کا مستقل دفتر سعودی عرب کے شہر جدہ میں قائم ہے۔ اس وقت او آئی سی کے سیکرٹری ایاد بن امین مدنی ہیں جن کا تعلق سعودی عرب سے ہے۔ وہ 31 جنوری 2014ء سے اس عہدے پر فائز ہیں۔ مسلمانوں کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیےگیمبیا, بنجول سربراہی اجلاس کا لوگو سابقہ انتظامیہ کے تحت ملک کے مشکل ماضی اور ساتھ ہی نئے گیمبیا میں انصاف اور خوشحالی کے لیے نئی امید اور کوششوں کا اعتراف ہے۔ اس یادگار کو علامتی شکل دینے کے لیے اس سے بہتر کوئی اور نمونہ نہیں ہو سکتا کہ بنجول میں دی نیور اگین یادگار۔ اگرچہ 1994 میں حکومت کی غیر آئینی تبدیلی کی یاد میں تعمیر کیا گیا تھا، صدر اڈاما بیرو نے برسوں کے جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متاثرین کے اعزاز میں عمارت کا نام تبدیل کیا اور اسے دوبارہ تعمیر کیا۔
غزہ جنگ میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 34 ہزار سے زیادہ ہےمزید برآں سربراہی اجلاس سےقبل سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں عرب اور مسلم حکام کے اجلاس میں عالمی برادری پر زور دیا گیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف ’جنگی جرائم‘ کے جواب میں اسرائیل پر ’موثر پابندیاں‘ عائد کرے۔ سعودی وزیرِ خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے غزہ کی جنگ پر تبادلۂ خیال کے لیے وزارتی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کی تھی ۔ یہ کمیٹی مشترکہ عرب اسلامی غیر معمولی سربراہی اجلاس کی طرف سے تفویض کردہ ہے۔ اجلاس میں اردن، مصر اور ترکی کے وزرائے خارجہ کے علاوہ قطر، فلسطینی اتھارٹی اور اسلامی تعاون تنظیم کے حکام نے شرکت کی تھی سعودی وزارتِ خارجہ حکام نے بین الاقوامی برادری سے اسرائیل پر “مؤثر پابندیاں” لگانے کا مطالبہ کیا تھا اور ملک کو ہتھیاروں کی برآمدات روکنے جیسے اقدامات کی وکالت کی تھی ۔ حکام نے اسرائیل پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے اور غزہ اور مغربی کنارے دونوں میں “جنگی جرائم” کا ارتکاب کرنے کا الزام لگایا اور جنوبی غزہ کے شہر رفح پر اسرائیل کے حملے کی مخالفت کا اظہار کیا تھا جس کا طویل عرصے سے خدشہ ہے۔ سعودی وزارتِ خارجہ نے اپنی ویب سائٹ پر کہا تھا کہ حکام نے “ان جرائم پر اسرائیلی حکام سے جواب طلبی کے لیے بین الاقوامی قانونی ذرائع کو فعال کرنے، آبادکاروں کی دہشت گردی کو روکنے اور اس کے خلاف واضح اور مضبوط مؤقف اختیار کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔” مذاکرات میں فلسطینیوں کو ان کی آبائی زمینوں سے بے گھر کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرتے ہوئے دو ریاستی حل کو آگے بڑھانے کے راستے تلاش کیے گئے۔ حکام نے مغرب میں فلسطینی حامی مظاہرین کے خلاف کیے گئے اقدامات پر بھی تشویش کا اظہار کیاتھا ۔
خیال رہےکہ شہزادہ فیصل نے غزہ کی جنگ پر تبادلۂ خیال کے لیے ریاض میں چھے فریقی عرب وزارتی گروپ کے اجلاس کی صدارت کی تھی وزیر خارجہ سعودی عرب شہزادہ فیصل بن فرحان کا غزہ کی صورتحال کو ہر حوالے سے تباہی کن کہتے ہوئے ورلڈ اکنامک فورم کانفرنس میں کہنا تھا کہ غزہ میں ہونے والی مسلسل تباہی اس امر کو نمایاں کرتی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر امن اور سلامتی کے لیے موجود ‘میکانزم ‘ ناکام ہوگیا ہے ۔
سعودی عرب کو بہت امید ہے کہ رفح میں اسرائیل کی جنگی کاروائی سے پہلے حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پاجائے گا ۔ واضح رہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے کہا تھا کہ اگلے چند دنوں میں فلسطینی عوام رفح پر اسرائیلی حملہ دیکھ رہے ہیں ۔انہوں نے مزید کہا رفح پر ہونے والا ممکنہ حملہ ایک بار پھر لاکھوں فلسطینیوں کی نقل مکانی کا باعث بنے گا جیسا کہ غزہ میں ہوا ہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ کا غالب حصہ تباہی کرکے ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے اور لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھر کر کے نقل مکانی پر مجبور کردیا ہے نتیجہ یہ ہے کہ غزہ اس وقت ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے ۔ لگ بھگ ساڑھے 34000 فلسطینیوں کی اس غزہ جنگ میں ہلاکت کا چکی ہے جن میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے ۔ وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کہنا تھا کہ ہمارے لیے زیادہ پریشانی کی ایک بات یہ ہے کہ غزہ جنگ کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر سلامتی کے لیے بروئے کار میکانزم مکمل طور پر ناکام نظر آرہاہے ۔حتی کہ یہ میکانزم انسانی بنیادوں پر جنگ زدہ غزہ کے لوگوں کے لیے خوراک کی تقسیم اور ترسیل ممکن بنانے کے لیے بھی ممکن نہیں نظر آتا ۔ یہ بحث کبھی ختم نہ ہونے والی رہے گی کہ غزہ کے مسلمانوں کی مدد کے لیے کافی امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوسکے ہیں یا نہیں ۔ یہ صورتحال تباہ کن اور بہت خوفناک ہے ۔ حتی کہ تباہ کن سے بھی زیادہ بدترین ہے ۔ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اس موقع پر مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے بارے میں سعودی موقف کا اعادہ کیا اور کہا تھا کہ ‘یہی ایک قابل بھروسہ ،جائز اور معقول حل ہے ۔ اس حل کو اپنانے کے لیے یہ ضمانت دینا ہوگی کہ ہم بحران کو دوبارہ جنم نہیں لینے دیں گے۔
خیال رہےکہ وزیراعظم پاکستان شہبازشریف نےسعودی سرمایہ کاروں کے وفد کی پاکستان آمد کے باعث سربراہی اجلاس گیمبیا بنجول کا دورہ منسوخ کیا ہے ۔۔ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار 2 اور3 مئی وزرائے خارجہ اجلاس اور 4 سے 5 مئی کو سربراہان مملکت اجلاس میں پاکستان کے وفد کی قیادت کریں گے ۔ ڈپٹی وزیراعظم غزہ کی صورتحال, کشمیر کے حوالے سے فورم کو آگاہ کرینگے ، 1950 میں جنم لینے والے ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار 80 کی دہائی کے اواخر سے سیاسی منظر نامے پر، پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرکزی مجلسِ عاملہ کے رکن کی حیثیت سےموجود ہیں۔ سینیٹ میں اپویشن لیڈر، اسحٰق ڈار کو مالیات و اقتصادیات کے شعبے میں ان کی اہلیت کی بنا پر قابلِ تعظیم نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ 99-1997 پر محیط نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں وفاقی وزیرِ خزانہ، اقتصادی امور، ریونیو اور شماریات رہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اہم شخصیت خیال تصور کیے جانے والے اسحٰق ڈار 2002 سے پارٹی کے عالمی امور کی نگرانی کرتے آرہے ہیں۔ 4 بار رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہونے کے علاوہ، وہ متعدد بار سینیٹ کے رکن بھی منتخب کیے جاچکے ہیں اور زیادہ تر انہیں سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر کا منصب سونپا گیا۔ وفاقی وزیر کی ذمہ داریاں سونپے جانے سے قبل وہ 93-1992 کے دوران وزیرِ مملکت / پاکستان انویسٹمنٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو بھی رہے۔ وہ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے بھی صدر بھی رہ چکے ہیں۔ 2008 میں وہ مختصر مدت کے لیے وفاقی وزیرِ خزانہ رہے مگر جب ان کی جماعت نے وفاق میں پی پی پی کی سربراہی میں قائم مخلوط حکومت سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا تو اسحٰق ڈار نے عہدے سے استعفٰی دے دیا تھا۔ جب 2013 میں مسلم لیگ(ن) دوبارہ اقتدار میں آئی تو وزیر خزانہ کے عہدے کے لیے قرعہ فال ایک بار پھر اسحٰق ڈار کے نام نکلا اور پھر 2022 میں اتحادیوں نے جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ذریعے دوبارہ حکومت سنبھالی تو چند ماہ اقتصادی امور کی نگرانی کرنے والے مفتاح اسمٰعیل کی جگہ ملک کی وزارت خزانہ کی ذمے داریاں دوبارہ اسحٰق ڈار کو سونپی گئی تھیں۔ وہ سینیٹ کی مختلف قائمہ کمیٹیوں کے بھی رکن ہیں۔ جن میں دفاع و دفاعی پیداوار، امورِ کشمیر و گلگت ۔ بلتستان، تجارت و خزانہ، روینیو، اکنامکس افیئرز، شماریات، منصوبہ بندی اور ترقیات و نجکاری کی کمیٹیاں شامل ہیں۔
ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار آئینی اصلاحات کے لیے قائم کردہ اُن پارلیمانی کمیٹیوں کا بھی حصہ رہے جس نے وہ مسودہ قوانین تیار کیے، جن کے تحت آئین میں کی جانے والی 18ویں، 19ویں اور 20ویں ترمیم ممکن ہوسکیں۔ ان کی شان دار پارلیمانی خدمات کے اعتراف میں پیپلز پارٹی کی سربراہی میں قائم مخلوط حکومت نے 2011 میں انہیں ملک کے اعلیٰ ترین سول اعزاز نشانِ امتیاز سے نوازا تھا۔گورنمنٹ کالج لاہور، پنجاب یونیورسٹی اور انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس انگلینڈ اینڈ ویلز جیسے معتبر تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈارنے متعدد عالمی اہمیت کے حامل مالیاتی اداروں بشمول ورلڈ بینک، ایشین ڈیولپمنٹ بینک اور اسلامی ترقیاتی بینک میں بھی خدمات انجام دی ہیں۔ وہ متحدہ عرب امارات کے حکمراں خاندان کے ایک رکن کے مالیاتی مشیر بھی رہ چکے ہیں۔مسلم امہ کو غزہ کی صورتحال پر تشویش ہے۔ یاد رہےکہ چند روز قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے دورہ سعودی عرب میں وزیر خارجہ اسحٰق ڈار کو نائب وزیراعظم مقرر کیا ہے۔ حکومت پاکستان کے کابینہ ڈویژن سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے وزیر خارجہ اسحٰق ڈار کو تاحکم ثانی فوری طور پر نائب وزیر اعظم مقرر کیا ہےترجمان دفتر خارجہ ممتاززہرہ بلوچ کا کہنا ہےکہ سعودی سرمایہ کاروں کا وفد چند روز میں پاکستان پہنچے گا ۔ وزیراعظم شہبازشریف وفد سے ملاقات کریں گے ۔سعودی عرب نے ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے اس سے قبل نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار نے گیمبیا کے شہر بنجول میں منعقد ہونے والے اسلامی سربراہی اجلاس کے لیے وزرائے خارجہ کی تیاری کے اجلاس میں شرکت کی۔
اس سال سربراہی اجلاس کا موضوع ’’پائیدار ترقی کے لیے بات چیت کے ذریعے اتحاد اور یکجہتی کو بڑھانا‘‘ ہے۔ اجلاس کے دوران پاکستان کو متفقہ طور پر او آئی سی کے 15ویں اسلامی سربراہی اجلاس کے لیے بیورو آف وزرائے خارجہ کی تیاری کے اجلاس کا نائب صدر منتخب کیا گیا۔ نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نے اس موقع پر خطاب کرتے گیمبیا کے وزیر خارجہ ممداؤ تنگارا کو سیشن اور 15ویں اسلامی سربراہی اجلاس کی صدارت سنبھالنے پر مبارکباد دی اور سعودی عرب کے سبکدوش ہونے والے سربراہ کے کردار کو سراہا۔ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے غزہ کے عوام کے خلاف اسرائیلی جنگ کی وجہ سے گزشتہ کئی مہینوں سے غزہ کے عوام کی جاری نسل کشی اور غذائی قلت پر پاکستان کی گہری تشویش کا اظہار کیا۔